تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ قائد اعظم کے سب سے بڑے مخالف تو انگریز تھے جن کی جاتے جاتے خواہش تھی کے ہندوستان کو کانگریس کی مرکزی حکومت کے حوالے کر کے جائیں اور مسلمان ان کے غلام بن کے رہیں۔ قائد اعظم کی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے برپاہ کردہ دو قومی نظریہ کی مہم کی وجہ مجبوراً ہندوستان کی تقسیم منظور کی تھی۔ ہندوتقسیم کو مجبوراً مانتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا کرتے تھے کہ پاکستان چل نہیں سکے گا اسے واپس بھارت میں شامل کر لیں گے۔ کانگریسی علماء بھی قائد اعظم کے مخالف تھے۔ ہندوستان کے مسلمان اور علماء مسلم لیگ اور قائد اعظم کے ہم نوا تھے۔
ہند کے وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن جو برطانیہ سے تقسیم ہند کا فارمولہ لے کر آئے تھے، مسلمانوں کے دشمن ہونے اور نہرو کے ذاتی دوست ہونے کے حوالے سے قائد اعظم کی مخالفت کیا کرتے تھے ۔ اسی دشمنی میں دو قومی نظریہ کی بنیاد تقسیم کی اسکیم جو برطانیہ کی پارلرلیمنٹ نے پاس کی تھی اس سے قائد اعظم اور مسلم لیگ کو آخری وقت تک جان بوجھ کر لارڈ مونٹ بیٹن نے بے خبر رکھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ مونٹ بیٹن انڈیا اور پاکستان کے مشترکہ گورنر جرنل بننا چاہتے تھے۔ قائد اعظم کو اُس کی ہندوئوں سے ہمدردیوں کی وجہ سے یہ پسند نہیں تھا۔ قائد اعظم کے انکار پر مونٹ بیٹن نے دھمکی دی تھی کہ اس سے تمہیں نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ قائد نے کہا تھا کہ ہاں مجھے معلوم چند ٹکوں کا۔ حوالہ از کتاب” قائد اعظم اور مسلم تشخص ”( مصنف ڈاکٹر خالد علوی )ہندوئوں نے مجبوری کی حالت میں ہندوستان کی تقسیم قبول کی تھی۔ انہوں نے تقسیم کے وقت ان خیالات کا اظہار کیا تھا”جغرافیہ، پہاڑوں اور سمندروں نے ہندوستان کی موجودہ صورت کی تشکیل کی ہے۔کوئی انسانی طاقت اس کے حیثیت کو تبدیل نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس کی آخری تقدیر میں حائل ہو سکتی ہے۔
آل انڈیا کانگریس دیانتداری سے بھروسہ کرتی ہے کہ جب جذبات ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ ہندستان کے مسائل کو اس مناسب تناظر میں دیکھا جا سکے گا تو دو قوموں کے غلط نظریہ کو سب لوگ مستردکر دیں گے”۔ قائد اعظم کے مخالف کانگریسی لیڈر مولانا آزادنے تقسیم کے وقت کہا تھا” کہ مجھے یقین ہے کہ یہ حیثیت تھوڑی دیر چلے گی”۔ہندومہا سبھا نے اس بات کو عجیب قرار دیا تھا ۔ واضع انداز میں کہا”انڈیا وحدت ہے جو ناقابل تقسیم ہے اور یہاں کبھی امن نہیں ہو گا جب تک الگ ہونے والے تمام حصے واپس انڈین یونین میں نہیں لائے جاتے اور اس کا لازمی حصہ نہیں بن جاتے” ۔ان بیانات کو سامنے رکھ کر اگر دیکھا جائے تو بھارت ان خیالات کی تکمیل کے لیے پاکستان بننے کے وقت سے پاکستان توڑنے اور اسے اکھنڈ بھارت میں شامل کرنے کی پالیسی پر قائم ہے۔بھارت نے اربوں روپے اس کے لیے مختص کیے رکھے۔
اس پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے بنگال میں ان کو شیخ مجیب الرحمان میسر ہوا ۔اس نے بھارت کی اگر تلہ سازش میں حصہ لے کر مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے بھارت کی ایماپر علیحدہ کیا۔ لو گ کہتے ہیں کہ اس نے الیکشن میں اکثریت حاصل کی تھی اگر اس کو اقتدار سونپ دیا جاتا تو پاکستان نہ ٹوٹا۔ یہ نظریہ غلط ہے ۔ ایک تو وہ الیکشن ہی جبر، دھاندلی اور قومیت کی بنیاد پر لڑے گئے تھے ۔جو پاکستان کے دوقومی نظریہ کے خلاف تھے۔دوسرا وہ پاکستان کا غدار تھا۔ وہ اقتدار میں آ کر پاکستان کو اور زیادہ نقصان پہنچا تا۔ سندھ میں غلام مصطفےٰ شاہ المعروف( جی ایم سید) نے پاکستان میں دو قومی نظریہ کی مخالفت میں سندھ قوم پرستی کو فروغ دیا اور پاکستان کی جڑیں کمزور کیں۔ اندرہ گاندھی سے درخواست کی تھی کہ سندھ پر حملہ کر دو۔ سندھ کے شہر کراچی میں الطاف حسین نے قومیت کی بنیاد پر مہاجروں کو پاکستان کے خلاف اُکسایا۔ تیس سال تک ظلم کا بازار گرم کیا۔ را سے دہشت گردی کی ٹرینینگ اور فنڈ لیتا رہا۔ آخر ذلیل ہوا اور مہاجروں نے اس ظالم سے قطع تعلق کر لیا۔اب خاک چھان رہا ہے ۔ ١٤ اگست کو بھارت کو خوش کرنے کے لیے لندن میںپاکستان کے جھنڈے کو جلایا۔ سابق صوبہ سرحد میں سرحدی گاندھی عبدلغفار خان قائد اعظم کے مخالف اور گانگریس کے حامی تھے۔
