تحریر: روحیل اکبر اے قائد اعظم ہم شرمندہ ہیں کہ آپ کے لگائے ہوئے اس سرسبز پودے پاکستان کی صحیح پرورش نہیں کرسکے ہم نے نہ صرف اس کی جڑیں کھوکھلی کر دی بلکہ اسی شاخ کو ہی کاٹنا شروع کر دیا جس پر آپ ہمیں بٹھا کرگئے تھے پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا۔یہ خطہ ارضی ہم نے پاکستان کا مطلب کیا ’’لا الا الہ اللہ‘‘ کا ایمان افروز نعرہ لگا کر محمد علی جناح ؒ کی قیادت میں بے شمار قربانیاں دے کر حاصل کیا۔مگر افسوس جس عظیم مقصد کیلئے محمد علی جناح ؒ کی قیاد ت میں لاکھوں مسلمانوں نے یہ ملک حاصل کیا سیاستدانوں اور حکمرانوں نے اسے بالکل فراموش کر دیا ہے۔
حکمران اقتدار کی رسہ کشی اور کرپشن میں مصروف ہو گئے جسکی وجہ سے ہمیں تقسیم پاکستان جیسا کڑا گھونٹ بھی بھرنا پڑا اندرونی و بیرونی دشمنوں اور شدت پسندوں کی سفاکانہ کارروائیوں کی وجہ سے ملک کو دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گیا ۔حکمرانوں کی کرپشن اور نا اہلیوں کی وجہ سے کمر توڑ مہنگائی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ نے عوام کو زندہ درگور کر دیا ہے آج روح قائد پکار پکار کر ہمیں جھنجوڑ رہی ہے قوم خواب غفلت سے کب بیدار ہو گی اورقیام پاکستان کے حقیقی مقاصد کو کب پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔
قائد کے خواب کو کب شرمندہ تعبیر کریں گے آج کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارے عظیم قائد نے قوت ایمانی کے اسلحہ سے لیس ہو کر انتھک محنت اور جدوجہد کر کے اس خطہ ارضی کو حاصل کیا ۔ضرورت اس مر کی ہے کہ آج ہم اپنے قائد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے جذبہ حب الوطنی کو زندہ کر کے قائد کے پاکستان کی حفاظت کی تکمیل کیلئے جدوجہد کریں جو اسی صورت ممکن ہے کہ ہم اپنے قائد جیسی عظیم ،مخلص،باکردار،محب وطن قیادت اور ایسا نجات دہندہ و مسیحا تلاش کریں جو ہمیں موجودہ وسائل کی دلدل سے نکال کر سوئے منزل رواں دواں کر سکے ۔بارہ ستمبر1948 ء کی صبح7بجے ہی دنیا بھر کی نشر گاہوں سے قائد اعظم کی وفات کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔پاکستانی نشرگاہوں سے مسلسل قرآن پاک کی تلاوت کی جاری تھی کراچی سے لاہور،راولپنڈی سے درہ خیبر اور سلہٹ سے ڈھاکا ۔۔پورے پاکستان کا ماحول افسردہ اور غمگین تھا۔سات لاکھ سے زائدآبادی والا دارالخلافہ کراچی مکمل سوگ میں تھا۔بازار، کاروبار، ٹرانسپورٹ، ڈاک خانے سب بند تھے۔
سرکاری طور پر ملک بھر میں 40 روزہ یوم سوگ کا اعلان کیا گیاجبکہ ملک بھر کے سینما گھر اگلے5روز کیلئے بندکردیئے گئے۔دن کے پونے تین بجے تمام وزراء ، ا اعلیٰ حکام اورسفارت کار اس ہال میں جمع ہوئے جہاں قائد اعظم کا جسد خاکی دیدار کیلئے موجود تھا۔وزیرخارجہ سر ظفر اللہ خان نے آخری دیدار کیلئے قائد کے چہرے سے چادر اٹھائی۔دیدار کے بعدمیت کو قریبی کمرے میں لے جایا گیا جہاں جنازہ مرتب کیا گیا ۔اس مقام سے خاص دروازے تک کاندھا دے کرمیت لانے والو ں میں وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان ،وزیرخارجہ سر ظفر اللہ خان،سردار عبدالرب نشتر،پیر الٰہی بخش ،پیرزادہ عبدالستار اورسید میران محمدشاہ شامل تھے۔
