تحریر: محمد شاہد محمود گذشتہ دنوں لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں معروف ادیب ‘کالم نگار پر نٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے شعائر اسلام کے تحفظ’ملی تشخص پر یقین رکھنے وا لی اسلامی صحافت کی علمبردار تنظیم رائٹرز گلڈ آف اسلام پاکستان کے مرکزی نائب صدر نسیم الحق زاہدی کی کتاب ”قائد انسانیت حضرت محمد ۖ”کی تقریب رونمائی تھی جس میں مجاہد اسلام غازی جنرل حمید گلکے صاحبزادے محمد عبداللہ حمید گل چیئرمین تحریک جوانان پاکستان اور گمنام مجاہدغازی فاروق حارث العباسی ‘جمیل ڈاہا ‘حافظ مصطفی صادق’اصغر علی کھوکھر ‘بیگم صفیہ اسحاق ‘رابعہ عظمت ‘عابد زید ‘ممتاز حیدر اعوان ‘کامران ساقی’ظہور کاظمی ودیگر سینئر ز صحافی وکالم نگاروں نے شرکت کی عبداللہ گل نے نسیم الحق زاہدی کے لیے تاریخی جملے کہے کہ زاہدی کالم نگار نہیں بلکہ حق اور سچ کا ”علم ”ہے میں نے ہمیشہ زاہدی کے قلم کو جہاد کرتے پایا زاہدی ایک مجاہد ہے جس نے کبھی اپنے قلم اور ضمیر کو بیچا نہیں۔
انسان روز اول سے زمانے کو اپنے ساتھ لیکر چلنا چاہتا ہے مگر بہت کم ایسے افراد ہیں جو زمانے میں بکھرے ہوئے خیالات ‘احساسات ‘تفکرات کو اکھٹا کرپاتے ہیں اور پھر خلق خدا کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں یقیناایسے افراد زمانے کو اپنے ساتھ لیکر چلنے کاہنر رکھتے ہیں ‘سچ زہر پینے اور جیون تیاگ دینے کا نام ہے خود اپنے ہاتھوں سے زہرکا پیالہ پینے کا مرحلہ قیس اور سقراط سے بھی آگے کا ہے اور جو اس سنگلاخ مرحلہ کو سر کر جاتے ہیں وہ اپنی پہچان آپ بنتے ہیں ان کو چاہ کربھی تاریخ فراموش نہیں کر پاتی وہ زمانے کے نصاب کا اہم حصہ ہوتے ہیںنسیم الحق زاہدی کا بھی شمار ان افراد میں ہوتا ہے جو اپنا مقصد زیست لیکر اس دنیا میں آتے ہیں۔
قائد انسانیت حضرت محمدۖ ۔۔۔۔۔نوجوان کالم نگار نسیم الحق زاہدی کے کالموں کا انتخاب اور دوسری کتاب ہے 57کالموں اور10پیغامات پر مشتمل اس کتاب میں چار اہم اور حساس موضوعات نبی رحمتۖ کی شان ‘عالم کفر کی سازشیں ‘افواج پاکستان کو خراج تحسین اور معاشرتی ناانصافیوں پر ببانگ دہل کالمز موجود ہیں جس میں سب سے پہلے نبی رحمت ۖ کی شان کو بیان کیا گیا ہے اور ان لوگوں کو اور ان کے فلسفہ کو جھٹلایا گیا ہے جو نبی رحمت ۖ کی سیرت غزوہ بدر سے لیکر خطبہ حجتہ الوداع تک بیان کرتے ہیں اور نبی رحمتۖ کو صرف ایک نبی مانتے ہیں جو کہ سراسرناانصافی ہے کیونکہ پہلی بات تویہ کہ حضرت محمدۖ پیدائشی طورپرنبی اور ایک عظیم سیاسی’سماجی ‘مذہبی اور روحانی قائد تھے آپ کی تعلیمات پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں قیامت تک کے لیے انسانوں کے لیے آج دنیا کے کامیاب ترین ممالک میں نبی رحمتۖکی تعلیمات ‘اصولوں اور قوانین پر عمل کیا جاتا ہے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم حضرت محمدۖ کی تعلیمات کو یکسر فراموش کرکے یہودیوں ‘کافروں کو اپنے آئیڈیل مانتے ہیں اور ان کی بیہودہ ‘فضول باتوں پر عمل کرنا اپنے لیے باعث فخر واعزاز سمجھتے ہیں اور ہماری ناکامیوں اور بربادیوں کی یہی وجہ ہے ۔آپۖ قائد انسانیت ہیں اور انسانیت کے قائد ہیں یہودیوں ‘نصرانیوں ‘بت پرستوں نے کیسے کیسے ”اسلام”اور مسلمانوں کو نقصانات پہنچائے ہیں اور پہنچا رہے ہیں اور ہم کیسے ان کے آلہٰ کار بنے ہوئے ہیں آج یہودونصارہٰ کیسے مسلمانوں کے اندر بیگاڑ پیدا کررہے ہیں اور چند دین بیزار دین دار سیکولر لوگ ”اسلام”کو قید وقیود کا مذہب قرار دیتے ہوئے اپنی بیہودہ تجاویز پیش کرتے ہیں کوئی اسلامی سزائوں کو ظلم کہتا ہے تو کوئی نبی رحمتۖکی ذات اقدس کو تنقیدکا نشانہ بناتا ہے کوئی صحابہ اکرام کی شان میں گستاخیاں کرتا ہے۔
Book Launch Ceremony
