تحریر: میر افسر امان تحقیق دنیا کے ہر مذہب معاشرے میں ہوتی ہے مگر تحقیق میں واقعات کو سیاق وسباق سے ہٹا کر اپنی مرضی کے نتائج کے مطابق بیان کرنا ہمیشہ سے ناپسند کیا گیا ہے۔ قیام پاکستان اور قائد محترم پر تحقیق کاکام کرنے والے نام نہاد محقق جوبنیادی طور پر پاکستان کے قیام کے ہی مخالف ہیں۔ جو بنیادی طور پر سیکولر ہیں بلکہ یوں کہیں کہ مذہب بیزار ہیں یا یوں کہا جائے کہ اُن کا اپنا اپنا مکتبہ فکر ہے ۔اپنی اپنی سیاسی سوچ ہے ۔بلکہ یہاں تک کہا جا سکتا ہے کہ یہ اسلام کے کسی خاص فرقے کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ ہمارے نزدیک وہ پیٹ کے بندے بن گئے ہیں۔ ان حضرات نے قائد کی روح کو ہر طرح سے دُکھ پہنچانے کی کوششیں کیں ہیں اور ایک منظم سازش کے تحت اب بھی کر رہے ہیں۔یہ حضرات قائد کو سیکولر ثابت کرنے کی جتنی بھی کوششیں کریں ان شاء اللہ کامیاب نہیں ہونگے۔
میرا قائد اسلام کا سچا شیدائی تھا۔ قائداعظم کی برسی کے حوالے سے احباب نے میری فیس بک پر کچھ ویڈیو پوسٹ کی تھیں جن میں سے دو قارئین کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔ ان دو ویڈیو کو دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ نام نہاد سیکولر عناصر کس طرح جُھوٹ کے پلندے باندھ کر طرح طرح سے قائد اعظم کی روح کو دُکھ پہنچا رہے ہیں ۔ایک ویڈیو جس میں ایک ٹی وی پروگرام میں ہود بھائی صاحب، ایم کیوایم کے حیدر عباس رضوی صاحب، جماست اسلامی کے اسسٹنٹ سیکرٹری فرید پراچہ صاحب اور ملک کے مشہور کالم نگار اور دانشور جناب اُوریا مقبول جان صاحب شریک تھے۔ اِس پروگرام میں قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنے والے دو صاحبان کو اُوریا مقبول جان نے ایک ڈاکومنٹ پیش کر کے چت کر دیا۔
دوسری ویڈیو جس میں ڈاکٹر اسرارصاحب (مرحوم)نے اپنی حیات میں وقت ٹی وی کو انٹر ویو دیا تھا۔ اس انٹر ویو میں وقت ٹی وی کے اینکر کو ایک تحریر کا حوالہ دے کر پاکستان کے بانی کے خلاف سیکولر کے حامی حضرات کے منہ بند کر دیے تھے۔ ان دونوں ویڈیوز کی روداد بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جھوٹ اور سچ پاکستان کی عوام کے سامنے آ جائے۔
Pakistan
وقت ٹی وی کے پروگرام میںایکر پرسن سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب (مرحوم)سربراہ تنظیم اسلامی نے جنگ اخبار میں ریاض علی شاہ جو کہ قائد اعظم کے معالج تھے کی ڈائری کے حوالے سے کہا کہ موت کے آخری دنوں میں قائد اعظم بیماری سے بہت کمزور ہو چکے تھے اور زبان پر کچھ آتا تھا مگر بول نہیں سکتے تھے ہم نے اُن کو دوائی دی کہ کچھ نہ کچھ گفتگو کر لیں ورنہ جو کچھ بھی بولنا چاہتے ہیں وہ بول لیں کیونکہ یہ قوم کی امانت ہے اور راہ جائے گی تو قومی نقصان ہو گا۔
ہم نے قائد اعظم کو اس مقصد کے لیے داوئی دی اس کے استعمال کے بعد جو قائد اعظم نے جو جملے کہے وہ یہ ہیں جواخبار جنگ کی ااستمبر ١٩٨٨ء کی اشاعت قائد اعظم کی چالیسویں برسی کے موقعہ پر مضمون شائع ہوا تھا میں بیان کئے گئے ہیںڈاکٹر پروفیسر ریاض علی شاہ کی ڈائری کا صفحہ کے حوالے سے قائد اعظم کی گفتگو جو ڈاکٹر پروفیسر ریاض علی شاہ اور کرنل الہی بخش کی موجودگی میں قائد اعظم نے موت سے دو دن پہلے کہا تھا”آپ کو اندازہ نہیں ہو سکتاکہ مجھے کتنا اطمینان ہے کہ پاکستان قائم ہو گیا اور یہ کام میں تنہا نہیں کر سکتا تھا جب تک رسول ۖ ِ خدا کا مقامی فیصلہ نہ ہوتا اب جبکہ پاکستان بن گیا ہے اب یہ لوگوں کا کام ہے کہ خلفائے راشدین کا نظام قائم کریں۔”