گورنر جنرل ہاوس کے اطراف لاکھوں انسانوں کا سمندر تھا جو اپنے محبوب قائد کے آخری سفر میں شریک ہونے کیلئے صبح سے ہی پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔قائد کا جنازہ گورنرہاوس کے صحن میں رکھا گیا۔سفید بستر پر میت پھولوں سے لدی ہوئی تھی۔ عوام اپنے قائد کا آخری دیدارکررہے تھے۔مزید ہزارہا آدمی گورنر جنرل ہاوس کی طرف امنڈرہے تھے اور کئی دیوار پھاند کر اندر داخل ہونا چاہتے تھے کچھ نے جوش جذبات میں گورنر جنرل ہاوس کے دروازے کو توڑدیا۔بمشکل پولیس اور فوج ان پر قابوپاسکی۔گھنٹہ بھر کی کوششوں کے بعد دو قطاریں ایک ایک میل لمبی بنائی گئیں۔ماحول بہت افسردہ تھا ۔کئی افراد شدت غم سے بے ہوش ہوگئے سردار عبدالرب نشتر آخری دیدار کرتے وقت زارو قطار رورہے تھے۔
Fatima Jinnah
سفید لباس میں ملبوس اور سرخ آنکھیں لئے محترمہ فاطمہ جناح صبح سے ہی رو رہی تھیں ، قائد کی صاحبزادی مسز واڈیاکے آنے کے بعدوہ کچھ سنبھلی نظرآئیں قائد کے بھتیجے اوران کی بیوی محترمہ فاطمہ ولی بھی فاطمہ جنا ح کو تسلی دے رہی تھیں قائد کاجنازہ دروازے پرپہنچا تووہاں موجود افراد کلمہ طیبہ کاورد کررہے تھے وزرا نے اپنے ہاتھوں سے جنازے کو گاڑی پر رکھا۔ہجوم گاڑی کے دونوں جانب ایک قطار بنا کر کھڑا ہوگیادن کے تین بجے تھے قائد اعظم کا جنازہ ایک توپ لے جانے والی گاڑی پر رکھا گیاپولیس کے 50سپاہی آگے آگے تھے۔ ان کے پیچھے شاہی بحریہ کے50 جوان ،پھر بری فوج کے50اور پھر فضائیہ کے50جوان موجود تھے قائد کے جنازے کی گاڑی پاک بحریہ کے سپاہی چلارہے تھے ان کے پیچھے دو کاریں تھیں ایک میں محترمہ فاطمہ جناح اور قائد اعظم کی دختر موجود تھیں جبکہ دوسری میں بیگم ہدایت اللہ سوار تھیں۔قائد کی اکلوتی صاحبزادی خصوصی طیارے سے آج ہی بمبئی سے کراچی پہنچی تھیں۔سوا تین بجے قائد کا جنازہ گورنر جنرل ہاوس سے نکل کر وکٹوریہ روڈ انفسٹن اسٹریٹ سے ہوتا ہوا تقریباًایک گھنٹے تک گارڈن روڈ اور پھر بندرروڈ پہنچا۔
اس دوران کم و بیش 6لاکھ لوگ اس میں شامل رہے جبکہ راستے کے دوران آنے والے گھروں اور عمارتوں پر بھی انگنت عوام اپنے عظیم قائد کے آخری دیدار کیلئے موجودتھی ۔نماز جنازہ ساڑھے 4بجے جنازہ نمائش کے میدان میں پہنچ گیا جہاں قائد کی تدفین کی جانی تھی۔نمائش کے میدان میں ایک ستون بنایاگیا تھا۔ اس ستون کے نیچے مولانا شبیر احمد عثمانی نے نماز جنازہ پڑھائی۔6لاکھ کا مجمع نماز میں شریک تھا۔پہلی صف میں وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کے ساتھ کئی وفاقی اورصوبائی وزراء اور اسلامی ممالک کے سفیرموجود تھے۔ نمازجنازہ کے فوری بعد مولانا شبیر احمد عثمانی نے مجمع سے خطا ب کرتے ہوئے کہا کہ اب قائد اعظم اپنی قوم میں موجود نہیں جو قوم کی رہنمائی کرسکیں مگر قائد اعظم کی ہدایات اور جذبہ مسلسل قوم کی رہنمائی کرتا رہے گا۔قائداعظم کی وفات صرف پاکستان ہی کا نقصان نہیں بلکہ یہ ساری اسلامی دنیا کا نقصان ہے۔ اسکے بعد قائد اعظم کا جنازہ اٹھا کرایک فرلانگ دور قبر تک لے جایا گیا،جنازے کو بحری اور فضائیہ کے افسروں نے اٹھایا ۔اس موقع پرجنازے کے تینوں طرف فوج کے تین بڑے افسران موجود تھے۔
میت جیسے ہی قبر پر پہنچی پاک فضائیہ کے طیارے نے فضا میں غوطے لگاکر جنازے پر پھولوں کی بارش کرکے قائد اعظم کو آخری سلامی پیش کی۔شام 6بج کر24منٹ۔۔ وہ لمحہ جب قائد کاجسد خاکی لحد قبر میں اتار ا گیا۔وزیراعظم لیاقت علی خان اور دیگر وزرا نے قائد اعظم کا جسد خاکی قبر میں اتارا۔ اس کے بعد قبر پرسب سے پہلے مٹی بھی قائد ملت لیاقت علی خان نے ڈالی جس کے بعد دیگر وزراء اور اسلامی ممالک کے سفیر وں نے مٹی ڈالی۔اس کے بعد لاکھوں غمگین انسانوں کا مجمع کلمہ طیبہ پڑھتا ہوا خاموشی کے ساتھ منتشر ہوگیا۔قائد کی وفات کے بعد ہمارے حکمرانوں نے ہمیں آج تک منتشر ہی رکھا خدا جانے کب کوئی قائد کے نقش قدم پر چلنے والا حکمران ہمیں نصیب ہوگا اور ہم دوبارہ ایک بار پھر پاکستان کو ایک تن آور درخت بن کر پھلا اور پھولتا دیکھیں۔