تحریر: نادیہ خان بلوچ ایک سال قبل ایک جرمن اخبار سے ایک نامعلوم شخص نے رابطہ کیا اور اسے “موزیک فونیسکا” نامی مشہور لا فرم کے انتہائی کلاسفائڈ ڈاکومنٹس دینے کی پیشکش کی جس پہ جرمن اخبار نے اس پر یقین کرنے کی بجائییہ تمام ڈاکومنٹس “انٹر نیشنل کنسوریشم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس کے حوالے کردیے اور پوری دنیا کے 80 صحافتی تنظیموں کے 107 نمائندگان نے پورا ایک سال ان ڈاکومنٹس پر ریسرچ کی اور بالآخر پتہ چلا ہی لیا کہ وہ تمام ڈاکومنٹس بالکل اوریجنل اور درست تھے. اس کے بعد جرمن اخبار نے اس تمام ڈیٹا کی سمری رپورٹ جاری کر دی اور اسے پانامہ پیپرز لیکس کا نام دیا گیا۔
وکی لیکس کے بعد پانامہ لیک نے بھی پوری دنیا میں ہلچل مچا دی. اور یہ آج تک ہونے والی تمام لیکس میں سے سب سے بڑی لیک ہے. اس کے منظر عام آنے کے بعد کئی مشہور شخصیات سمیت 12 ملک کے سابقہ اور موجودہ سربراہان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے مانو انہیں تو یقین نہ ہوا کہ یہ کیسے ہوگیا. جو دولت کالا پیسہ انہوں نے منی لانڈرنگ کرکے سب سے چھپا کر ٹیکسز سے بچا کے بیرون ملک بھیجا،آف شور کمپنیاںبنائیں کیسے کوئی پانامہ لیک جسے کچھ معزز پاجامہ لیک بھی کہہ رہے ہیں بھانڈا پھوڑ سکتی ہے؟ ان صاحب دولت نیشنل لیڈرز میں آئس لینڈ،عراق،روس،یوکرائن،مصر کے ساتھ ساتھ پاکستان کا نام بھی شامل ہے۔
Panama Papers Leaks & Pakistan
پانامہ لیک میں واضح طورپر بتایا گیا ہے برطانیہ،سوئزر لینڈ اور ایسے کئی ممالک میں شریف خاندان بشمول نواز شریف،مریم نواز،حسین نواز،حسن نواز کے بیرون ملک اثاثے موجود ہیں. یاد رہے شریف خاندان وہ خاندان ہے کہ جسے اثاثے ظاہر کرنے کا کہا گیا تو انہوں نے ہمیشہ یہی کہا ہمارا جو کچھ ہے عوام کے سامنے ہے. انہوں نے کبھی بھی بیرون ملک کے اثاثے ڈکلئیر نہیں کیے. شریف خاندان کے ساتھ پاکستان کی 250 شخصیات کا نام پانامہ لیک میں آیا ہے. جن میں مرحوم بینظیر کا نام بھی شامل ہے. آج بھی انکے نام پر عوامی پیسے سے بنائی گئی آف شور کمپنیاں قائم ہیں. اس لیک نے تو پوری دنیا میں طوفان برپا کردیا. آئس لینڈ کے صدر نے استعفی دے دیا. برطانیہ کے ڈیوڈ کیمرون نے بھی اعتراف کرلیا کہ انکی بھی غیر قانونی جائداد ہے. چین اور روس نے تو اسے ماننے سے بھی انکار کردیا۔
جبکہ پاکستان میں پانامہ لیک کو مخالفین کی سازش قرار دیا گیا.جیسے یہ سب مخالفین نے ملکر کیا ہو. اس لیک کے بعد پاکستان کی سیاست ایک نئے ڈگر پہ آگئی. ایک بار پھر تمام اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے پر لعن طعن میں مصروف ہوگئیں. اور ادھر نواز شریف نے اپنے آپ کو احتساب سے بچانے کیلئے اثر و رسوخ استعمال کرکے پاکستانی میڈیا میں اپنا نام کہیں گل کردیا.حسین نواز نے یہ کہہ کر خود کو بچانے کی کوشش کی کہ وہ تو 1992ئ سے ملک میں نہیں ہیں. ان پر کوئی ٹیکس کا قانون لاگو نہیں ہوتا. انکی یہ دولت قانونی ہے. اور وہ اس کیلئے کسی کو جواب دہ نہیں. یعنی کہ ایک تو چوری اور اوپر سے سینہ زوری. واااہ بھائی آپ کے کیا کہنے.عوام کا خون پی کر جائداد بنائی اور اب عوام سوال ہی نہ کرے. اس رد عمل کے بعد کچھ لوگوں میں شدید غم و غصہ دکھائی دیا۔
عوام اس تمام جائداد کی تفصیلات جاننا چاہتی تھی اور تمام اپوزیشن جماعتوں کا بھی دباؤ بڑھتا جارہا تھا تو مجبور نواز شریف صاحب نے اسکی تحقیقات کیلئے جوڈیشنل کمیشن بنانے کا اعلان کردیا. مگر آج 5 دن بعد بھی اس کیلئے ارکان کا فیصلہ نہ ہوسکا. کوئی کہتا ہے اس کیلئے سپریم کورٹ کے ریٹائر ججز کو تقرر کیا جائے تو کوئی کہتا ہے ایسا نہیں ہونے دیں گے. وزیر اعظم صاحب مستعفی ہوں.یہ سب ماحول ایک بار پھر 2014 کا سیاسی منظر پیش کررہا ہے. عمران خان صاحب نے تو دھرنہ دینے کیطرف بھی اشارہ کردیا. اب اگر دھرنہ ہو بھی جائے. جوڈیشنل کمیشن بھی بن جائے تحقیقات بھی ہو جائیں اس سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا؟ عوام کا تو ویسے بھی خون پیا جارہا ہے. 1990 کی دہائی میں جب بینظیر صاحبہ پر سرے محل خریدنے کا الزام تھا تو انہوں نے ہمیشہ اس بات کو جھٹلایا مگر انکی وفات کے بعد زرداری صاحب نے اس بات کو تسلیم کرلیا.انکے تسلیم کرنے سے عوام کو کیا فائدہ ہوا؟ اب اگر نواز شریف بھی تسلیم کرلیں تو تب بھی کچھ نہیں ہوسکتا.
Tax
بس ان اپوزیشن جماعتوں کی “تو تو میں میں” اور زیادہ بڑھ جانی ہے. عوام کا کچھ بھلا نہیں ہونا. عوام سڑک پر بھیک مانگنے والے اس بھکاری کی طرح ہوچکی ہے جو سارا دن سڑکوں پر بھیک مانگے شام کو جب گھر واپس جانے لگے تو اسکا سرغنہ اس سے تمام پیسے لیکر اسکے ہاتھوں میں خود چند سکے تھما دے کہ لو بھائی یہ تمہارا حصہ. باقی ہمارا. بالکل اسی طرح عوام کے پیسے پہ ٹیکس لگا لگا کے عوام کا حال فقیر سے بھی بدتر کیا جارہا ہے. اور پھر بھی عوام ان پہ انحصار کرنے پر مجبور ہے. اس میں سارا قصور خود عوام کا ہی ہے. عوام خود انکے ہاتھوں سے بیوقوف بنتی ہے ووٹ دے کر انکو لاتی ہے. اور پھر یہی حکمران انکو صلہ دیتے ہیں۔
آج ہر پاکستانی پر لاکھوں کا قرضہ ہے. ملک سود میں ڈوبا ہوا ہے. سرکاری اداروں کو فروخت کیا جارہا ہے. کوئی ناگہانی آفت آجائے تو غیروں سے قرضہ مانگا جاتا ہے. انکے آگے ہاتھ پھلائے جاتے ہیں. سر چھپانے کیلئے چھت بھی خوش قسمت لوگوں کو میسر ہے. ملک آج افلاس کا شکار ہے. فاروق اعظم رضہ کے دور میں آپکو اپنے اثاثے چھپانا تو دور کھانا چھپانا تک بھی نہیں پسند تھا. عوام جیسا کھانا کھاتے مگر ایک ہمارے حکمران ہیں خدا بنے بیٹھے ہیں. واقعی جب قوموں پر عذاب بھیجنا ہو تو خدا ایسے ہی حکمران سونپتا ہے. حیرت ہے تیسری بار نواز شریف صاحب وزیر اعظم بنے ہیں پھر بھی کہتے ہیں اگر یہ جمہوریت ہے تو بادشاہت کسے کہتے ہیں پھر؟۔