تحریر : حفیظ خٹک گلشن اقبال بلاک 5میں ان کے گھر اپنے اک دوست کے ہمراہ پہنچا اور گلی کے کونے پر موٹر سائکل کھڑی کر کے پیدل ان کے دروازے پر پہنچے اور ان کے گھر پر گھنٹی بجائی ۔ پہلی گھنٹی پر کوئی باہر نہیں آیا جس کے بعدگھنٹی پر انگلی رکھ کر ایک اور بل بجائی ۔چند لمحوں کے بعد ایک خاتون گھر سے باہر کی جانب آتی کوئی نظر آئیں اور انہوں نے وہیں سے پوچھا ، کون؟ اس سوال پر میرا جواب یہ تھا کہ میں حفیظ ہوں اور سلطان صاحب سے ملنا چاہتاہوں ۔ اس جواب پر وہ خاتون کچھ دیر کیلئے دروازے کی جانب بڑھنے کے بجائے رک گئیں ، میرے دوست نے میری جانب دیکھا اور اشارہ کیا کہ آپ ذرا اونچی آواز میں دوبارہ کہیں ۔اس سے پہلے کہ میں ان کے کہے پر عملدرآمد کرتا وہ خاتون دروازے کی جانب آگے بڑھیں اور دروازہ کھولتے ہوئے بولیں جی آپ کون ہیں ؟ میں نے دوست کی جانب دیکھتے ہوئے ایک بار پھر اپنا تعارف کرایا اور آخر میں کہا کہ سلطان صاحب سے ملنا چاہتے ہیں ۔ اس خاتون کی آنکھیں بھر سی گئیں اور اسی کیفیت میں ایک اور سوال پوچھا کہ آپ سلطان صاحب کو کب اور کیسے جانتے ہیں ؟ جس پرمیرا جواب یہ تھا کہ وہ ہمارے دوست ہیں اور چند برسوں سے انہیں جاننے کے ساتھ وہ ہمارے ادارے میں بھی کام کرنا چاہتے ہیں۔
اس طرح میرا جواب سن کر اس خاتون نے اپنی نم آنکھیں آسماں کی جانب کرتے اور پھر زمین کی جانب جھکاتے ہوئے ایک جملہ کہا اور اس جملے کے بعد میری کیفیت ناقابل بیاں رہی ۔انہوں نے کہا کہ سلطان زبیری صاحب کا مارچ میں انتقال ہوگیا تھا اور میں ان کی بیوہ ہوں ۔ یہ جملہ سن کر اس کی حقیقت کا احساس نہیں ہوا، جس پر ان دوبارہ پوچھا کہ ، کیا کہا آپ نے ؟ اس جملے پر انہوں اپنی آنکھوں سے گرنے والے آنسوؤں کو بچانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے دوبارہ کہا کہ سلطان زبیری اب اس دنیا میں نہیں رہے ، ان کا مارچ میں انتقال ہوگیا تھا ۔اس بار یہ جملہ کر میں سکتے کی سی کیفیت میں آگیا تاہم قریبی کھڑے دوسرے دوست نے باآواز بلند انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا اور سلطان زبیری کی بیوہ سے پوچھا کہ کیا سلطان صاحب بیمار تھے اور اچانک ہی ان کی موت ہوئی۔
ان کی بیوہ نے جواب میں کہا کہ جی وہ بیمار ہوگئے تھے اورکئی روز وہ بیمار ی کے باعث ہسپتال میں داخل رہے۔ دوست نے کہا کہ بہت افسوس ہوا بہت زیادہ افسوس ہوا ہمیں ، ہم لوگ تو آج طویل عرصے بعد ان سے ملنے آئے تھے ، میں بھی ملک سے باہر گیا تھا اور یہ میرے دوست کا بھی حادثہ ہواتھا جس کے بعد سلطان صاحب سے ہمارا رابطہ نہیں رہا لیکن آج آئے ہیں اور ہمیں ان کی انتقال کی خبر ملی جس پر ہمیں بہت دکھ ہوا۔ان کی گفتگو کے دوران میرے سامنے سلطان صاحب کی صورت تھی ان کی باتیں ، ان کے قصے ان کی کہانیاں ، ان کی ملک کیلئے خدمات اور ملک کے نام کو اونچا کرنے جذبات سب یکے بعد دیگر سامنے آرہے تھے اس لمحے یہ بھول گیاتھا کہ میں اس وقت ان کے گھر کے سامنے کھڑا ہواہوں اور ان کی دکھی بیوہ ہماری سامنے موجود تھیں۔ اس سے قبل کہ ہم کچھ کہتے انہوں نے کہا کہ آپ لوگ گھر آئیں اور اندر بیٹھ کر دعاکرلیں۔
