تحریر: محمد صدیق پرہار وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے اپنے خطاب میں پانامہ لیکس میں بیٹوں کے نام آنے پر تحقیقات کیلئے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں اعلیٰ عدالتی کمیشن بنانے کااعلان کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا خاندان حکومت میں ہویا حکومت سے باہر ،قومی امانت میں کبھی رتی بھر خیانت نہیں کی۔ہمیں کئی سال تک بے مقصداحتساب کے پل سے گزاراگیا۔ الزامات کی تازہ لہر کے مقاصد خوب سمجھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں حقائق عوام کے سامنے آجائیں ۔نوازشریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن کرنے والے کبھی اپنی دولت اوراثاثے اپنے نام نہیں رکھتے ،ہم نے وہ قرض بھی چکائے جو واجب نہ تھے۔ جسے اعتراض ہو وہ کمیشن سے رجوع کرے۔ وفاقی وزارت قانون نے پانامہ لیکس تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کیلئے سفارشات وزیراعظم کو بھیجیں۔ حکومت نے سابق چیف جسٹس ناصر لملک اورجسٹس تصدق جیلانی سے رابطہ کیا۔ سفارشات میں کہا گیا کہ تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ کی منظوری چیف جسٹس سپریم کورٹ دیں گے۔ تحقیقات کیلئے مدت کاتعین کمیشن کا سربراہ خودکرے گا۔ سفارشات میں کہا گیا تحقیقات صرف شریف خاندان تک محدود نہیں ہوں گی بلکہ تمام دو سو پچاس افراد سے انکوائری کی جائے گی۔
عمران خان نے کہا کہ ریٹائرڈ جج کی سربراہی میںکمیشن قبول نہیں پانامہ لیکس کامعاملہ دبنے نہیںدیں گے۔قوم کودھوکہ نہیںد یاجاسکتا۔ نوازشریف کو اب سچ بولناہوگا۔وفاقی وزیرپانی وبجلی عابد شیر علی نے کہا کہ عمران سمیت جسے شوق پانامہ لیکس سے متعلق ثبوت جوڈیشل کمیشن میں پیش کرے۔ایک قومی اخبار کے فورم میںکہاگیا کہ جوڈیشل کمیشن مسئلے کاحل نہیں جے آئی ٹی بنائی جائے۔مولانافضل الرحمن نے کاکہناتھا کہ جذباتی ہونے ضرورت نہیں پانامہ لیکس کا معاملہ کمیشن پر چھوڑ دیا جائے۔ لیکس کو اہمیت نہیں دیتے ۔ایسی چیزیں آتی رہتی ہیں بیرون ملک جمع مال واپس لاکر قرضے اتارے جائیں۔قاری حنیف جالندھری نے کہا کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنایاجائے۔پنجاب اسمبلی میں پانامہ لیکس کی مذمت کی گئی۔ صوبائی اسمبلی میں ایک قرارداد منظورکی گئی جس میںکہاگیا کہ جوڈیشل کمیشن کااعلان احسن فیصلہ ہے ۔جبکہ اپوزیشن نے واک آئوٹ کیا۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں پانامہ لیکس پرگرماگرم بحث ہوئی۔ اپوزیشن نے حکومتی کمیشن مستردکردیا۔اپوزیشن لیڈرخورشیدشاہ نے کہا کہوزیراعظم کوخطاب کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
بین الاقوامی فرم سے تحقیقات کرائی جائے۔عمران خان کاکہناتھا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں خودمختار کمیشن نہ بناتورائیونڈ کارخ کریں گے ،انہوںنے کہا کہ عدالتی کمیشن مجھ سے تحقیقات کا آغاز کرے۔خواجہ آصف نے کہا کہ کمیشن تسلیم نہ کرنے والے معاملہ سپریم کورٹ لے جائیں۔سراج الحق نے کہا کہ شفاف تحقیقات کیلئے وزارت عظمیٰ چھوڑ دیں۔ ان کاکہناتھا کہ چیف جسٹس کی نگرانی میں کمیشن بنایاجائے۔تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات نعیم الحق نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف نے بااعتماداور متفقہ طورپرقائم کے گئے عدالتی کمیشن کے ذریعے ہی وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں پانامہ لیکس کے انکشافات کی تحقیقات قبول کرنے کااعلان کیا ہے۔