تحریر: ایم آر ملک ماہ اپریل آتا ہے تو فکر قید لفظ گونگے، سوچیں پابجولاں ہو جاتی ہیں وقت کے قافلے شاید کہیں قیام نہیں کرتے رکنا ان کی شان نہیں ہر برس کانیا سورج طلوع ہوتا ہے تو پچھلے برس کے سارے کیلنڈر بیکار ہوجاتے ہیں کائنات کے ارتقاء سے یہ کھیل جاری ہے یہ برس بڑی مچھلیوں کی طرح ایک دوسرے کو نگلتے جارہے ہیں اوقات کے یہ ماہ و سال مجرم لگتے ہیں طوفان لگتے ہیں سرخ آندھیاں لگتی ہیں جوہر چیز اپنے ساتھ بہاکر لے جاتے ہیں اور شاید یہ آندھیاں یہ طوفان وطن عزیز کا مقدر ہوکر رہ گئیں ہیں۔ یہ آندھی یہ طوفان 4اپریل1979ء کو بھی آیا۔
چی گویرا نے کہا تھا ”مرنا عیب نہیں مگر ہمارے پیچھے ساتھی ماتمی جنازہ نہ اٹھائیں بلکہ آزادی کی جنگ کو مضبوط کریں جیسے سامراج اور اس کے پالتو کتوں کو خبر پڑی کہ انقلاب کیلئے جدو جہد کرنے والے سر کٹاتے ہیں جھکاتے نہیں۔
وہ بھی اسی سفر کاراہی تھا موت کو مارنا بہت بڑی فتح ہے
بہادر مائیں موت کو مارنے والے ایسے بیٹے صدیوں میں پیدا کرتی ہیں جو موت کو گلے لگا کے اپنے جینے کا حوصلہ دیں تاریخ آج تک اپنے ماتم سے فارغ نہیں ہوسکی تاریخ نہ مٹنے والی تاریخ جب منصور کو سولی پر لٹکایا گیا، ایسی تاریخ جب بلاول کو چکی میں پیسا گیا، ایسی تاریخ سرمد کی بھی ہے، تو بھگت سنگھ کی بھی ،تاریخ شاہ عنایت کی بھی ہے تو آزادی کے ہیرو مقبول بٹ کی بھی ہے یہ تاریخ بے گناہ سزائیں کاٹنے والے سیاسی کارکنوں کی بھی ہے۔
ایسی ہی تاریخ نے اپنے قلم کے آنسو بہاتے ایک نام ذوالفقار علی بھٹو شہید لکھا ہے جس نے ایک ایسی پارٹی کی بنیاد رکھی جو عالمی اسٹیبلشمنٹ کے لیے خوف اور کارکنوں کے لیے جلتے ہوئے انگاروں پر ننگے پائوں چلنے کے برابر تھی 27 دسمبر 18اکتوبر 12 مئی کے واقعات نے اس کی گواہی دی اُس نے کہا ! دنیا خوبصورت ہے اور میں اسے اسی طرح خیر باد کہوں گا ۔پھر اُس نے معمول کی طرح شیو بنائی ٹھیک ایک گھنٹہ بعد تیسری دنیا کا عظیم لیڈر آئین کی کمزور ترین دفعہ 109کے تحت تختہ دار پر جھولنے والا تھا اُس نے حلفاً کہا نواب محمد احمد خان کے قتل سے میرا کوئی تعلق نہیں مگر سفید ہاتھی اُس کی جان کے درپے تھا
اقبال کے بیٹے جاوید اقبال بھی منصفوں کے اُس پینل میں تھے جنہوں نے فخر ایشیا کی موت کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا جاوید کہتے ہیں میں نے خواب دیکھا بھٹو کہہ رہے ہیں میں بے گناہ ہوں خواب تو الہام ہوتا ہے میں کیسے اس سچائی کی نفی کرتا میرا ایک دوست صحافی راجہ اعجاز مرحوم جو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے خلاف سنائے جانے والے فیصلے کا چشم دید تھا کہتا ہے اُس روز لائٹ بلیو لباس میں ملبوس عدالت کے کٹہرے میں کھڑا تیسری دنیا کا عظیم لیڈر فیصلہ سنانے سے قبل کہہ رہا تھا مجھے قاتل اور مقتول کے گرد گھومنے والی کہانی کے تناظر میں نہ دیکھا جائے میری ایک جیب میں کشمیر کا حل موجود ہے اور دوسری جیب میں اسلامی دنیا کے اتحاد کا ٹھوس منصوبہ مولانا ابوالکلام آزاد نے سچ کہا تھا۔
PPP
