لبنان (اصل میڈیا ڈیسک) مشرقِ وسطیٰ کے ملک لبنان کو شدید اقتصادی اور سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ گزشتہ ایک برس سے اس ملک میں مستحکم حکومت کو وجود تک نہیں۔ اس کی معیشت بدانتظامی اور کرپشن کی وجہ سے کسی بھی وقت دھڑام سے نیچے گر سکتی ہے۔
گزشتہ چند مہینوں سے بحیرہ روم کے کنارے پر واقع ملک لبنان سے پریشان کن کہانیاں اور خوف زدہ کر دینے واقعات مسلسل سامنے آ رہے ہیں۔ ان کا تعلق سیاست، معاشرت اور معیشت سے ہے۔ ان تینوں معاملات نے لبنانی عوام کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا ہے اور وہ ملک میں مستحکم حکومت اور کرپشن کے خاتمے کی جد و جہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کئی لبنانی شہروں میں مسلح افراد دندناتے پھرتے ہیں۔ ان مسلح افراد نے شہروں کی سڑکوں کو بند کر کے اپنی انتطامیہ کھڑی کر لی ہے۔ ملکی فوج پیسہ بنانے کی خاطر سیاحوں کو ہیلی کاپٹر سے سیر کروانے کا پروگرام بھی شروع کیے ہوئے ہے۔ ایک رائڈ کی قیمت ڈیڑھ سو ڈالر ہے۔
محتاظ اندازوں کے مطابق لبنان کی نصف آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے کیونکہ ذرائع آمدن نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ستتر فیصد لبنانی گھروں میں مناسب خوراک موجود نہیں یا ان گھروں کے مکین خوراک خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ عالمی بینک نے بھی حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں لبنان کو دنیا کے تین سنگین صورت حال کا سامنا کرنے والوں ممالک میں شمار کیا ہے۔
سن 2018 سے لبنان کی سالانہ شرح پیداوار منفی ہے۔ اس تناظر میں عالمی بینک کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی معاشی گراوٹ صرف جنگ زدہ حالات کے دوران پیدا ہوتی ہے۔ لبنانی کرنسی بےقدر ہو چکی ہے۔ بیشتر لبنانی شہری ان خراب حالات کا ذمہ دار ملکی سیاسی رہنماؤں کو ٹھہراتے ہیں۔ کئی برسوں سے حکومتی حلقے میں پیدا کرپشن نے اس ملک کو انہدام کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس کا علاوہ ملکی بینکنگ نظام بھی مکمل انہدام کے قریب ہے۔
لبنانی دارالحکومت بیروت کے ایک رہائشی گلبرٹ کفوری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرت ہوئے کہا، ”اس صورت حال کے ذمہ دار سیاستدان ہیں، ان کو کٹہرے میں لانا بہت ضروری ہے کیونکہ ان کی وجہ سے اب لبنانی عوام دیوالیہ ہو چکی ہے، بجلی میسر نہیں اور بنیادی ڈھانچہ کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے‘‘۔ کفوری کا کہنا ہے کہ ملک میں قحط کی کیفیت ہے، تیل موجود نہیں اور کوئی سکیورٹی بھی نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایسی خراب صورت حال کے باوجود سیاستدان سارا دن کرسیوں پر بیٹھے گپ بازی کرتے ہیں کیونکہ احتساب کا عمل موجود نہیں۔
گلبرٹ کفوری سے اتفاق کرتے ہوئے ایک اور بیروت کے رہائشی مصطفیٰ مراد نے واضح کیا کہ یورپی یونین کو لبنانی سیاستدانوں پر پابندیاں عائد کرنی چاہییں کیونکہ ان کی اکثریت بدعنوان ہے اور ان کا علاج سخت پابندیاں ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ لبنان کی اشرافیہ اور امیر افراد باقاعدگی سے یورپ کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے ذاتی گھر اور دولت انہی ملکوں میں موجود ہیں۔
دوسری جانب کئی یورپی سیاستدان مقامی افراد کے خیالات سے متفق ہیں۔ رواں برس مئی سے یورپی یونین کے اہلکار ممکنہ پابندیوں کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق امکان ہے ایسے امیر افراد یورپی یونین کی پابندیوں میں جکڑے جا سکتے ہیں، خاص طور پر وہ، جن پر کرپشن کے الزامات عائد ہیں۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ یوسیپ بوریل نے گزشتہ ماہ لبنان کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے اس ملک کو مدد فراہم کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ ان کا اس دورے کے دوران کہنا تھا کہ مدد کی فراہمی کے بعد بھی رکاوٹیں کھڑی رہتی ہیں تو اس کثیر سمتی بحران کا حل نکالنا ممکن نہیں ہو گا۔
اس وقت فرانس اور جرمنی پابندیوں کے اطلاق کے حامی ہیں۔ بیروت میں جرمن سفارت خانہ یونین کی جانب سے لبنانی سیاست دانوں پر ممکنہ پابندیوں کے نفاذ کی تصدیق کر چکا ہے۔ فرانس نے رواں برس اپریل میں کچھ تادیبی اقدامات اٹھاتے ہوئے بعض لبنانی اہلکاروں کو ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔
یورپی کونسل کے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے پروگرام کے سربراہ جولین بارنس ڈیسی کا خیال ہے کہ لبنان کی صورت حال پر یورپی حکومتوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لبنان کے بنیادی نظام میں تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے کیونکہ لبنانی اشرافیہ افسوس ناک ملکی حالات پر پریشان نہیں بلکہ وہ اب بھی سیاست اور معیشت پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے کی کشمکش میں ہے۔