تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری قائد اعظم کے ساتھ ملکر عوام نے لاکھوں بہنوں بھائیوں بزرگوں کی قربانیاں دیکر یہ پاک وطن حاصل کیا تھا اور قائد پاکستان کا احترام بھی پوری قوم دل و جان سے کرتی ہے اسلامی مملکت کے وجود پاتے ہی ان کی تصویر ہمارے کرنسی نوٹوں پر احتراماً چھاپی جاتی ہے تاکہ عظیم راہنما کی یاد ہمارے دلوں سے کسی صورت محو نہ ہو سکے سیکولر مغربی لادینی بیورو کریسی اور انگریزوں کے پروردہ ٹوڈی جاگیرداروں اور وڈیروں نے حکمرانی پر مسلسل قبضہ کیے رکھا آج بھی انہی پالتو ناسوروں کی اولادیں کسی نہ کسی صورت برسر اقتدار ہیں چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہوئے ہر بڑی سیاسی جماعت کے اہم عہدوں پر قابض ہیں ذرا سی کان میں بھنک پڑی تو فوراً ہی اُڑن پرندوں کی طرح مقتدر آجانے والی طاقتوں کی منڈیر پر آن بیٹھتے ہیں پھر تو ان میں پاکستانیت اور اسلامیت ہی ختم ہو جاتی ہے پچھلے ماہ ہی راقم نے دو کالم “جائیداد قرق کروا ور کوڑے مارو “اور “بابا رحمتے آپ کہاں ہیں ؟”لکھے تھے جن میں شادی بیاہ پر انتہائی کریہہ حرکت کہ چھت کے اوپر چڑھ کر پانچ ہزار اور ہزار روپے والے نوٹ خوشی میں پھینکے جائیں جس سے شادی میں آئے ہوئے مہمان تک گھتم گھتا ہو کر رہ گئے۔
کسی کو چوٹ لگی کسی کی ناک کی ہڈی ٹوٹی اور کسی دوسرے کی آنکھ پھوٹی اور دیگر کے کپڑے پھٹ کر رہ گئے کہ کون ایسا ہو گاجو پانچ ہزار کے نوٹوں کو یوں ہوا میں اڑتے دیکھے اورا نہیں حاصل نہ کرنا چاہے گا؟ مہمانوں کی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹے بھائی سگے بھائی سے الجھ رہا تھا اور شادی کا گھر دیکھتے ہی دیکھتے ہنگامے میں بدل گیا پھر شادی کی ہی تقریب میں منچلے نوجوان فائرنگ کی انتہا کر ڈالتے ہیں اور کئی دفعہ دولہا اور اس کے قریبی رشتہ دار باپ بھائی تک بھی زخمی تو کیا جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں نکاح کرنا سنت رسول ۖ ہے تو پھر کیا خوشی منانے کا یہی طریقہ ہے ؟ یا پھراس خدائے عز و جل کے آگے جھک جانا نوافل ادا کرنا ہے ؟فائرنگ کا ایسا ہی غلیظ عمل ملتان سے نو منتخب ہو جانے والے سینٹر رانا محمود الحسن کے ڈیرہ پر ہوا ڈی پی او نے مقدمہ اندراج کرکے گرفتاریوں کا حکم دیا مگر اس پر عمل درآمد کیونکر ممکن ہے ؟ کہ حکومتی پارٹی کے نمائندہ جو ٹھہرے! شادی پر فائرنگ کرنے اور کرنسی نوٹوں کو اڑانے جن پر بانی پاکستان قائد اعظم کی تصویر چھپی ہوئی ہے کی اسطرح بے حرمتی کا کیا جواز ہے؟
جب کرنسی نوٹ ہوا میں اڑائے جاتے ہیں تو متعلقہ نو دولتیا سود خور سرمایہ دار یا ڈھیروں ناجائز منافع کمانے والا صنعتکار نیچے کھڑے لوگوں کی چھینا جھپٹیوں سے محظوظ ہو رہا ہوتا ہے اور بیعنہہ اس بادشاہ کی مانند جو پورا سال نوجوانوں کو اعلیٰ ترین خوراک کھلا کر پالتا تھااور پھر انہیں خونخوار بھوکے شیروں کی کچھار میں چھوڑ دیا جاتا تھا کہ اب وہ شیر کو زیر کریں وہ سبھی خود کو لہو لہان کروا بیٹھتے اور کئی زندگی کی بازی ہار جاتے کئی گھنٹے یہ تماشا جاری رہتا اور پھر اگلی کشتیوں کے لیے نئے نوجوان تیار کیے جاتے اور بادشاہ اور اس کے بیوی بچے اس خونی دنگل کو دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجاتے تھے اسی طرح اس جانور کی طرح جو بوٹیوں اور ہڈیوں کو نوچتے ہیں عوام نیچے کھڑے نوٹوں کی چھینا جھپٹی کر رہے ہو تے ہیں آخر یہ کریحہ عمل کس کام کا؟ ہوائوں میں اڑتے اڑتے بالآخر پھٹے ہوئے نوٹ اور قائد کی تصویرلوگوں کے پائوں تلے روندے چلے جاتے ہیں جو بالآخر کسی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کی” زینت” بنتے ہیں کرنسی نوٹوں پر چھپی اپنی تصویر کی بے حرمتی دیکھ کر لازماً قائد کی روح تڑپتی ہو گی مگر ایسا ہونا بدمعاش و رذیل نو دولتیے سودخوروں کے لیے خوشی کا باعث ہو تا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جو عوامی مسائل نا خالص دو دھ زہریلے پانی اور جعلی و مہنگی ادویات جیسے اہم مسائل پرازخود نوٹس لے کر احکامات جاری کرتے رہتے ہیں تو قائد اعظم کی بے حرمتی کرنے والے اس عمل کو بھی بزور حکم روک دیں کہ اگر ایسی کوئی غلیظ حرکت دوبارہ ہوئی تو متعلقہ ڈی پی او ایس ڈی پی او اور ایس ایچ او و سویلین عہدوں پر تعینات اسسٹنٹ کمشنر وغیرہ ذمہ دار ٹھہریں گے جس پر انہیں ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں مگرکیا کریں “چوری ڈکیتی سینہ ذوری ہو ہی نہیں سکتی جب تک اس میں تھانیدار کا حصہ نہ ہو” کی طرح ایسے لعنتی افراد پہلے تھانوں اور متعلقہ انتظامی افسروں کو” دے دلا “کر ان کا منہ بند کر ڈالتے ہیں اگرمیڈیا پر زیادہ شور مچ گیا تو کسی غریب نوکر پر مقدمہ درج کروا ڈالیں گے مگر رحیم یار خان سیالکوٹ نارووال کی شادیوں پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا کہ ڈھیروں مال لگ چکا ہو گا اور ” اس بازار “کی طرح وہ خاتو ن اسی پیا کو سدھار جاتی ہے جو زیادہ مال اس کے قدموں میں ڈھیر کرے گا یہ عمل ان غریب بے کس اور مفلس نوجوان بچیوں کے دلوں میں خنجر گھونپ ڈالنے کے مترادف ہے جو چار پیسے نہ ہونے اور غریب والدین کی طرف سے جہیز مہیا نہ ہو سکنے کی وجہ سے گھروں میں بیٹھی بال سفید سنہری کر چکی ہیں اور جو افراد غربت مہنگائی بیروزگاری کے عفریتوں کے ڈسے ہوئے بمعہ بیوی بچوں کے دریا یا بڑی نہروںمیں چھلانگیں لگا کر یا پھر خود سوزیاں کرکے خود کشیاں کر رہے ہیں ان کے لیے بھی عبرت کا سامان ہیں ! کہ سرمایہ پرست نہوستی افراد تو پانچ ہزار کے نوٹوں کو ہوا میں اڑا رہے ہیں جب کہ ان کے بچے دو وقت کی نان جویں کو بھی ترس رہے ہیں۔
کیا ملیں اسی لیے ریشم کے تار بنتی ہیں کہ مزدور کے بچے اس کی تار تار کو ترسیں
اور یہی ہیں وہ لوگ جو خون مزدور شرابوں میں ملا دیتے ہیں مگر ان کے کسی کام نہیں آسکتے ایسے سرمایہ پر ست افراد کو مقدمات چلا کر چوکوں پر نہ لٹکایا گیا تو یہ نوٹ پھینک کر قائد کی تصویر کی بے حرمتی کی “وبا” ختم نہ ہو گی اور یوں ہی قائد کی روح تڑپتی رہے گی کہ میرے بنائے گئے ملک پر ایسے جغادری نام نہاد سیاستدانوں نے قبضہ کر رکھا ہے ویسے تو مرحوم سید نے کہا تھا “سرمایہ داری ایک ناسور ہے اور اسلام اس کا نشتر ہے ” مگر کب اسلامی قوانین نافذ ہوں گے اور سرمایہ داری کا سفینہ ڈوبے گا؟