Dua
دوست میری جانب اور ہم دوست کی جانب دیکھتے رہے اور یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے لیکن مرحوم کی بیوہ نے دروازہ کھولتے ہوئے اندر آنے کوکہا ۔ جب ہم ان کے ڈرائینگ روم میں داخل ہوئے ہو تو وہ نشست جہاں ہم بیٹھا کرتے تھے اور وہ جہاں سلطان صاحب تشریف فرما ہواکرتے تھے ان سمیت مہمانوں کا پورا کمرہ اسی طرح موجود تھا لیکن اگر کوئی نہیں تھا تو سلطان زبیری نہیں تھا جن سے متعدد ملاقاتیں اسی کمرے میں ہوئیں ان کی بیوہ نے قبلے کی رخ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قبلہ اس طرف ہے آپ کوگ اس جانب رخ کر کے دعاکریں ۔ ہم سلطان زبیری کے ایصال ثواب کیلئے دعاکی ان سمیت تما م مرحومین کیلئے دعا کی۔ اس کے بعد سلطان زیبری کی بیوہ نے کہا کہ وہ بیماری کے باعث ہسپتا ل میں داخل رہے اور 9مارچ کو وہ اس دنیا سے چلے گئے ۔ ساسوں ماں کو بہت تکلیف ہوئی ان کی ہر طرح سے خدمت کی تاہم وہ بھی بیٹے کے انتقال کے بعد زیادہ دن نہ رہہ پائیں اور ان کا بھی انتقال ہوگیا۔
اس خبر کو سن کر دوست سمیت اس لکھاری کی کیفیت ناقابل بیاں ہے۔ اک دوست جو چند ماں قبل بالکل ٹھیک تھا اور ہمارے ساتھ کام کرنے کی تیاری کر چکا تھا ملک و قوم کیلئے اس کے جذبات قابل ستائش تھے وہ قائد اعظم کے خوابوں کو تعبیر کرنے کیلئے کچھ نہیں بہت کچھ کرنا چاہتے تھے اپنے اس مشن کیلئے وہ سرگرم عمل تھے اگر کوئی رکاوٹ ان کے راہ میں حائل تھی تو وہ حالات تھے جن کے باعث وہ ملک و قوم کیلئے چاہتے ہوئے کچھ نہیں کر پارہے تھے۔ ہم نے مرحومین کیلئے دوبارہ دعائیں اور مرحوم دوست کی بیوہ کو ہمت و حوصلے کے ساتھ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کی تاکید کی اس کے ساتھ انہیں یہ بھی کہا کہ مرحوم دوست کے عزائم جو کہ ملک کیلئے تھے انہیں اب آپ پورا کرنے کی کوشش کریں۔
Life
قائد اعظم کا سلطان ، سلطان زبیری اب گوکہ اس دنیا میں نہ رہا لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کو قائد اعظم کے ایک سلطان کی حیثیت سے گذارا۔ قائد کا وہ سلطان زبیری گوکہ اب نہ رہا لیکن اس کے خواب ، اس کے عزائم ، اس کے جذبات و احساسات آج بھی موجود ہیں جنہیں وہ اگر اپنی زندگی میں حاصل نہیں کر سکے تو اب ان کی بیوہ ہیں وہ آگے بڑھ کر انہیں پورا کرسکتی ہیں اور ان کے آگے کی جانب بڑھنے سے وطن عزیز کے وطن پرست آگے بڑھ کر ان کے قافلے میں ملتے چلے جائیں گے اور اک دن وہ ضرور آجائے گا جب اس ملک میں ، جس کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے قائد اعظم کی پکارپر قربانیاں دیں اور اسلام کیلئے پاکستان کو بنایا ، وہ دن آئیگا جب ان لاکھوں کے خواب بھی تعبیر ہوں گااور قائد اعظم کے خواب بھی ان کے ساتھ تعبیر ہوں گے۔