”عدالتی ناانصافیوں کی فہرست بڑی طولانی ہے تاریخ آج تک اس کے ماتم سے فارغ نہ ہوسکی ہم اس میں حضرت مسیح جیسے پاک انسان کو دیکھتے ہیں جو اپنے عہد کی اجنبی عدالت کے سامنے چوروں کے ساتھ کھڑے کیئے گئے ہم کو اس میں سقراط نظر آتا ہے جس کو صرف اس لیئے زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ وہ اپنے ملک کا سب سے سچا انسان تھا ” ماضی میں سفیدہاتھی کے معتوب بنی گالہ کے قیدی عظیم سائنسدان ڈاکٹر قدیر خان نے آمر وقت ضیاء کو لکھا ”یقینا بھٹو صاحب سے کچھ غلطیاں ہوئی ہوں گی لیکن پاکستان کی سلامتی کیلئے اُن کی بے پناہ خدمات کو سامنے رکھا جائے اور بھٹو کی پھانسی روک دی جائے۔
یہی اپریل کا مہینہ تھا جو ہر سال آتا ہے آج سے35سال قبل بھی آیا لیکن سوگوار چہرے کے ساتھ 1979ء کو بھی وہ بدھ کاروز تھا اُس روز طلوع ہونے والا آفتاب فخر ایشیا کے بے گناہ لہو کی لالی لیکر طلوع ہوا اور ڈوبتے افق پر بھی یہی لالی تھی اُس کے چہرے پر موت کا کوئی تاثر نہیں تھا اس لیئے کہ وقت کے آمر سے اُس نے زندگی کی بھیک مانگنے سے انکار کردیا کسی اپنے نے کہا بھٹو وہ تمہاری لاش کو گلیوں میں گھسیٹیں گے بھٹو ہنس پڑے بے شک گھسیٹیں لیکن تاریخ میری لاش کو نہیں گھسیٹے گی نصرت نے کہا ذلفی زندگی کی خاطر وطن کو خیر باد کہہ دو! زنداں کے پیچھے موت سے بے خود ذلفی مسکرا یا دھرتی توماں ہوتی ہے نصرت اور کون کم بخت نہیں چاہتا کہ وہ ماں کی آغوش میں دم توڑے ٹھیک ایک گھنٹے بعد گھڑی نے چار بجا دیئے پھر وہ باوقار چال سے پھانسی گھاٹ پہنچا موت کی تصدیق کرنے قریب کھڑے ڈاکٹر اور جلاد تارا مسیح کی سماعت سے مسلم ورلڈ کے لیڈر کے آخری الفاظ ٹکرائے ”اے اللہ گواہ رہنا میں بے گناہ ہوں ” فیض تڑپ اُٹھا۔ اک گوہر نایاب گنوا بیٹھے ہو لوگو کس شخص کو سولی پہ چڑھا بیٹھے ہو لوگو
سر شاہ نواز بھٹو کے عظیم سپوت نے قید زنداں میں اپنی بایئو گرافی میں لکھا اگر مجھے قتل کیا گیا تو دنیا کی تاریخ بدل جائے گی وقت نے اس سچائی کو ثابت کیا نائن الیون کا خود ساختہ واقعہ ہوا اکسٹھ مسلم ریاستیں سمندر کی جھاگ کی طرح بے وزن ہو گئیں کرہ ء ارض پر ہر مسلمان معتوب ہوا اُس کی عزت نفس چھن گئی تیسری دنیا میں فرنگیت اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو گئی موجودہ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے پہلے دور اقتدار میں مسلم سربراہوں کا ناکام اجلاس طلب کیا تو امریکہ کے معتوب لیبیا کے معمر قذافی کو بھی دعوت نامہ بھیجا بھٹو کے ساتھی نے جواباً لکھا ”مجھے 1974میں ایسی ہی ایک مسلم سربراہوں کی کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تھا اور میں نے لاہور میں ہونے والی اس کانفرنس میں واقعی اسلامی قوتوں کو اکٹھے ہوتے دیکھا تھا لیکن بعد میں ایک ڈکٹیٹر نے اُس شخص کو جس نے ساری مسلمان قوم کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی تھی پھانسی پر لٹکا دیا میں آج تک اس سانحہ کے غم سے باہر نہیں آسکا اس لیئے میرے واسطے اس اجلاس میں شرکت کرنا مشکل ہے۔