وزیراعظم کی جانب سے انتہائی مبہم اندازمیں کمیشن کی تشکیل کسی صورت قبول نہیں۔ عمران خان نے پھرکہا کہ شفاف تحقیقات نہ ہوئی تورائیونڈ میں دھرنادیں گے۔انہوں نے نوازشریف کو مخاطب کرکے کہا کہ آف شور کمپنیوں میں واقعی آپ کے نام کچھ نہیں کرپشن کاپیسہ انسان اپنے نام نہیں رکھتا۔٩ اپریل کے ایک قومی اخبارکی رپورٹ ہے کہ پانامہ لیکس کے ایشو پرمعاملات کی چھان بین کیلئے حکومت کی طرف سے تاحال جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نہیں کی جاسکی۔
Lahore High Court
ذرائع نے بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے جن ریٹائرڈ جج کے ناموں پر غور کیا گیا ان میں جسٹس(ر) تصدق حسین جیلانی ، جسٹس (ر) ناصر الملک اور جسٹس (ر) سائرعلی شامل ہیں۔ مانیٹرنگ ڈیسک کی رپورٹ کیمطابق جسٹس (ر)سائرعلی نے بھی کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرلی ۔پانامہ لیکس معاملہ پرریٹائرڈ ججوںکی طرف سے تحقیقات سے انکار کے بعد حکومت مخمصے کا شکار ہوگئی۔ حاضر سروس ججوں کے آپشن پر غور شروع کردیا۔ایک اعلیٰ قانونی شخصیت کے مطابق انتخابی دھاندلی کی انکوائری کیلئے اس وقت کے چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن پرمنفی تنقید کے بعد اب سابق ججزمیڈیاٹرائل اورحکومت مخالف سیاستدانوں کی تنقید سے بچناچاہتے ہیں۔ وزارت قانون کاکہناتھا کہ پانامہ لیکس کامعاملہ لاہورہائی کورٹ میں آچکا ہے عدالتی فیصلے تک جوڈیشل کمیشن کاقیام موخرکردیاجائے۔ذرائع کہتے ہیں کہ حکومت اعلیٰ سطحی انکوائری کمیشن تشکیل دے کرکسی دوسرے تحقیقاتی ادارے کوبھی یہ معاملہ سونپ سکتی ہے۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات شریف خاندان سے شروع کی جائے ۔حکومتی ارکان نے منفی مہم پر افسوس کا اظہار کیا۔
جہانگیر خان ترین نے کہا کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے اگر ایسا کمیشن بنایا گیا جس پر اپوزیشن متفق نہ ہوئی توپھراس کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا الیکشن کمیشن میں آج بھی عمران خان پرچندے میںخوردبرد کاکیس چل رہا ہے مگروہاں کیوںپیش نہیں ہورہے۔وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارنے کہا کہ اپوزیشن کے طوفان بدتمیزی پردوسابق چیف جسٹسزنے معذرت کرلی ہے۔عمران خان کی مرضی کے ایف آئی اے افسرسے تحقیقات کیلئے تیارہیں۔عمران خان نے کہا کہ شعیب سڈل کی سربراہی میں کمیشن بنایاجائے۔ پیپلزپارٹی نے کہا ہمیںمنظورنہیں۔قوم سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کاکہناتھاکہ چیف جسٹس کی سربراہی میںکمیشن بنایاجائے،وزیراعظم استعفیٰ دیں اب پیچھے نہیں ہٹوںگا۔نوازشریف نے پانامہ لیکس پرقوم سے حقائق چھپائے حکومت میں رہنے کااخلاقی جواز نہیں بچا۔جمشید دستی نے مطالبہ کیا کہ چیف جسٹس پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے لارجربنچ تشکیل دیں۔ میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے خورشیدشاہ نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف پانامہ لیکس کے معاملہ پرچیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیں جو بغیر کسی سیاسی اثرور سوخ کے تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کرے۔
میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے اعتزازاحسن نے کہا کہ پانامہ لیکس کاعدالتوں سے احتساب کرایا تو معاملہ متنازع ہوجائے گا۔پیپرز سے متعلق تحقیقات حاضریاریٹائرڈ ججوں سے نہیں بین الاقوامی فرم سے فرانزک آڈٹ کرایا جائے ۔سندھ میں میئر، ڈپٹی میئر کے انتخاب کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے کہا کہ کیایہ عدلیہ کاذمہ ہے کہ کمیشن بنائیں۔ ہم سے کہتے ہیں پانامہ معاملہ پر سوموٹولیں یا سپریم کورٹ کمشن کیوں نہیں بناتی ۔یہ بتائیں تفتیش کی ذمہ دارایگز یکٹو ہوتی ہے یاعدلیہ؟ ہماری خوداری اوردائرہ کارہے۔عدالت کے پاس اوربھی بہت ست کام ہیں۔ تفتیش کیلئے حکومت کے اپنے ادارے ہیں۔کسی ادارے کاقصورنہیں ،پوراسسٹم ہی ذمہ دارہے۔کیاہر معاملے پر کمیشن بنانا عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ چوہدری نثارنے کہا کہ پانامالیکس کی تحقیقات سے کچھ ججز نے معذرت کرلی ہے اورکچھ نے وقت مانگ لیا ہے۔ان کاکہناتھا کہ سپریم کورٹ کاہرجج قابل احترام ہے۔اس وقت ججزکمیشن میں آنے سے کترارہے ہیں۔
Ch Nisar
مزید ججوں سے بھی رابطہ ہے لیکن ان کے نام نہیں لوں گا۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثارنے کہا کہ کیا سارے قوانین وزیراعظم نوازشریف اوران کے خاندان پرلاگوہوتے ہیں؟بیرون ملک کاروبار کرنا ناجائزہے توہررکن قومی اسمبلی کیلئے ناجائزہوناچاہیے۔عمران خان کے دائیں بائیں کھڑے افراد بھی پانامہ لیکس میں شامل ہیں۔انہوںنے کہا کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے تضادہماری طرف سے نہیں اپوزیشن کی جانب سے آرہے ہیں۔ عمران خان اوراپوزیشن فیصلہ کرلے کہ تحقیقات کس سے کرانی ہیں۔انویسٹی گیشن ہوگی تومعاملہ اآگے بڑھے گا۔حکومت ہرچیزکوسامنے لاناچاہتی ہے تاکہ معاملات اپنے منطقی انجام تک پہنچیں۔پیپلزپارٹی کی کورکمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ الزامات ثابت ہونے تک وزیراعظم سے استعفیٰ مانگیں گے نہ رائیونڈ دھرنامیں شریک ہوں گے۔اسحاق ڈارکی زیرصدارت مسلم لیگ ن کے اجلاس میں چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کامطالبہ مسترد اور سازشوں کا مقابلہ ڈٹ کرکرنے کافیصلہ کیاگیا۔وزیرخزانہ نے وزیراعظم کی ہدایات پہنچاتے ہوئے کہا کہ سازشوں کواہمیت نہ دی جائے۔اوراس پروقت ضائع کرنے کی ببجائے پوری توجہ ملکی ترقی کے منصوبوںکومکمل کرنے پردی جائے۔قمرزمان کائرہ نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی تحقیقات کرے۔
مشاہداللہ کہتے ہیں تجویز پر غور کرنا چاہیے۔ میاں عتیق کاکہنا ہے الیکشن کمیشن تحقیقات کرے۔اٹارنی جنرل پاکستان اشتراوصاف علی نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس کے حوالے سے انکوائری کمیشن کے خدوخال تیار کرلیے گئے ہیں۔انکوائری کمیشن تین رکنی ہوگا۔جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہوں گے۔جبکہ دیگرارکان میں فرانزک اکائونٹ کے ماہرین اور ٹیکنوکریٹس شامل ہوں گے۔انہوں نے کہا انکوائری کمیشن کے سربراہ سابق جج کاتعلق سندھ یاکے پی کے سے ہوسکتا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ انکوائری کمیشن کے قیام کیلئے حکومت کاجسٹس ریٹائرڈ شاکراللہ جان سے بھی رابطہ ہواہے۔جن کا تعلق کے پی کے سے ہے۔جبکہ سندھ سے تعلق رکھنے والے جسٹس ریٹائرڈ سرمدجلا ل عثمانی بھی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں۔پانامہ لیکس کے معاملہ پرحکومت اوراپوزیشن دونوں نے سپریم کورٹ بارسے مددمانگ لی ہے۔ رجسٹرارسپریم کورٹ ارباب عارف نے کہا کہ پانامالیکس کی تحقیقات کیلئے ججزدینے سے انکار نہیں کیا۔ خورشید شاہ کاکہناتھا کہ جسٹس سرمدعثمانی قبول نہیں رضاربانی کی سربراہی میں پارلیمانی کمیشن بنایا جائے۔
