حکمران اور رعایا

Mamnoon Hussain

Mamnoon Hussain

نو منتخب صدر ممنون حسین کے بارے میں میرے صحافی بھائی بڑے مزے کی خبریں نکال کر لا رہے ہیں۔ ایوان صدر کے نئے مہمان کے بارے میں پتا چلا ہے کہ قاری بھی ہیں اور نمازی بھی۔ ایک مدت بعد ایوان صدر کو ایسا مکین نصیب ہوا ہے جو تہجد گزار بھی ہے۔ کتنی خوبصورت بات ہے سنا ہے ہمارے نئے صدر جناب ممنون حسین اپنی خوش الحان قرات سے سماں باندھ دیتے ہیں خدا کرے نو منتخب صدر کے بارے میں جو خیر کی خبریں سن رہے ہیں وہ سب ٹھیک ہی ہوں۔ عجیب بحث چل نکلی ہے اگلے دن بزرگوار محترم سجاد میر لکھتے ہیں ”گول گپے والا آیا” بس پھر کیا تھا اب کوئی کہتا ہے کہ آنے والے صدر کے گھر کے دہی بڑے لذیذ ہوتے ہیں کوئی ربڑی والا دودھ درمیان میں لے آیا ہے۔۔۔ غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ مورخ لکھتے ہیں جیسی عوام ویسا حکمران تاریخ کہتی ہے حکمرانوں کے طور طریقوں کے کہیں نہ کہیں اثرات عوام میں نظر آتے ہیں۔

حجاج کے زمانہ میں جب لوگ صبح بیدار ہوتے تو ایک دوسرے سے ملاقات ہوتی تو باہم پوچھتے کہ گزشتہ رات کون قتل کیا گیا، کس کو پھانسی پر لٹکایا گیا اور کس کی پیٹھ کوڑوں سے چھلنی ہوئی ؟ ولید بن عبدالمالک کثیر مال و جائیداد اور عمارتیں بنوانے کے شوقین تھا۔ چناچہ اس زمانے میں لوگ ایک دوسرے سے مکانات کی تعمیرات نہروں کی کھدائی اور درختوں کی افزائش کے بارے میں پوچھا کرتے۔ جب سلیمان بن عبدالمالک نے حکومت کی کرسی سنبھالی تو وہ کھانے پینے اور گانے بجانے کا شوقین تھا چناچہ لوگ کھانوں کے بارے میں،گانے والیوں اور لونڈیوں کے متعلق ایک دوسرے سے پوچھتے اور یہی ان کا موضوع سخن ہوتا۔ اور جب عمر بن عبدالعزیز منصب خلافت کی زینت بنے تو لوگوں کی آپس میں گفتگو کچھ اس طرح سے ہوتی۔

Quran Paak

Quran Paak

”قرآن کتنا یاد کیا؟ ہر رات کتنا ورد کرتے ہو؟رات کو کتنے نفل پڑھتے ہو؟ فلاں آدمی نے کتنا قرآن یاد کیا؟ فلاں شخص مہینہ میں کتنے روزے رکھتا ہے؟کسی نے سچ کہا ہے رعایا اپنے حکمرانوں کے طور طریقے اختیار کرتی ہے۔ معاف کیجئے گا قلم بھٹک گیا بات جناب صدر ممنون حسین کی ہو رہی تھی ہمارے نئے صدر کا تعلق بھی کراچی سے ہے ابھی کل ہی تو برادر عزیز فاروق عادل سے بات ہو رہی تھی برادرم فاروق بھی روشنیوں کے شہر کراچی میں بستے ہیں لکھتے ہیں۔ ممنون حسین گورنر سندھ کے عہدے پر بھی فائز رہے جنرل مشرف نے جب جمہوری حکومت کا تختہ الٹا اور خود ملک پر قابض ہو گیا تو ممنون حسین کے سامنے دو راستے تھے ایک طرف اقتدار تھا اور دوسری طرف آزمائش ممنون حسین نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ ممنون حسین اقتدار کے ایوان سے نکلے تو گاڑی میں بیٹھ کر گھر روانہ نہیں ہوئے، سامنے دفتر میں گئے جہاں ان چھوٹے ملازمین سے ملے جو دفتری کاموں میں مصروف تھے۔

ممنون حسین ادھر ان دکھی جانوں کو گلے لگا رہے تھے دوسری طرف ان کی اہلیہ کلرکوں چپراسیوں اور مالیوں کی کالونیوں میں جا کر ان کی بیٹیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر ان سے رخصت لے رہی تھیں۔ یہ سب ہو گیا تو میاں بیوی اطمینان سے گاڑی میں بیٹھے اور بزنس روڈ کی اس ٹوٹی پھوٹی گلی میں اپنے پرانے مکان میں جا پہنچے جس کی دیواروں سے آگرہ سے ہجرت کر کے آنے والے خاندان کی پرانی یادوں کی خوشبو آتی تھی۔ ادھر یہ مطمئن خاندان اپنی یادوں بھری دنیا میں واپس لوٹ چکا تھا۔

دوسری طرف گورنر ہائوس کے مستقل مگر چھوٹے موٹے مکین حیران تھے کہ یہ کیسا عجب حکمران اس محل میں تھا جو اقتدار سے محرومی کے وقت بھی انھیں نہیں بھولا جنہوں نے چند روز اس کی خدمت کی تھی یہ اس پرانی عمارت کے مکینوں کے لئے اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ معاف کیجئے گا اوپر لکھی ہوئی باتوں سے ہرگز یہ بتانا مقصود نہیں کہ کوئی انقلاب آنے والا ہے اور انقلاب ایسے تو نہیں آجاتے کم از کم اچھی توقعات تو کی جا سکتی ہیں دیکھتے ہیں یہ حکمران رعایا کی توقعات پر کس حد تک پورا اترتا ہے۔

Farrukh Shahbaz Warraich

Farrukh Shahbaz Warraich

تحریر : فرخ شہباز وڑائچ