دوسری ویڈیو کچھ اس طرح ہے اوریا مقبول جان نے جیو کے ایک ٹی وی پروگرام میں ہود بھائی صاحب اور ایم کیو ایم کے نمایندے حیدر عباس رضوی صاحب کے ساتھ گفتگو کی جو قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنے کا ایڑی چوٹی کازور لگا رہے تھے اوریا مقبول جان نے ڈاکومنٹری ثبوت پیش کر کے ان کو زچ کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ ٹی وی کیمرے والے سے درخواست بھی کی کہ اسے ذرا قریب کر کے ناظرین کو بھی دکھائیں تاکہ یہ عام پاکستانیوں کو بھی معلوم ہو جائے۔
اس ڈاکومنٹ کے مطابق قائد اعظم نے خود اگست١٩٤٧ء میں ہی ایک واحد ڈیپارٹمنٹ قائم کیا تھا جس کا نام ” ڈیپا ٹمنٹ آف اسلامک ڈیکرلیشن” ہے اس ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ مشہور نو مسلم علامہ محمد اسد کو بنایا گیا تھا۔ اس ڈاکومنٹ کے مطابق اُن کے ذمے پاکستان کا اسلامی آئین بنانا تھا۔ جس میں اسلامی معاشیات، اسلامی تعلیم اوراسلامی سوشل سسٹم ہو اس ڈیپارٹمنٹ کے لیے بجٹ کے لیے قائد اعظم نے خود خط پاکستان کے مالیاتی ادرے کو بھی لکھا تھا۔ جو اب بھی ریکارڈ کے اندر موجود ہے اس ڈاکومنٹ کی کاپی اس خط کے ساتھ منسلک تھی جبکہ حکومت میں موجود اسلام دشمن قوتوں نے اکتوبر١٩٤٨ء میں ریکارڈ کو آگ لگا کر اس ڈاکومنٹ کو ضائع کر دیا تھا۔ مگر خوش قسمتی سے اس ڈاکومنٹ کی ایک کاپی جو اس خط کے ساتھ منسلک تھی جو قائد اعظم نے اس پروجیکٹ کے لیے بجٹ مہیا کرنے کے لیے خط لکھا تھا اوریا مقبول جان نے ریکارڈ سے حاصل کی اور قوم کے سامنے اس ٹی وی پروگرام رکھ دی۔
قائد اعظم کی روح کے ساتھ کتنا ظلم ہے جو یہ سیکولر لوگ کر رہے ہیں مگر جس نور کو اللہ روشن کرنا چاہے اسے دشمن ضائع نہیں کر سکتے۔ ثبوت کے طور پر جس کا جی چائے وہ اوریا مقبول جان کے پاس اس ڈاکومنٹ کو دیکھ سکتا ہے۔ اسی تسلسل میں ایک مذیدثبوت کہ پاکستان بننے کے فوراً بعد قائد اعظم نے مولانا مودودی کے ذمے یہ کام لگایا تھا کہ وہ قوم کے سامنے اسلام کے عملی نفاذ کا نقشہ ریڈیو پاکستان کے ذریعے بیان کریں مولانا مودودی نے قائد اعظم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسلام کے عملی نفاذ کے لیے ریڈیو پاکستان سے کئی تقریرں کیں تھیں جو ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ میں اب بھی موجود ہیں اور ہزاروں پاکستانیوں نے اسلام کے عملی نفاذ کے لیے یہ تقریریں سنی بھی تھیں ہماری دعاء کہ اللہ اس ریکارڈ کی حفاظت کرے کہیں اس ریکارڈ کو بھی جلا نہ دیا جائے ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ قائد اعظم نے جو مسلمانان برصغیر کے لیے پاکستان مطلب کیا لا الہ الااللہ کے نعرے سے حاصل کیا اس مقصد کے ساتھ کتنے پر خلوص تھے۔
اسلام سے الرجک لوگ قائد اعظمکو سیکولر ثابت کرنے کے لیے جھوٹ کے پہاڑ بھی کھڑے کر دیں۔ مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں کہ قائد اعظم پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانا چاہتے تھے مگر زندگی نے وفا نہ کی اور پاکستان بننے کے بعد جلد ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اس کے بعد جس ساتھیوں کو جیب کے کھوٹے سکے کہا تھا وہ واقعی کھوٹے سکے ثابت ہوئے اور اقتدار کے لیے پاکستان پر یکے بعد دیگرے قابض ہوتے رہے ۔پاکستان میںبار بار وزارتیں تبدیل ہونے پر پاکستان کے دشمن پنڈت جواہر لال نہرو نے طنزیہ کہا تھا کہ میں اتنی شیروانیا ں تبدیل نہیں کرتا جتنے پاکستان میں حکمران تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔آج بھی مملکت پاکستان میں اُسی ذہنیت کے لوگ قابض ہیں جو اس کے اسلامی ہونے پر خاہ مخواہ کا بیر رکھتے ہیں۔