انہوں نے پاکستان بنتے ہی پشتونستان کا مسئلہ کھڑا کیا رکھا ۔اس کو افغانستان میں قائم طا لبان کی اسلامی حکومت نے ختم کیا۔ اس پاداش میں امریکا نے ٤٠ نیٹو ملکوں اور نان نیٹو اتحادی ڈکٹیٹر پرویزمشرف کی لاجسٹک مدد سے طالبان کی اسلامی حکومت پر حملہ کر کے روس کے بعد افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ افغان طالبان نے روس کی طرح ان ٤٠ نیٹو ملکوں کی فوج اور امریکی فوج کو شکست فاش دی۔ اب امریکا اس شکست کا بدلہ پاکستان سے لینا چاہتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو سخت دھمکی دی ہے ۔اس غلط پالیسی کی وجہ سے امریکا کے سی آئی کے سابق چیف نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاغل ہے۔ پختون ملی خواہ کے قوم پرست لیڈر بھارت کے ہم نوا بن کر پاکستان کے دو قومی نظریہ کی اور قائد اعظم کی کھلم کھلا مخالفت کرتے ہوئے اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے ایک حصہ، آزاد کشمیر کو آزاد کر دینے کی باتیں کرتاہے۔ یہ اور نیشنل عوامی پارٹی کے قوم پرست لیڈر افغانستان میں بھارتی اور امریکی پٹھو اشرف غنی کی قوم پرست حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔ جبکہ افغان قوم پرست حکومت میں بیٹھے قوم پرست دہشت گرد بھارت کی ایما پر پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔
بھارت اپنے پرانے ڈاکٹرائین پر عمل کرتے ہوئے بلوچستان اور پورے پاکستان میں افغانستان قوم پرست حکومت کے ذریعے دہشت گردی کر رہا ہے۔ہمارے سیاسی اور فوجی حکمرانوں نے قائد اعظم اور دو قومی نظریہ کے مخالف پاکستان دشمنوں کے ساتھ رواداری بھرت کر ان کو پالا اور یہ قائد اعظم کے پاکستان کو نقصان پہچانے سے باز نہیں آتے۔ ڈکٹیٹرجنرل ضیا نے پیپلز پارٹی کی مخالفت میں ایم کیو ایم بنائی جس نے پاکستان کو نقصان پہنچایا۔ ا سی جرنل ضیاء نے جی ایم سید کوسر پر بٹھایا ۔ جو پاکستان توڑنے میں مسلمانوں کے ازلی دشمن بھارت کی مدد کرتا رہا۔نواز شریف سابق وزیر اعظم نے الطاف حسین کی ایم کیو ایم کوساٹھ کروڑ پاکستان خزانے سے دے کر پالا جو بھارت میں جا کر کہتا تھا کہ تقسیم ایک بڑی غلطی تھی۔نواز شریف جو مسلم لیگ کا لیڈر ہے مسلم لیگ اور قائد اعظم کے دوقومی نظریہ کی نفی کرتے ہوئے کہتا کہ میں سیکولر ہوں۔ اپنے دور حکومت میں قائد اعظم کے مخالف سیکولر حضرات کو عہدوں پر تعینات کیا جو دو قومی نظریہ کو نقصان پہنچارہے ہیں۔بانی پاکستان قائد اعظم کہتے ہیں ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قومیں ہیں۔نواز شریف کہتا ہے ہم دونوں ایک ہیں بس ایک لکیر نے ہم کو جدا کیا ہوا ہے۔
پاکستان کو اعلانیہ توڑنے کی حامی بھرنے والے مودی کے ساتھ ذاتی دوستی کرتے ہوئے اس کو اپنی نواسی کی شادی میں لاہوربلاتے ہیں۔ بھارت کا وزیر خارجہ کہتا ہے کہ پہلے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے اب دس ٹکڑے کریں گے۔ نواز شریف ان سے آلو پیاز کی تجارت کو اہمیت دیتا رہا ہے۔ بھارت اور امریکا کہتے ہیں پاکستانی فوج دہشت گردوں کی مدد کرتی ہے۔ نواز شریف اس کے تاہید کرتا اور ڈان لیکس جیسے سازش میں شریک رہتا ہے۔ آج تک بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے بارے ایک بیان بھی نہیں دیا۔ہمشیہ فوج کے خلاف سازش کرتا رہا ہے۔ مندرجہ بالا بیان کیے گئے سارے لیڈر پاکستان کا کھاتے ہیں اور پاکستان کے خلاف باتیں بھی کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے تحریک پاکستان طر زکی نظریہ پاکستان کی بنیاد پر پھر سے تحریک جاری کی جائے اور عوام کے سامنے پاکستان کے اندر چھپے ہوئے قائد اعظم اور نظریہ پاکستان کے دشمنوںکو بے نقاب کیا جائے۔ قائد اعظم کے ویژن کے مطابق پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم کی جائے۔ قومیت ،لسانیت اور علاقیت کی بنیاد پر سیاست کو بند کیا جائے۔صرف نظریہ پاکستان، نظریہ اسلام پر سیاست کی اجازت دی جائے۔ عوام کے فلاح و بہبود پر سیاست کی جائے۔ اللہ مثل ِ مدنیہ جمہوریہ پاکستان کی حفاظت فر مائے آمین۔