انسان جو سوچتا ہے لازم نہیں کہ وہ کام اس کی سوچ اور منشا کے مطابق ہو۔ مئی وہ مہینہ ہے جس میں پاکستان ایٹمی طاقت بنا اور اسی ماہ میں ایک سال قبل قومی و صوبائی الیکشن ہوا تھا۔ اس وقت بھی لوگ بجلی کے ستائے ہوئے تھے اور آج بھی۔ عوام نے سوچا ہو گا کہ شاید میاں برادران کی حکومت آئے گی تو سکھ کا سانس آئے گا مگر سکھ کا سانس تو بہت دور یہاں تو خالی سانس لینا مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ دن کا چین گیا اور رات کی نیند۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف کچھ بھی لکھنا آج کل بیکار ہے کیونکہ حکومت واضح طور پر اعلان کر چکی ہے کہ لوڈشیڈنگ پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔
کسی بھی چیز پر قابو پانے کے لیے اس فیلڈ میں مہارت کا ہونا بہت ضروری ہے مگر ہمارے حکمرانوں میںبجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات کے لیے مہارت نام کی کوئی چیز نہیںاگر مہارت ہے تو گینز بک میں نام لکھوانے کے جھوٹے ڈرامے کی۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ وہ بجلی کی سب سے زیادہ لوڈشیڈنگ کرانے کاریکارڈ حقیقت میں گینز بک میں لکھوانے کے قابل ثابت ہوں۔
ویسے توپاکستان بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے جس میں توانائی کے بحران کا مسئلہ سرفہرست ہے۔بقول حکومت کہ وہ توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے لیکن بظاہر کچھ نظر نہیں آرہا۔اگر کچھ نظر آرہا ہے تو رشتہ داروں یعنی عابد شیر علی کے جارحانہ سٹروک ہیں۔ جہاں وہ بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کررہے ہیں وہیں نادہندگان کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔میڈیا کے مطابق ایک بات سامنے آئی ہے کہ پارلیمینٹ ہاؤس اور ایوان صدر سمیت وفاق کے 20 سرکاری ادارے بجلی کے بل ادا نہیں کرتے اور 45 کروڑ 97 لاکھ کے نادہندہ ہیں۔ ان اداروں میں پارلیمینٹ، ایوان صدر، وزیراعظم سیکرٹریٹ سمیت کئی سرکاری و نیم سرکاری ادارے شامل ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پارلیمینٹ ہاؤس 12 کر وڑ 70 روپے، وزیراعظم ہاؤس اورسیکرٹریٹ 54 لاکھ روپے، سندھ اور بلوچستان ہاؤس 60 لاکھ روپے، وزارت منصوبہ بندی 22 لاکھ روپے، وز ارت قانون 32 لاکھ روپے، الیکشن کمیشن 3 لاکھ روپے، وفاقی محتسب 6 لاکھ روپے، وزارت پانی و بجلی اور پٹرولیم 40 لاکھ روپے، وفاقی شریعت کورٹ 36 لاکھ روپے اور سینیٹرز ہاسٹل 12 لاکھ روپے کا نادہندہ ہے۔
Abid Sher Ali
عابد شیر علی نے اپنے آپ کو واقعی شیر ثابت کرتے ہوئے پارلیمینٹ، وزیراعظم سیکرٹریٹ سمیت کئی اہم محکموں کے بجلی کنکشن منقطع کرادیے ہیں۔ عابد شیر علی نے یہیں بریک نہیں لگائی بلکہ انہوں نے تو پنجاب اسمبلی کے سپیکر کے گھر کا بھی کنکشن منقطع کرادیا۔ عابد شیر بظاہر تو بہت جارحانہ انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ وہ واقعی پاکستان کے لیے کچھ کررہے ہیں یا صرف میڈیا میں سکورنگ پوائنٹ کررہے ہیں۔ اگر ہم دیکھیں تو چھیالیس کروڑ کے قریب کی رقم ہمارے حکمران بجلی کے نام پر ہڑپ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ باقی دوسرے محکموں کے کتنے کھائیں ہونگے وہ ابھی علم نہیں۔ حکمرانوں کے پیسے کھانے میں میڈیا کا بھی بڑا کردار ہے کیونکہ جیسے اب عابد شیر علی کے کارناموں کو میڈیا نے بڑے زور و شور سے سنایا اسی طرح ان اداروں میں بغیر کلئیر ہوئے بجلی بحال ہوتو بھی میڈیا کو اسی طرح چرچا کرنا چاہیے۔ اس طرح حکمرانوں کے کارناموں سے عوام بھی باخبر رہتی ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ اگرکسی غریب کا بل دو ماہ ادا نہ ہوخواہ اس کا دو ماہ کا بل دوہزار روپے ہو واپڈا والے فوراً کنکشن کاٹ کر میٹر لے جاتے ہیں۔ اس دوہزار بل کے چکر میں اس غریب کے پھر پانچ ہزار لگ جاتے ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے ؟ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرو وہی اپنے دوسرے بھائی کے لیے پسند کرومگر یہاں تو ہمارے حکمران اپنا ہی سوچ رہے ہیں اپنے بھائیوںکا نہیں۔ا گرچھیالیس کروڑکی رقم ان حکمرانوں سے وصول کرلی جائے تو اس سے بجلی کی پیدوار میں اضافے کے لیے اقدامات کیا جاسکتے ہیں۔
جس ملک کے حکمران یا سرکاری ادارے خود عوامی پیسہ لوٹ کر کھارہے ہوں تو وہ دوسروں کو کیسے روک سکتے ہیں؟ عابد شیر علی کے ان اقدامات کو حکمران طبقہ کے بہت سے لوگ ناپسند کررہے ہیں۔ حال ہی میں بلاول زرداری نے بھی عابد شیر علی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ایسے حکمرانوں سے کوئی پوچھے کہ اگر یہ اقدامات مشرف دورمیں یا بلاول اپنے دور میں اٹھاتے تو آج بجلی کی لوڈشیڈنگ کافی حد تک کمی واقع ہو جاتی۔یہ تنقید تو پنجابی محاورے کے مترادف ہے ”نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیوا ں گے”یعنی نہ خود کچھ کیا اور نہ دوسرے کو کرنے دے رہے ہیں۔ پی پی کے دور میں تو ریلوے بھی خسارے میں جا رہا تھا۔
اس کی تو بجلی کی وائریں تک اتار لی گئیں تھی مگر آج ریلوے منافع بخش ادار ہ بنتا چلا جارہا ہے۔ گاڑیاں بھی وقت پر آ جا رہی ہیں۔ تنقید وہ کرے جس کا اپنا دامن صاف ہو۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو ہدایت دے کہ وہ جو کچھ اپنے لیے کر رہے ہیں وہی کچھ اپنی رعایا کے لیے کریں ورنہ لوگ شہباز شریف کی اس بات کو سچ سمجھیں گے جب اس نے کہا کہ بجلی ختم کر دیں گے۔