Islam
دوسری طرف قائد اعظم کے ویژن کے مطابق پاکستان کے خیر خواہوں نے پاکستان بنتے ہی اسلام کے نفاذ کی عملی کوششیں شروع کر دی تھیں جس میں دستوری مہم بھی شامل تھی۔ ان کوششوں میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ مولامودودی اورقائد اعظم کے تحریک پاکستان کے دوران کے ساتھی مولانا شبیر احمد عثمانی سر فہرت ہیں یہ کوششیں ١٩٧٣ء کے اسلامی دستور کی کامیابی پر منتج ہوئیں اوراسلامی دستور بن گیا۔جس دستور میں کہا گیا ہے کہ اس ملک میں اسلام کی منافی کوئی بھی قانون سازی نہیں ہو سکتی اور اگر کوئی قانون اسلام کے خلاف ہے اسے تبدیل کر دیا جائے گا۔
اس دستور کے تحت ایک اسلامی نظریاتی کونسل بھی قائم ہے جس کا کام دستور سے غیراسلامی دفعات کو ختم کروانا ہے اسلامی نظریاتی کونسل نے اس کام کے لیے محنت کر کے حکومت کو کافی مواد مہیا کیا ہوا ہے مگر آج تک انگریز کے پیدا کردہ کالے انگریزوں نے اس پر پارلیمنٹ میں بحث کرکے قانونی طور پر آئین کا حصہ نہیں بنایا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا گراں قدر کام ریکارڈ اب بھی مووجود ہے۔
سود کو ہی لے لیجیے اس کو قرآن شریف میں اللہ اور رسول ۖکے خلاف جنگ کہا گیااس کو شرعی عدالت نے بھی حرام قرار دیا ہے مگر ہماری موجودہ حکومت کے سربراہ نواز شریف صاحب جب اس سے قبل ملک کے حکمران تھے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی تھی جہاں آج تک اس کو معلق رکھا گیاہے۔ اوپر بیان کردہ صرف تین واقعات سے ہی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کا مقدر اسلام کے ساتھ وابستہ ہے اس کے لیے انتھک کوشش کرنے والے قائد اعظم کا یہی مشن تھا جس کے لیے وہ مرتے دم تک کوششیں کرتے رہے۔
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھااس ملک کی عظیم خاموش اکثریت اسلامی نظامِ حکومت کی ہی خواہش رکھتی ہے مگر جو حکمران کعبہ کو دیکھنے کے بجائے واشگٹن اور لندن کی طرف امداد کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہیں جن کی تاریخ تو یہ ہے کہ جب انہوں نے ترکی کو فتح کر کے اسلامی خلافت کو ختم کر کے اسلامی دنیا کو مختلف راجڑوں میں تقسیم کیا تھا جو اب بھی دنیا کے نقشے میں ٥٦ کی تعدادمیں اسلامی ملکوں کے نام سے موجود ہیں اور اس بات کی قسم کھائی تھی کہ دنیا میں کہیں بھی اسلام کے سیاسی نظام کو رائج نہیں ہونے دیںگے ۔اسلامی ملکوں میںسازشوںبتدریج اپنے پٹھو حکمرانوں بنائے ،ایسے میں ان پٹھوں حکمرانوں سے عوام کو امیدیں نہیں باندھنی چاہیں کہ پاکستان سمیت ان ملکوں میں اسلامی نظام قائم کریں گے۔
صلیبیوں کے زیر قبضہ مقامی اور بین الاقوامی جادو گر الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا نے امن پسند مسلم دنیا کو دہشت گرد ثابت کر دیا۔ ان حالات میں ایک ہی راستہ راہ گیا ہے کہ جیسے مسلمانان برصغیر نے قائد اعظم کی کمان کے اندر ایک اسلام کے نام پر جو دلائل سے بھر پور تھی۔ جسے برپاہ کر کے پرامن طریقے سے پاکستان حاصل کیا گیا تھا ایسی ہی پرامن تحریک مسلمانان پاکستان برپاہ کر کے اس میں اسلام کا بابرکت نظام قائم کرنے کی جد و جہد کی قسم کھانی چاہیے۔ میر اقائداللہ جو اسلام کا سچا شیدائی تھا کی یہی منزل تھی اور اسی منزل کو مسلمانان پاکستان پایا تکمیل تک پہنچائے آمین۔
Mir Afsar Aman
تحریر: میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان