تحریر: مہر بشارت صدیقی پانامہ لیکس کا ہر طرف شور مچا ہے۔بھارتی جاسوس کلبھوشن گرفتار ہوا ۔ایک ہفتے بعد پانامہ کا شور مچ گیا۔کلبھوشن کی کیا خبر ہے؟سب دبا دیا گیا۔میڈیا پر ،ہر کہیں پانامہ کا ذکر ہو رہا ہے ۔پانامہ کی تحقیقات کے لئے وزیراعظم نے کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔حکومت کی جانب سے ٹی او آرز تیار کی گئیں۔اپوزیشن جماعتوں نے حکومتی ٹی او آرز کو مسترد کیا ۔پھر اپوزیشن جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور ٹی اور آرز تیار کیں جنہیں حکومت نے مسترد کر دیا ۔وفاقی وزراء نے اپوزیشن کی طرف سے بھجوائے گئے ٹی او آرز کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حزب اختلاف پانامہ لیکس کی انکوائری کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے اور جو ضابطہ کار بنایا گیا ہے اس میں صرف وزیراعظم اور ان کے خاندان کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا کہ پانامہ لیکس کا مسئلہ میڈیا ٹرائل یا جلسوں سے حل نہیں ہو گا پانامہ لیکس پر انکوائری میں تاخیر اپوزیشن کی وجہ سے ہو رہی ہے اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر اتفاق رائے سے ٹی او آر پر بات کیلئے تیار ہیں حکومت کلیئر تھی کہ اتفاق رائے سے ہی پانامہ لیکس معاملہ حل ہو گا شریف فیملی نے مے فیئر فلیٹس کا معاملہ چھپایا نہیں اپوزیشن ہی مطالبات تبدیل کرتی رہی۔
وزیراعظم نے شروع میں ہی تحقیقاتی کمشن بنانے کا اعلان کر دیا تھا مگر اپوزیشن نے پہلے کہا کہ ایف آئی اے سے تحقیقات کروائیں ہم رضا مند ہوگئے۔ پھر انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹری کمیٹی بنائیں ہم اس پر بھی متفق ہوگئے۔ پھر انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سپریم کورٹ کو خط لکھیں اور ہم نے وہ بھی لکھ دیا تو اس معاملے میں اپوزیشن کی وجہ سے دیر ہورہی ہے ہماری طرف سے نہیں۔ وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ٹی او آر سے ”برڈن آف پروف” کی شق نہیں ہٹائیں گے احتساب صرف وزیراعظم سے شروع نہیں ہو گا۔ اپوزیشن کے ٹی او آر نہیں چارج شیٹ ہے۔ اپوزیشن عدالت کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتی۔ پانامہ لیکس کا معاملہ عدالتی کمشن پر چھوڑ دیں۔ اپوزیشن کے ٹی او آرز سپریم کورٹ بھی قبول نہیں کرے گی۔ بیرونی جانبداروں کا کمشن سوال کرے گا تو جواب دے دیں گے۔ اگر وزیراعظم پر الزام ثابت ہو جائے تو وہ ڈی سیٹ ہو جائیں گے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمشن کے اپوزیشن کے تجویز کردہ ٹی او آر مسترد کر دئیے۔ اپوزیشن کے ٹی او آر کرپشن کے خلاف نہیں ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے ان پارٹیوں کو کرپشن پر کوئی تشویش نہیں۔ ٹی او آر سے محض سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ قائد حزبِ اختلاف قابل احترام ہیں مگر اْن کا بیان حقائق کے منافی ہے، اپوزیشن کے ٹی او آر کا واحد ہدف وزیر اعظم اور اْن کا خاندان ہے، پانامہ پیپرز کے پیچھے سرپرست خطے میں ہونیوالی نئی صف بندیوں کو تباہ کرنے کیلئے یہاں عدم استحکام چاہتے ہیں، اپوزیشن تنقید کرے یا تجاویز دے مگر فیصلے صادر نہ کرے۔
Nawaz Sharif
نواز شریف اپنے خاندان کو عدلیہ کے سامنے احتساب کیلئے پیش کرنے والے پہلے پاکستانی حکمران ہیں۔ کاش پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی یا ایم کیو ایم نے کبھی ایسی ایک مثال ہی قائم کی ہوتی۔ جانبدارانہ اور منتقمانہ اپوزیشن تجاویز کے باوجود بات چیت کرکے راستہ نکالنے کی کوشش کرے گی۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا اپوزیشن عدالتی کمشن کے ”ٹی او آرز” پر حکومت سے بات چیت کرنے کے لئے تیار ہے، ہمیں حکومت بتائے کہ اپوزیشن کے کون سے ٹی او آر قابل عمل نہیں، اگر ہمیں حکومت ٹی او آر پر قائل کر لے تو اپوزیشن ان پر نظرثانی کر لے گی اور تبدیل کرے گی۔ ٹی او آر بنا کر وزیراعظم نواز شریف کو ہدف نہیں بنایا، انہوں نے پامہ لیکس پر 2 بار قوم سے خطاب کرکے خود آ بیل مجھے مار والا کام کیا، پانامہ لیکس کے معاملہ پر اپوزیشن نے وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ نہ کرکے پیغام دیا ہے کہ اپوزیشن لڑائی کے موڈ میں نہیں حکومت اپوزیشن سے پانامہ لیکس معاملہ کی تحقیقات کے لئے کمشن کے ٹی او آر پر مذاکرات کرے، اپوزیشن نے متفقہ طور پر ٹی او آر بنائے ہیں جن کے حوالے سے حکومت کو باضابطہ طور پر خط کے ذریعے آگاہ کر دیا ہے، ملک میں جن لوگوں نے قرضے لے کر معاف کرائے انہیں بھی کٹہرے میں آنا پڑے گا۔
مجھے جب ٹی او آر ملے تو میں نے فیصلہ کیا کہ انہیں باقاعدہ طور پر حکومت کو بھجوائوں تاکہ بعد میںحکومت یہ نہ کہے کہ ہمیں اپوزیشن کے ٹی او آرکا علم نہیں تھا۔ میں نے حکومت کو لکھا ہے کہ ہم نے مل کر ٹی او آر بنائے ہیں اگر حکومت دیکھے تو یہ مناسب ٹی او آر ہیں حکومت ایک بھی پیرا بتادے جو ناقابل عمل ہو، ہم نے پانامہ لیکس میں ہونے والے انکشافات کو پیش نظر رکھا ہے توقع ہے کہ حکومت ٹی او آر پر پوری توجہ دے گی یہ حکومت اور نظام کے لیے بہتر ہے اپوزیشن مناسب طریقہ کے تحت چل رہی ہے اور مناسب طریقہ سے ٹی او آر حکومت تک پہنچا رہی ہے اس پر مذاکرات کئے جائیں وزیراعظم کو بھی موقع فراہم کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں آکر تفصیل بیان کریں۔جن لوگوں نے کرپشن کی ہے آف شور کمپنیاں بنائی ہیں ٹیکس بچائے ہیں ان کو بھی کٹہرے میں آنا پڑے گا وزیر اعظم کے اہلخانہ کے ساتھ 200اور افراد کی بھی لسٹ ہے وزیراعظم کا نام ہم اس لیے لے رہے ہیں کہ انہوں نے خود آکر کہا ا?بیل مجھے مار، دو مرتبہ قوم سے خطاب کیا جس میں انہوں نے بارہا کہا کہ میرے بچے ان چیزوں میں ملوث نہیں ان کی صفائی دینے کی کوشش کی وزیراعظم کو صرف اس لئے نمبر ون رکھا ہے کہ وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔
international
ہم نے میاں نوازشریف کو ٹارگٹ نہیں کیا بلکہ موقع فراہم کیا ہے بین الاقوامی سطح پر یہ سکینڈل سامنے آیا اس سکینڈل پر دو ممالک کے وزرائے اعظم نے استعفے دے دئیے اسی فہرست میں وزیراعطم کے خاندان کا نام بھی آیا وزیراعظم کے صاحبزادے نے خود کہا کہ ہم ٹیکس بچانے کے لئے آف شور میں گئے پھر ہم ملک میں کس منہ سے ٹیکس کی بات کریں گے یہ پہلو اور ہے اور وہ پہلو اور ہے کہ پیسے کس طریقہ سے گئے، اربوں ڈالرز کے فلیٹ کیسے لئے گئے۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس پر میاں صاحب کے اہل خانہ کے چار مختلف بیانات ہیں جبکہ وزیراعظم نوازشریف پر منی لانڈرنگ، کرپشن، الیکشن کمشن میں جھوٹ بولنے اور اپنے اثاثے چپھانے کا الزام ہے، وزیراعظم حسنی مبارک اور کرنل قذافی کی طرح رویہ اختیار نہ کریں۔ ملک کے وزیراعظم نے چار قانون توڑے ہیں۔ اب وزیراعظم دوسروں کو ٹیکس دینے کا کیسے کہہ سکتے ہیں۔ میاں صاحب کا ایک بیٹا کچھ اور دوسرا کچھ کہہ رہا ہے۔
ان کی اربوں روپے کی پراپرٹی سامنے آئی ہے۔ جمہوری نظام میں وزیراعظم جوابدہ ہوتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سرا ج الحق نے کہا ہے کہ نواز شریف جلسوں کی بجائے دل بڑا کرکے اپنے ا?پ کو احتساب کیلئے پیش کر دیں، چودھری نثار نے اپوزیشن کے ٹی او ا?رز پڑھے بغیر مسترد کرکے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا، جماعت اسلامی کی کرپشن فری پاکستان تحریک اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور یہ تحریک اور احتساب اب پاکستان کے ہر شہری کا نعرہ بن چکا ہے، احتساب کا مطالبہ پانامہ لیکس تک محدود نہیں بلکہ گذشتہ حکومتوں میں جن لوگوں نے ملکی خزانے کو لوٹ کر رقم بیرون ملک منتقل کی ہے ان سب کا احتساب وقت ضرورت ہے، کرپشن روکنے اور احتساب کیلئے بہت جلد قومی اسمبلی میں ترمیمی بل پیش کرنے جارہے ہیں اور اس بل کی منظوری کیلئے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کا تعاون حاصل کریں گے۔