اضطراب ہے کہ لمحہ لمحہ بڑھتا جا رہا ہے ،بے کلی جان کنی کی حدوں کو چھونے لگی ہے سوالوں کا گھنا جنگل ہے اور دلوں میں اُمید کا دیا روشن کرنے والی ایک پگڈنڈی نہیں مایوسی گناہ ہے اور اُس سوہنے رب کی رحمت سے نااُمید ہونا مسلمان کو زیبا نہیں خالق ارض و سما کا طے کردہ اصول ہے وہ ایسی قوموں کی مدد نہیں کرتا جو خود اپنا چلن تبدیل کرنے پر آمادہ نہ ہوں معاشرے قانون کی پاسداری پر قائم رہتے ہیں۔
نشوونما پاتے ہیں ایثار، ریاضت، آہنگ کی اُنہیں ضرورت ہوتی ہے محب وطن قیادت موجود ہو تو خوفزدہ ہونے ،گھبرانے کی ضرورت نہیں ہوتی یہ اور بات کہ وطن عزیز کو قائد اعظم کے بعد محب وطن قیادت میسر نہ آسکی اٰیئر مارشل اصغر خان جیسی قیادت کو آمریت نے نگل لیا اور آج قدم قدم پر راہزن مورچہ زن ہیں ملک دشمن استحصالی اداروں کا قرض ہے کہ بڑھتا جارہا رہا ہے مگر اُمید باقی ہے کہ سوہنے رب کے کچھ قوانین ہیں جن کی پاسداری کرنا ہوتی ہے ملک ”لیمٹیڈ کمپنیاں ” نہیں ہوتے کہ دیوالیہ ہو جائیں۔
ہوگو شاویز جیسی محب وطن قیادت نے ثابت کیا کہ سرمایہ دارانہ نظام کو فنا ہے بقا نہیں اُس نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے استحصالی اداروں کی ملک سے بساط لپیٹ دی اللہ کے اپنے قوانین ہیں جن کی پاسداری کرنا ہوتی ہے اُس کی کوئی لاڈلی مخلوق کبھی نہیں تھی جس کیلئے وہ اپنے اصول بدل دیتا سُستی ،کوتاہی ،مایوسی ،پریشانی انقلاب نہیں لاسکتی انقلاب جرات ،جسارت ،حوصلہ ،عزم لایا کرتا ہے ریمنڈ ڈٰڈٰیوس کے بعد ایک اور غدار وطن کی رہائی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
Tipu Sultan Shaheed
شیر میسور سلطان فتح علی ٹیپو شہید کو سلطان حیدر علی نے اپنی زندگی میں میر صادق جیسے غدار کی بابت بتادیا اسلام کی تاریخ میں سلطان حیدر علی جیسا دور اندیش سپہ سالار بہت کم ملتا ہے اور اگر دوسری جنگ کے دوران اُس کی طبعی موت واقع نہ ہوتی تو برصغیر کی تاریخ بدل جاتی شیر میسور سلطان فتح علی شہید نے باپ کی نصیحت ذہن نشیں کرلی مگر وہ اُس کی کوتاہیوں کی کھوج میں رہا اور بلآخر جس روز فرنگی افواج میسور میں داخل ہوئیں سلطان فتح علی نے قلعے میں لڑنے کو ترجیح دی غدارِ وطن میر صادق نے قلعے کا دروازہ کھول دیا تلوار سلطان فتح علی کے پاس پڑی تھی اور وہ اپنی سپاہ کو خطاب کر رہا تھا جب ننگ ِوطن میر صادق نے سلطان کو اطلاع دی کہ فوج تو قلعے میں داخل ہو چکی بہتر ہے کہ ہتھیار پھینک دیئے جائیں سلطان فتح علی کے منہ سے پہلی بات تو یہ نکلی کہ میرے والد مجھے کہا تھا کہ اپنی زندگی میں غدار میر صادق کا خاتمہ کر دینا مگر میں تمہارے عیب تلاش کرتا رہا یہیں سلطان ٹیپو نے یہ تاریخی فقرہ کہا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے سلطان شہید ہو گیا۔