پارلیمانی کمیشن میں حکومت اوراپوزیشن کے برابرارکان شامل کیے جائیں رضاربانی کوتمام اختیارات اورٹیکنیکل افرادکی خدمات بھی دی جائیں ۔وزیرخزانہ اسحاق ڈارکی زیرصدارت قانونی امور کی جائزہ کمیٹی کے اجلاس میں پانامہ لیکس پرانکوائری کمیشن کے ضابطہ کارکوحتمی شکل دے دی گئی۔اورکمیشن میں شمولیت کیلئے ماہرین کے ناموں کو بھی شارٹ لسٹ کر لیا گیا۔ سپریم کورٹ بارنے تحریک انصاف کاساتھ دینے سے انکارکردیا۔عبدالرحمن ملک نے انٹرپول کے سیکرٹری کوخط لکھا ہے کہ پانامہ لیکس معاملے کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی جائے۔رضاربانی نے مجوزہ پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹ کا کسٹوڈین ہوں کمیٹی کی سربراہی میرے لیے مناسب نہیں تحقیقات کیلئے وائٹ کالرکرائم میںمہارت بھی نہیں۔پانامہ لیکس انکوائری کمیشن کے قیام کیلئے مسلم لیگ ن جسٹس ةر)سرمد جلال عثمانی کے نام پرمتفق ہوگئی پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف کوتحفظات ہپیں۔حکومت نے پانامہ لیکس کے حوالے سے مجوزہ انکوائری کمیشن کااختیارپاکستان میں سیاستدانوںکی بے نامی جائیدادوں اورسیاسی جماعتوںکوبیرونی ممالک سے ملنے والی امدادکی تحقیقات تک وسیع کرنے کی تجویزپرغورشروع کردیا ہے۔
Imran Khan
اٹارنی جنرل کہتے ہیں معاملہ صرف وزیراعظم کے بچوں کا نہیں جن سیاستدانوں پر الزامات لگتے ہیں ان سب کواپنی پوزیشن کلیئر کرنے کاموقع ملناچاہیے۔عمران خان کہتے ہیں پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے قائم کیاجانے والاکمیشن قبول نہیں۔ وزیراعظم ہائوس میں اجلاس میں پانامہ لیکس کمیشن کیلئے پارلیمانی قائدین کواعتمادمیں لینے کافیصلہ کیاگیا مشاورت کے بعد حتمی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ خورشید شاہ کو سرمد جلال عثمانی کی سربراہی میں انکوائری کمیشن قبول نہیں۔آرمی چیف کہتے ہیںکہ ہرسطح پراحتساب لازمی ہے۔
سیاستدانوں کے رویے اورآپس کے عدم اتفاق کی وجہ سے پانامہ لیکس کی تحقیقات سے زیادہ تحقیقاتی کمیشن کاقیام مسئلہ بن گیا ہے۔جس کابھی نام سامنے آتا ہے اس پریاتواپوزیشن کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کسی کواعتراض ہوتا ہے۔یاوہ خودانکارکردیتا ہے۔اپوزیشن کی ایک پارٹی دوسری پارٹی کے دیے گئے نام سے بھی متفق نظرنہیں آتی۔حاضرسروس چیف جسٹس کی سربراہی میں اتفاق دکھائی دیتا ہے انہوںنے ریمارکس دیے ہیں کہ کیاہرمعاملہ کی تحقیقات کرناعدلیہ کاکام ہے۔ حکومت کے اپنے بھی تحقیقاتی ادارے ہیں۔اب ان حالات میں تحقیقات کیسے ہوں گی جب سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے بھی نہیں پایاجاتا۔اب اس معاملہ میں حکومت غیر سنجیدہ ہے یااپوزیشن اس کافیصلہ قارئین خود کریں۔ سب تحقیقات بھی چاہتے ہیں اوراپنی اپنی ساکھ بچانابھی چاہتے ہیں۔ کیونکہ تحقیقات میں جس کے خلاف بھی رپورٹ آئی اس کاسیاسی امیج بری طرح خراب ہوجائے گا۔جہاں تک ہوسکے یہ معاملہ جلد سے جلد اختتام تک پہنچایا جائے تاکہ عوام کوحقائق سے جلدآگاہی حاصل ہو۔اس کیلئے حکومت اورسیاسی جماعتوںکامتفق ہوناضروری ہے۔یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں بھی لایا جاسکتا ہے۔ اوریہاں یہ معاملہ حل بھی ہوسکتا ہے۔