تحریر : عتیق الرحمٰن بانی پاکستان کے پیش نظر ایسا پاکستان تھا جہاں عوام آزادی کے ساتھ اپنے مذہب اور رسم و رواج کے مطابق باوقار زندگی گزار سکیں لیکن اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آزادی کے حصول کے لیے جان و مال کی قربانی دینے اور انگریز کی غلامی سے نجاد کے باوجود بھی وہ آزادی نصیب نہیں ہوگی۔ وہ پاکستان جو کمزوروں کے تحفظ کیلئے بنایا گیا تھا اسے اشرافیہ اپنی ذاتی سلطنت میں بدل ڈالے گی اور کمزور کے حقوق غصب کر لئے جائیں گے۔ مراعات یافتہ طبقہ اقتدار، ریاستی امور اور وسائل پر قابض ہوجائے گا اور عوام کو سوائے بھوک، افلاس، بے روزگاری، دہشت گردی اور عدم تحفظ کے کچھ نہیں ملے گا۔ سر اٹھاکے جینے کی تمنا کرنے پر ماڈل ٹاؤن میں 14 افراد کو ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بنایا جائے گا ایک ٹریفک پولیس اہلکار جو روڈ پر اپنی ڈیوٹی ادا کررہا تھا اسے ایک ممبر اسمبلی نشے میں دھت اپنی گاڑی کے نیچے روند ڈالے گا اور اپنی بہن کو جاگیرداروں کی شرارت سے بچانے پر شاہ زیب کو بھری جوانی میں قتل کردیا جائے گا۔ آئین اور ادارے جو کہ پسی ہوئی عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں وہ بھی غاصب کے مددگار بن جائیں گے۔
شاہ رخ جتوئی اور مجید اچکزئی کیس جو کہ الیکٹرونکس، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر نمایاں ہونے کی وجہ سے غیر معمولی اہمیت حاصل چکا تھا شواہد اور ثبوت قاتل کی نشاندہی کررہےتھے اور عوام کی نظریں ان کیسوں پر لگی تھی کہ شاید اس نظام میں رہتے ہوئے ملکی سطح پر شہرت حاصل کرنے والے کیس میں انصاف ہوجائے لیکن عوام کو ایک بار پھر مایوسی ہوئی،-
تمام محب وطن پاکستانیوں کا دل شاہ رخ جتوئی کے وکٹری کا نشان بنانے پر اندر ہی اندر رو رہا تھا یہ وکٹری کا نشان شاہ رخ جتوئی نہیں اس ملک کا کرپٹ نظام اور اس سے مستفید ہونے والے خاندان، ملک کی اکثریت عوام کے خلاف بنا رہے تھے وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ملک میں عزت صرف بڑے خاندانوں، پیسہ، طاقت، دھونس اورغنڈھ گردی کی ہےسفید پوش انسان کی یہاں کوئی عزت نہیں اسے ہر جگہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا، وہ ہمیں آئینہ دیکھا رہا تھا کہ تم غلام ہو تمھیں عزت اور وقار سے جینے کا کوئی حق نہیں –
وہ جیسے مسکرا رہا تھا مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس نے میرے کسی اپنے کو قتل کردیا اور میں کچھ نہیں کرپایا اور ریاست پاکستان جو کہ آئینی طور پر مجھے انصاف دلانے کی پابند ہے وہ بھی اس کے سامنے سر جھکائے کھڑی ہے۔ دراصل یہ افسوس ہمیں اس قتل پر نہیں ہوا تھا وہ تو ایک سال پہلا کا واقعہ ہے ہمارا رنج ہماری امیدوں کے ٹوٹ جانے پر تھا جو ہم نے ریاست اور اسکے اداروں سے لگائی تھی۔ شاہ زیب کسی مزدور ، ریڑھی لگانے والے یا کسان کا بیٹا نہیں تھا وہ پولیس جیسے طاقتور محکمے کے اعلی افسر کا لخت جگر تھا لیکن وہ آفسر بھی اس ظالم نظام کے ٹھیکیداروں کے سامنے کھڑا نہ رہ سکا تو ایک عام آدمی کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی جاگیردار، سرمایہ دار اور غنڈوں سے اپنی عزت، جان و مال کو بجا سکے گا۔ یہ وہ سوال ہے جو عوام آج اس نظام اور اداروں سے کررہی ہے-
موجودہ کرپٹ نظام اس قدر بوسیدہ ہو چکا ہے کہ اس میں عوام کے کسی طبقہ کے حقوق کا تحفظ نہیں رہا، ملک سے قانون کی حکمرانی ختم ہو چکی ہے، اور سیاست ایک گھناؤنا کھیل بن چکا ہے جس میں امراء بیس کروڑ غریبوں کی غربت کے ساتھ کھیل رہے ہیں ، قانون بنانے اور ان پر عمل کرانے والے ایوان عوام نہیں چند خاندانوں کے حقوق کا تحفظ کررہے ہیں-
عوام کا اس نظام اور جعلی جمہوریت سے بھروسہ اٹھ رہا ہے جو کہ ایک خطرناک صورتحال ہے حکمرانوں اور ریاست کے تمام اداروں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئے عوام کی مایوسی کا کوئی حل نکالنا چاہئے – عوام جہاں روٹی، کپڑا، مکان، علاج صحت تعلیم اور روزگار کی سہولتوں سے محروم ہیں اگر وہاں انہیں ظلم اور زیادتی کے باوجود ادارے انصاف نہیں دے سکتے تو عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو گی کہ آزادی انہیں نہیں چند خاندانوں کو ملی ہے اور اصل آزادی کے لیے ابھی ایک اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