غدارِ وطن میر صادق نے جب فرنگی سے اپنی غداری کا صلہ مانگا تو اُسے ذلت کی موت ملی نواب سراج الدولہ کے ساتھ بھی ایک غدار سپہ سالار میر جعفر نے یہی کھیل کھیلاوہ فوج کا سپہ سالار تھا اور پلاسی کے میدان میں فرنگی فوج کے ساتھ معرکہ ہوااب جس دستے کی کمان نواب سراج الدولہ کر رہے تھے وہ بے جگری سے لڑے مگر جس دستے کی کمان غدار وطن میر جعفر کر رہا تھا اُسے لڑنے سے روک دیا گیا ان دونوں غداروں نے اپنے وطن کو فرنگی فوج کو پلیٹ میں رکھ کر دیا ِْ اقبال شدت سے روئے اور شیر میسور کی قبر سے لپٹ کر روئے دہلیز پار کی تو فرمایا
جعفر از بنگال صادق از دکن ننگِ ملت ننگِ دیں ننگِ وطن
غدار کی سزا موت سے بھی زیادہ ہونا چاہیئے کیونکہ وہ اپنے وطن کی سالمیت کا سودا وطن دشمن قوتوں کے ہاتھوں کرتا ہے غدار ِ وطن شکیل آفریدی نے وطن کی ناموس کا سودا کیا اب یہ بحث پس منظر میں چلی گئی ہے کہ اسامہ بن لادن امریکیت کیلئے Most wanted personتھا بحث یہ بھی نہیں کہ وہ ایک دہشت گرد تھا بحث یہ ہے کہ ہماری نظریاتی سرحدوں پر وار کرنے کا موجب کون بنا دنیا کی کوئی بھی ڈکشنر ی اُٹھا کر دیکھ لیں غدار کیلئے معافی کا لفظ اُس میں نہیں ملتا۔
کیا ہمارے حکمران ایک بار پھر امریکی احکامات پر سر تسلیم خم کرنے والے ہیں پشاور کی ایک عدالت کا وہی کردار سامنے آیا ہے جو ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا موجب بنا غدارِ وطن شکیل آفریدی کا خاندانی پس منظر یہ ہے کہ اس کے آبائو اجداد نے غداری کے صلہ میں انگریز سے جائدادیں حاصل کیں یہ اُنہی غداروں کی اولاد ہے جنہوں نے گھوڑے بن کر انگریزوں کی بگھیاں کھینچیں اور اُن کے کتے نہلائے اور انگریزوں کی خوشنودی کیلئے اپنی عورتیں بھی پیش کیں شکیل آفریدی جیسے ننگ وطن کیلئے امریکی وکیل نے یہ لفظ کہے تھے کہ ”پاکستانی چند ٹکوں کی خاطر اپنی مائیں بیچ دیتے ہیں ”وہ امریکی وکیل شاید بھول گیا تھا کہ شکیل آفریدی جیسے ننگ ِ وطن افراد جو امریکیوں کی گود میں پلتے ہیں اُنہیں بھلا پاکستانی کا نام کیسے دیا جا سکتا ہے اور غداروں کا تعلق کسی دھرتی سے نہیں ہوتا دھرتی بھی ایسے ننگ ِ وطن کو موت کے بعد اپنی آغوش میں پناہ نہیں دیتی۔
کئی دنوں سے ضمیر پر رکھی بھاری سل چین نہیں لینے دیتی تھی نصراللہ جٹ کاشکوہ بھی تھا کہ تم نے ایک غداروطن پر قلم نہیں اُٹھایا مگر قلم بھی بڑے دنوں سے خاموش ہے بہت روانی تھی اس میں اب اس طرح لگتا ہے کہ وطن پر مسلط کرداروں کی خباثتیں اور منافقتیں لکھ لکھ کر تھک گیا ہے کیونکہ قلم تو وہی لکھتا ہے جو سچ ہے اور زباں بھی وہی بولے گی جو حقیقت ہے پھر حقیقتوں کو کون مانتا ہے سچ کی اس دور میں کون پذیرائی کرتا ہے وطن عزیز میں قدم قدم پر اآنسوئوں اور دکھوں کے نوحے ہیں۔