شعائر اسلام کا مذاق اڑایا جاتا افسوس یہ ایک اسلامی اور نظریاتی ریاست ہے یہاں پر توہین رسالت مآبۖ کا قانون تو موجود ہے مگر آج تک کسی گستاخ کو سزاء نہیں دی جاسکی جبکہ عاشقان رسولۖ تختہ دار پر ضرور لٹکائے جا چکے ہیں حقائق سے پردہ چاک کرنے کی ادنیٰ سی کوشش کی گئی ہے افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کی گئی ہے نسیم الحق زاہدی لکھتے ہیں کہ ہماری ناکامیوں کی ایک وجہ ہم احسان فراموش لوگ ہیں اور جو قومیں اپنے محسنوں کو بھلا دیتی ہیں وہ تباہ ہو جاتی ہیں جن عظیم فرزندان اسلام (پاکستان آرمی)کے شہداکی قربانیوں کی بدولت آج پاکستان کا وجود قائم ہے بعض لوگ ان قربانیوں کو فراموش کرتے جارہے ہیں آج ہماری نوجوان نسل کے ہیرو کافر’ قاتل اور عیاش لوگ ہیں کوئی لیلن کا پرستار ہے توکوئی مائوزے کا کوئی کارل مارکس کو پوجتا ہے تو گاندھی کو لیڈر مانتا ہے کوئی قائد اعظم کی ذات پر کیچڑ اچھالتا ہے تو کوئی پاکستان کے بننے کے خلاف ہے حق تو یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نصاب کے اندر ان عظیم اسلام کے مجاہدوں کے واقعات ہونے چاہیے تھے معاشرتی ناانصافیوں پر زاہدی کا موقف ہے کہ ہم لوگ ذہنی طور پر ابھی تک آزاد نہیں ہوئے اسی لیے ہم ملت کفر کی پیروی کرتے ہیں ان کے رسم ورواج کو اپنائے ہوئے ہیں۔
ہم لوگ غلام تھے غلام ہیں اور غلام ہی رہیں گے ہم لوگ شخصیت پسند ہیں انصاف پسند نہیں موجودہ نظام ظلم ‘جبر ‘تشدد اجارہ داری کا منہ بولتا ثبوت ہے یہاںپر ہر طاقتورصدیوں پہلے کی طرح ہر قسم کے حقوق کا مالک ہے یہا ں تھانے وڈیروں ‘جاگیرداروں ‘سرمایہ داروں کی ذاتی عدالتیں ہیں جہاں پر بیٹھ کر وہ اپنی مرضی کے فیصلے صادر کرتے ہیںارباب اختیار کے منصف سے یارانوں کی بدولت یہاں انصاف ناپید ہو چکا ہے نسیم الحق زاہدی لکھتے ہیں کہ حافظ محمد سعید ایک مجاہد ہیں اور وہ دور حاضر کے ولی اور انسانیت کے خادم ہیں اور انکی خدمات سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں اگر وہ پاکستان کی بجائے کسی اور ملک میں ہوتے تو ان کی عظیم خدمات کے عوض ان کوحکومت اہم اعزازات سے نوازتی مگر پاکستان میں یہ ”چندلوگ”اپنے محسنین کے ساتھ بہت برا سلوک کرتے ہیں ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ کیا ہوا قوم جانتی ہے۔
حافظ محمد سعید کی نظربندی غیر قانونی وغیر آئینی ہے اور غلامی کا زندہ ثبوت ہے اس کتاب میں وفاقی وزیر مذہنی امور سردار محمد یوسف’اوریا مقبول جان ‘گمنام مجاہدغازی فاروق حارث العباسی ‘سنیٹر سراج الحق’حافظ محمد سعید ‘ڈاکٹر محمد اجمل نیازی ‘عبدالغنی شہزاد’ظہیر سلہری ‘بیگم صفیہ اسحاق ‘محمدعبداللہ حمید گل کے پیغامات بنام مصنف موجود ہیں اوریا مقبول جان لکھتے ہیں کہ نسیم الحق زاہدی ان نوجوان لکھنے والوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تبارک تعالیٰ نے نہ صرف فہم فراست عطا کی ہے بلکہ ان کے قلم کو دل میں اتر جانے والی تحریر سے بھی نوازا ہے لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں اپنے دین کی حمیت اور غیرت کے لیے خاص کر لیا ہے ڈاکٹر اجمل نیازی لکھتے ہیں کہ نسیم الحق زاہدی کے دل میں عشق رسولۖ کا چراغ ہے جسے کوئی بجھا نہیں سکتا اس کے کالموں میں مذہبی خوشبوآسانی سے محسوس کی جا سکتی ہے غازی فاروق حارث لکھتے ہیں کہ سچ تو یہ ہے کہ زاہدی کالم نگار ہیں ہی نہیں وہ ایک حقیقت نگار ہیں نسیم الحق زاہدی بجا طور مبارکباد کے مستحق ہیں کتاب کے حصول اور رائے کے لیے 03006190507پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب اپنے اندر مفاہیم رکھتی ہے تقریب کے اختتام پر رائٹر ز گلڈ آف اسلام پاکستان کی جانب بہترین صحافتی خدمات کے اعتراف پر محمد شاہد محمود راقم الحروف سمیت ممتاز حیدر اعوان ‘کامران ساقی ‘رابعہ عظمت’حافظ مصطفی صادق’بیگم صفیہ اسحاق’اصغر علی کھوکھر’زید عابد کو گولڈ میڈل 2017سے نوازہ گیا۔