اسلام آباد (جیوڈیسک) وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ میں پاناما پیپرز کے حوالے سے سپریم کورٹ میں کارروائی کے آغاز کا کھلے دل سے خیر مقدم کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پاناما رپورٹس کے آغاز سے ہی اور اپوزیشن کے کسی بھی مطالبے سے پہلے میں نے سپریم کورٹ کے معزز ریٹائرڈ جج صاحبان پر مشتمل کمیشن کا اعلان اسی جذبے کے ساتھ کیا تھا کہ شفاف تحقیق کے ذریعے اصل حقائق قوم کے سامنے آجائیں ۔ اس کے جواب میں واحد مطالبہ یہ سامنے آیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں حاضر سروس جج صاحبان پر مشتمل کمیشن بنایا جائے ۔ میں نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر یہ مطالبہ بھی تسلیم کر لیا ۔ تاہم اس کے ساتھ ہی ٹی او آرز کا تنازعہ شروع کر کے سپریم کورٹ کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔
سپریم کورٹ کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کی روشنی میں حکومت نے متفقہ ٹی او آرز کی تیاری کے لئے ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کر دی ۔ کمیٹی کے ارکان کی تعداد کا تعین کرتے ہوئے پارلیمان میں حکومت کی واضح عددی برتری کے باوجود اپوزیشن کو برابر نمائندگی دی گئی لیکن ہماری ان تمام تر کوششوں کے باوجود اتفاق رائے نہ ہو سکا ۔ اسی دوران حکومت نے سپریم کورٹ کے خط کی روشنی میں 1956 کے کورٹ آف انکوائری ایکٹ کو تبدیل کرنے اور کمیشن کو مزید موثر اور طاقتور بنانے کے لئے ایک بل پارلیمنٹ میں پیش کر دیا لیکن مسلسل منفی رویہ جاری رکھتے ہوئے مسلمہ آئینی اور قانونی تقاضوں کے برعکس ایک متوازی بل پیش کر دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس موضوع پر دو بار قوم سے خطاب کرنے کے علاوہ میں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں بھی اپنا تفصیلی موقف پیش کیا لیکن دوسری جانب سے حکومت کی نیک نیتی پر مبنی تمام کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہوئے اس کی شفاف اور بے لاگ تحقیقات کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں ڈالی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ پانامہ پیپرز کا معاملہ اب الیکشن کمیشن، لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے سامنے لایا جا چکا ہے میں آئین کی پاسداری، قانون کی حکمرانی اور مکمل شفافیت پر کامل یقین رکھتا ہوں۔ عوام کی عدالت تو پے در پے فیصلے صادر کر رہی ہے بہتر ہوگا کہ عدالت کے فیصلے کا انتظار بھی کر لیا جائے۔