نئی دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت کی بیشتر مسلم تنظیموں اور دانشوروں نے بابری مسجد اور رام مندر تنازعہ پر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ وہ اس کا احترام تو کرتے ہیں تاہم انہیں انصاف نہیں ملا ہے۔
بھارت میں مسلم رہنماؤں نے عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے تاہم اس فیصلے پر ناخوشی کا اظہار بھی کیا ہے۔ اس فہرست میں سب سے سخت نکتہ چینی رکن پارلیمان اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی نےکی۔ بھارتی شہر حیدرآباد میں ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آخری ہے اور وہ اس کا احترام کرتے ہیں لیکن یہ در اصل ’حقائق پر عقیدے کی جیت ہے۔‘
اویسی کے بقول، ’’ہم نے اپنے قانونی حق کے لیے لڑائی لڑی تھی، ہمیں خیرات نہیں چاہیے۔ میری رائے یہ ہے کہ حکومت نے جو پانچ سو ایکڑ زمین مسجد کے لیے دینے کے لیے کہا ہے، اسے مسلم فریق کو مسترد کر دینا چاہیے۔‘‘
اسدالدین اویسی کا مزید کہنا تھا کہ اس سے ملک کی سیکولر شبیہہ مخدوش ہوگی اور سخت گیر ہندو تنظیمیں اس کا بےجا استعمال کریں گی۔ اویسی کے بقول ’’ملک ہندو راشٹر (ہندو قوم پرست ریاست) بننے کی سمت پر ہے۔ ہندو تنظیمیں اور بی جے پی اس کی شروعات ایودھیا سے کریں گی۔ اور اس کے لیے این آر سی سٹیزن ترمیمی بل جیسی چیزوں کا استعمال کریں گیں۔‘‘
علاوہ ازیں بعض ہندو سرکردہ شخصیات اور دانشوروں نے بھی اس فیصلے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس پر تنقید کی ہے۔ معروف سماجی کارکن اور مہاتما گاندھی کے پڑ پوتے تشار گاندھی نے اس فیصلے پر اپنے رد عمل میں کہا کہ اس فیصلے سے عدالتی نظام ميں ایک نئے باب ’عقیدت کا جرم‘ کا اضافہ ہوگیا ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ فیصلے کو تو قبول کرنا ہی ہوگا لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کا احترام بھی ہو۔ تشار گاندھی کے بقول، ’’بد قسمتی سے لگتا تو ایسا ہے کہ جیسے سپریم کورٹ نے عوامی رجحان اور اکثریت کے دباؤ میں آ کر اس طرح کا فیصلہ دیا کہ جس سے عوام تو خوش ہوگی لیکن انصاف کا تقاضا پورا نہیں ہوگا۔‘
انہوں نے اپنے ایک ٹوئیٹ پیغام میں کہا کہ آج آگر گاندھی جی کے قتل کے مقدمہ کی دوبارہ سماعت ہو تو عدالت ناتھورام گوڈسے کو قاتل قرار دیتے ہوئے اسے محب وطن بھی قرار دے گی۔