دوستو ! آج کل لیہ میں نعروں اور تالیوں کی بہار آئی ہو ئی جدھر دیکھیں مبارک سلامت کا شور بپا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی ، لوڈ شیڈنگ سب کچھ بھول بھال کر سبھی لیہ وال ڈھول پیٹنے اور خوشی کے شاد یانے بجانے میں مصروف ہیں۔۔کیسے ؟ وہ ایسے کہ جب سے لیہ ڈویژن بنائو کی بات چلی ہے اس موضوع پر ہو نے والے ہر ایونٹ میں ایک دو کو چھوڑ کر تقریبا سبھی مقررین کی گفتگو کی تان اس اہم بات پر ختم ہو تی ہے کہ لیہ ڈویژن بنا نا ہے تو پا لیمانی کلاس کو جگا نا ہو گا۔ ڈسٹرکٹ پریس کلب میں ہو نے والا تا سیسی اجلاس تھا یا پھر چوک اعظم پریس کلب میں ہو نے والی آ ل پا رٹیز کا نفرنس۔ سبھی مقررین پارلیمانی کلاس کو جگانے کی دہا ئی دیتے چلے نظر آ تے ہیں۔
قارئین کرام! پا رلیمانی کلاس۔۔ اگر آپ نہیں سمجھے تو میں آپ کو آ سان لفظوں میں پا رلیمانی کلاس بارے سمجھا دوں ۔ ہمارے اس سماج کی اس کلاس میں ہمارے منتخب نما ئندے شا مل ہو تے ہیں ۔ انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کی شکست و ریخت او ر اتار چڑھائو کے سبب اس رلیمانی کلاس میں چہرے تبدیل ہو تے رہتے ہیں لیکن نظام کے تسلسل کے سبب رویئے ایک جیسے رہتے ہیں مثال کے طور پر گذشتہ دور حکومت جو مسلم لیگ ن کا سہانا اور عوام دوست دور حکومت تھا لیہ نشیب کے مکینوں کو در یا ئے سندھ کے بدترین تاریخی کٹا ئو کا سا منا رہا متاثرین کٹائو چیختے رہے مگر کیا مجال پا رلیمانی کلاس کے کسی شہزادے کے کان پر جوں رینگی ہو ۔ پھر یوں ہوا کہ جب متاثرین کٹائو کی دھاڑ دھاڑ کچھ زیادہ ہو ئی تو اس وقت کے صو بائی مشیر کرائسز منیجمنٹ نے خو شخبری سنائی کہ لیہ اور کروڑ نشیب میں دریا کے مزید کٹائو سے بچنے کے لئے مٹی کا ایک حفاظتی بند تعمیر کیا جائے گا جو ستر کلو میٹر لمبا اور کروڑوں کی لا گت سے مکمل ہو گا ، حفاظتی بند کا تو پتہ نہیں کیا ہوا لیکن سنا ہے کہ کروڑ کے نشیب میں دریا کا کٹائو اب بھی جا ری ہے۔
اس بار بھی کچھ ایسا ہوا لیکن قدرے مختلف ، بیٹ گجی میں گذ شتہ کئی ہفتوں سے دریائے سندھ کی اٹھکیلیاں جاری تھیں متا ثرہ لوگ تو جہ دلاتے رہے کہ صاحبو ! دریا ئے سندھ کے کٹائو سے اہل علاقہ کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے تو جہ دیں ۔ مگر ہنوز دلی دور است کے مصداق کسی نے نقار خانے میں طو طی کی آ واز کسی نے نہیں سنی ،آ خر جب دریائے سندھ کے کٹائو متا ثرین کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور انہیں محسوس ہوا کہ اگو اب بھی صاحب اقتدارو اختیار لو گوں نے کٹائو کو روکنے کے لئے کو ئی اقدامات نہ کئے تو کمزور حفا ظتی بند ان کا تحفظ نہ کر سکے گا اور دریائے سندھ ان کا سب کچھ بہا کر لے جائے گا ۔ یہ سوچ کر نشیب کی عوام سر پیٹتے سینہ کو بی کرتے کوٹ سلطان کی سڑ کوں پر نکل آ ئی ۔ حالات کی سنگینی کا احساس تو ذمہ دار حلقوں کو پہلے سے تھا ہی لیکن وہ ایک روائتی حکمت عملی کے تحت خطرے کی آ خری حد تک کا انتظار کر رہے تھے جو نہی حالات زیادہ سنگین ہو ئے سر کاری سطح پر یہ خو شخبری سنائی گئی کہ صو با ئی سیکریٹری محکمہ کینال نے نشیب میں دریائے کٹا ئو کی سنگین صورت حال کا نوٹس لے لیا ہے پھر خبر چلی کہ نشیب کے متا ثرہ علاقہ میں ایمر جنسی نا فذ کرتے ہو ئے ہنگا می اقدا مات شروع کر دیئے گئے ہیں پھر سر کاری سطح پر میڈ یا میں یہ خوشخبری پڑھنے کو ملی کہ ٹھیکیدار نے بیٹ گجی کے مقام پر حفا ظتی بند کے کٹائو کے متاثرہ حصہ پر پتھر ڈالنے شروع کر دیئے ہیں اور پھر ہمیں تصاویر دیکھنے کو ملیں کہ مقامی منتخب نما ئندے گلوں میں ہار ڈالے کٹا ئو رو کنے کے لئے پتھر اور مٹی کے لئے22 کروڑ سے زیادہ بجٹ کے اجراء پر عوام کی پر جوش تا لیوں اور خوش کن نعروں کا جواب دے رہے ہیں ۔ صو بائی سیکریٹری کینال اور ضلعی انتظا میہ کے مہا افسران بھی اس خو شی کے مو قع پر سلفیاں بنا نے اورتصاویر بنوانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے ۔ کسی نے نہ پو چھا اور نہ بتا یا کہ یوں تو برسوں لیکن خاص طور پرپچھلے بیس پچیس دنوں سے کٹا ئو سے جو نقصان ہوا اس کا ذمہ دار کون ؟ نشیب میں ہو نے والی اس بربادی اور تبا ہی کا ذمہ دار کون ؟ اس نقصان سے بچا جا سکتا تھا اگر بر وقت اقدا مات کر لئے جاتے ، اگر بر وقت اقدامات نہیں کئے گئے تو کیوں نہیں کئے گئے ؟ لیکن اس ساری کہانی کے پس منظر میں سادہ سی حقیقت جو ہمیں سمجھ آ ئی وہ یہ ہے کہ اگر کٹائو بارے بر وقت اقدامات اٹھا ئے جا تے تو پھر ر کروڑوں رو پے کے پتھروں کا جواز محکمہ کینال کو کیسے ملتا اور ایمر جنسی کی آ ڑ میں من پسند ٹھیکیداروں کو نوازے جانے کا شیڈول کیسے مکمل ہو تا ؟ خدا کرے ہمارا یہ منفی نقطہ نظر غلط ہو ۔۔ چلیں آ گے بڑھتے ہیں۔
آج کل پا رلیمانی کلاس کے حوالے ہمیں نت نئی خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں اور ہم عوام ہیں کہ بس ادھر خوش خبری سنی نہیں اور ادھر حقیقی خوشیوں سے محروم بھو کی عوام میں مبارک ، سلامت ، نعروں اور پر جوش تا لیوں کا سیزن شروع ہوا نہیں ۔ابھی کچھ دن قبل ایم پی اے لیہ کی کی بھر پور کاوشوں سے جاری ہو نے والے لیہ ڈویژن بارے وزیر اعلی ڈائریکٹیو کی بڑی نیوز کا بڑا غلغلہ مچا ۔ سوشل میڈیا پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا تک سبھی لیہ ڈویژن بارے وزیر اعلی ڈائریکٹیو کی تان پر تا لیاں پیٹتے نظر آئے لیکن وزیراعلی سیکٹریٹ کی جانب سے جاری ہو نے والے خط منظر عام پر آنے کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ لیٹر تو جاری ہوا لیکن لیہ ڈویژن کا ڈائریکٹیو نہیں بلکہ یہ وزیر اعلی سیکٹریٹ کے ڈپٹی سیکر ٹری کی جانب سے سینئر ممبر بورڈ آف ریو نیو کو لکھا جانے والا ایک لیٹر ہے جس میں وزیر اعلی نے ایم پی اے کی طرف سے لیہ ڈویژن بنا ئے کی ریکیو سٹ پر سینئر ممبر بورڈ آف ریو ینو سے رپورٹ طلب کی ہے ۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ بڑی سیکٹریٹ سے روزانہ ہزاروں نہیں تو کم از کم سینکڑوں ایسے لیٹر روز جاری ہو تے ہیں ۔ بہر حال ہم نے تو جی بھرکے تا لیاں پیٹیں اور پر جوش نعرے لگا ہی لئے۔
آج کل ایک بڑی خبر نے ہماری ساری میڈیا کمیو نٹی کو یر غمال بنا یا ہوا اور وہ ہے ہمارے چوک اعظم کے سینئر صحافی کے بیٹے کی میرٹ پر محکمہ ہیلتھ میں ڈیلی ویجز پر تقرری کا ۔ نعمان اصغر کو ملازمت کیا ملی آ ئے روز احسان ، مروت کی نت نئی کہا نیاں سننے اور پڑھنے کو مل رہی ہیں ۔ لگتا ہے کہ کپتان کی حکو مت میں لیہ کو ملنے والی ڈیلی ویجز کی بنیاد پر یہ آخری ملازمت تھی جو میرٹ پر آ نے کے با وجود سپوت چوک اعظم رند ھاوا صاحب کی بے پناہ محبتوں اور عنا ئتوں کے سبب ملی ۔۔ اور اسی لئے لیہ کے عوام اور ضلع بھر کے صحافی تنظیمیں اور افراد خصو صا تا لیاں پیٹ پیٹ کر ابھی تھکے نہیں۔
لیں ایک اور خوشخبری ۔۔۔ تھا جس کا انتظار وہ شا ہکار آ گیا ۔ اور وہ ہے ایم ایم روڈ کو دورویہ ون وے بنا نے کے دیرینہ مطا لبے کی تکمیل و تعبیر کا ۔۔یہ نوید روئوف کلاسرہ نے سنائی اور انہیں وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدار نے سنائی ۔ وزیر اعلی پنجاب نے کلاسرہ صاحب سے مٹھائی کھانے کا تقاضہ کرتے ہو ئے انہیں بتا یا کہ انہوں نے ایم ایم روڈ کو ون وے کارپٹ روڈ بنا نے کی منظوری دے دی ہے ۔ ا ب یہ منظوری کس مرحلہ میں ہے اس کی تو خبر نہیں ۔۔ لیکن کلاسرہ صاحب نے بزدار صاحب کو مٹھائی کھلائی یا نہیں فتح پور کے عرفان اعوان ،چوک اعظم کے عمر شا کر اور کوثر شاہ اپنے دوستوں کو مٹھائی کھلاتے ضرور نظر آ رہے ہیں ۔ کہ ایم ایم ون وے روڈ ان کا یہ ایک دیرینہ خواب ہے جس کی تعبیر کے لئے ان دوستوں نے بہت طویل اور کٹھن جدو جہد کی ہے۔۔