تحریر: پروفیسر رفعت مظہر پیپلز پارٹی کے دَور میں دہشت گردی عروج پر تھی ۔بم دھماکے اور خودکُش حملے ہو رہے تھے اور یہ افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں کہ تحریکِ طالبان پاکستان نامی دہشت گردوں کا ٹولہ اسلام آباد پر قبضہ کرنے کے چکر میں ہے۔ مغربی میڈیا تو ایسی خبروں کو خوب اچھال رہا تھا لیکن طالبان نے ایسا دعویٰ کبھی نہیں کیا البتہ اب ایسے دعوے دھڑلے سے ہو رہے ہیں۔ یہ دعوے کپتان صاحب کر رہے ہیں، جنہیں لوگ از راہِ تفنن” طالبان خاں” بھی کہتے ہیں۔وہ بَرملا کہہ رہے ہیں کہ 2 نومبر کو اسلام آباد بند کردیں گے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کپتان صاحب اسلام آباد بند کرکے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی اِس تحریک سے اسٹیبلشمنٹ اقتدار تھالی میں رکھ کر اُنہیں پیش کر دے گی تو یہ اُن کی خام خیالی ہے بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ وہ احمقوں کی جنت میں بستے ہیں۔ اگر خُدانخواستہ فوج نے جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کا منصوبہ باندھ ہی لیا تو پھر خاںصاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ خود ہی اقتدار سنبھالے گی ۔۔۔۔ بِلا شرکتِ غیرے۔کپتان صاحب شاید نہیں جانتے کہ تاریخِ پاکستان کا سبق یہی ہے کہ فوج جب آتی ہے تو دَس، بارہ سال سے پہلے واپس نہیں جاتی۔ ایوب خاں نے سیدھے ہاتھوںاقتدار دیا نہ ضیاء الحق نے اور نہ ہی پرویزمشرف نے۔ اگر نوازشریف کی حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تو پھر کپتان صاحب اگلے دَس ،بارہ سال وزارتِ عظمیٰ کو بھول جائیں۔ ویسے بھی اُس وقت تک وہ اتنے بوڑھے ہو چکے ہوں گے کہ اُن کے اللہ اللہ کرنے کے دِن ہوںگے، پھر بھلا اقتدار کے مزے لُوٹنے کا کیا خاک مزہ آئے گا۔
ہم یہ تو ہرگز تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ کپتان صاحب جہادی تنظیموں سے مدد لے رہے ہیں۔ بھلے دانیال عزیز نے یہی دعویٰ کیا ہے لیکن اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ خاںصاحب کے پہلو میں کھڑے شیخ رشید لاشوں پر اور لاشوں کی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا وہ عمران خاںکی محبت میں نہیں بلکہ بغضِ معاویہ کے تحت میاں نوازشریف سے بدلہ لینا چاہتے ہیں۔وجہ اِس کی یہ کہ اُنہوں نے نون لیگ میں واپس جانے کے لیے بہت” منتیں ترلے” کیے لیکن میاں برادران نے اُنہیں گھاس تک نہیں ڈالی۔ نیوز چینلز پر ابھی بھی وہ فوٹیج موجود ہوگی جب شیخ صاحب نون لیگ میں واپسی کی تگ ودَو کر رہے تھے۔ اُس زمانے میں تو وہ برملا کہا کرتے تھے کہ عمران خاں کے پاس تانگے کی سواریاں بھی نہیں۔ اب جب کہ اُن کے اپنے پاس رکشے کی سواریاں بھی باقی نہیں بچیں، تو وہ کپتان صاحب کے ذریعے انتقامی سیاست کر رہے ہیں ۔ اگر خاںصاحب نے شیخ رشید کے بہکاوے میں آکر تشدد کی راہ اپنائی تو پھر اُن کی سیاست کا نومبر 16ء میں ہی خاتمہ ہو جائے گا اور وہ اصغر خاں کی طرح گمنامی کے اندھیروں میں گُم ہو جائیں گے۔
Democracy
کپتان صاحب اگر واقعی جمہوریت پہ یقین رکھتے ہیں تو پھر اُنہیں جمہوری اداروں پر بھی اعتماد کرنا چاہیے۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ادارے میاں نوازشریف کے قبضۂ قدرت میں ہیں لیکن اعلیٰ عدلیہ تو بہرحال آزاد ہے جس نے پاناما لیکس کے حوالے سے وزیرِ اعظم سمیت سب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے یکم نومبر کو طلب کر لیا ہے۔ سپریم کورٹ میں خاںصاحب خود ہی گئے تھے ، کسی نے اُنہیں مجبور تو نہیں کیا تھا۔ اب جب کہ سپریم کورٹ نے سب کو طلب کر لیا اور نوازلیگ نے اِس طلبی کی آئینی حیثیت کو چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ بھی کر لیاہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے ( حالانکہ آرٹیکل 184 کے تحت وہ اِس کو چیلنج کرنے کا حق بھی رکھتی ہے ) ، تو پھر اسلام آباد کو بند کرنے کا کیا جواز باقی بچتا ہے۔ خاںصاحب سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا یکم نومبر کو وہ سپریم کورٹ میں داد رَسی کے لیے حاضر ہوں گے اور پھر 2 نومبر کو وہ اسلام آباد بند کرکے اُسی سپریم کورٹ کو بند کرنے کی سعی بھی کریں گے؟۔ نوازلیگ پر تو وہ ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر یہ الزام دھرتے نہیں تھکتے کہ اُس نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا ، اب یہی کچھ تو وہ بھی کرنے جا رہے ہیں۔ کیا یہی ”نیا پاکستان” ہے جس کے وہ گلی گلی نعرے لگا رہے ہیں؟۔
کپتان صاحب نے چینی سفیر سے ملاقات میں کہا کہ سی پیک گیم چینجر منصوبہ ہے اور وہ اِس حوالے سے حکومت کے ساتھ ہیں حالانکہ وہ اِس منصوبے پر اپنے تحفظات کا کئی مرتبہ اظہار کر چکے ہیں۔ اُن کے وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک تو اب بھی برملا کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ صرف پنجاب کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے اور وہ اقتصادی راہداری کو خیبرپختونخوا سے نہیں گزرنے دیںگے۔ اگر خاںصاحب نے واقعی سی پیک پر یوٹرن لے لیا ہے تو یہ خوش قسمتی کی بات ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ وہ اسلام آباد کو بند کرکے اِس گیم چینجر منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں کیوں کھڑی کر رہے ہیں؟۔ سبھی جانتے ہیں کہ اِس منصوبے کی وجہ سے بھارتی نیتاؤں کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں اور اُن کی راتوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیںکہ خاںصاحب افراتفری پیدا کرکے بھارتی نیتاؤں کو خوش کرنا چاہتے ہوں؟۔
Islamabad
اگر خاں صاحب کو واقعی ملک وقوم سے محبت ہے تو وہ اسلام آباد بند کرنے کی ضد چھوڑ کر قومی دھارے میں شامل ہو جائیں اور عدالتوں کو اپنا کام کرنے دیں۔ یہ بجاکہ احتجاج اُن کا جمہوری حق ہے اور یہ حق اُن سے کوئی نہیں چھین سکتا لیکن ایسا احتجاج جو عوام سے اُن کی آزادی چھین لے ،اُس کی اجازت دنیا کی کوئی جمہوریت نہیں دے سکتی۔ آپ اسلام آبادکے باسیوں سے تو قربانی کے طلبگار ہیں لیکن آپ خود تو 2014ء کے دھرنوں میں اپنے پیروکاروں کے ساتھ رہنے کی بجائے چپکے سے بنی گالہ کھسک جایا کرتے تھے کیونکہ کنٹینر پرآپ کی نیند ڈسٹرب ہوتی تھی۔ آپ کے اپنے بچے لندن میں دنیا جہان کی ہر سہولت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور قوم کے بچوں سے قربانی مانگتے ہیں۔ یہ بھلا کہاں کا انصاف ہے۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ آپ اپنے بچوں کو پاکستان بلا کر باقی لوگوں کے ساتھ دھرنے میں بٹھا دیں ،اپنے پُرتعیش کنٹینر ٍمیں اُن کا داخلہ ممنوع قرار دے دیں ۔ پھر دیکھتے ہیں کہ وہ کتنے”گھنٹے ”اُس سڑک پر بیٹھتے ہیں۔ کیا یہ قُربانیاں قوم کے جذباتی نوجوانوں کا ہی فرض ٹھہرا،آپ کے بچوں کا نہیں؟۔
چلتے چلتے اِس دَورِجدید کے رہنماؤں سے گزارش ہے کہ وہ مسندِاقتدار کی جنگ میں جتنا جی چاہے ،باہم جوتم پیزار ہوں ،کسی کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے لیکن خُدارا ! گھٹیا زبان استعمال کرکے نسلِ نَو کی تباہی وبربادی کا باعث نہ بنیں۔ ایک طرف کپتان صاحب کہتے ہیں کہ وہ بے شرم ،بے غیرت ہسپتالوں کو بھی نہیں بخشتا جبکہ دوسری طرف خواجہ آصف کہتے ہیں کہ بے شرم اور بے غیرت تو وہ ہے جو زکواةکا پیسہ آف شور کمپنیوں میں لگاتا ہے ،جو اپنی ماں کے نام پر کھولے گئے ہسپتال کو بھی نہیں بخشتا۔ قوم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ کیا قومی رہنماؤں کا یہی وتیرہ ، یہی انداز اور یہی زبان ہوتی ہے؟۔۔۔