واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی جریدےForeign Policy کے مطابق لبنان میں بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج ابھی تک اپنے مقاصد پورے کرنے میں ناکام رہا ہے تاہم یہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ حزب اللہ تنظیم سیاسی نظام میں شریک ہونے کے باعث اس احتجاج اور مظاہروں کو مسلسل کچلنے میں مصروف ہے۔ ایسے میں یہ اندیشہ بھی ہے کہ حزب اللہ حکومت اور موجودہ نظام کا تختہ الٹ سکتی ہے جیسا کہ 2008 میں ہوا تھا۔
امریکی جریدے کی طویل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الشہداء اسکوائر 4 ماہ سے جاری احتجاج کا مرکز رہا ہے۔ یہاں ہزاروں لوگ اکٹھا ہوئے ہیں جن کے کئی مطالبات ہیں۔ ان میں حکمراں سیاسی طبقے کا خاتمہ، قبل از وقت انتخابات کا اجرا اور اقتدار کی فرقہ وارانہ تقسیم کے نظام پر روک لگانا شامل ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مظاہرین کے جتھوں کا حجم اب چھوٹا ہو گیا ہے۔ ایسے میں جب کہ گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے ،،، بعض مظاہرین کا خیال ہے کہ ان کی تعداد میں کمی کا اصل سبب تھکن اور اس کے ساتھ چسپاں احساس ہے جس میں اس عوامی تحریک کے مستقبل کے حوالے سے نا امیدی بڑھ رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق لبنانی وزیراعظم سعد حریری کے مستعفی ہونے کے تقریبا تین ماہ بعد یعنی جنوری میں نئی حکومت تشکیل دی گئی۔ تاہم اکثر مظاہرین اس بات پر متفق ہیں کہ نئی حکومت حزب اللہ اور اس کے حلیفوں کے ٹھوس مفادات کی نمائندہ پرچھائی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ابتدا میں حزب اللہ نے مظاہرین کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا عملی فیصلہ کیا تھا۔ تاہم مظاہرین کی جانب سے جامع تبدیلیوں کے لیے حمایت کا مطالبہ حزب اللہ کے موقف کے لیے خطرہ بن گیا۔ یہاں تک کہ حزب الله کے سربراہ حسن نصر الله نے حکومت کی تشکیل میں مظاہرین کی شرکت کو بھی مسترد کر دیا۔ بعد ازاں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں … اور سڑکوں پر مظاہرین اور حزب اللہ کے ارکان کی موٹر سائیکل پر سوار ٹولیوں کے بیچ منظم طور سے لڑائی دیکھی جانے لگی۔
رپورٹ کے مطابق ابھی تک عوامی احتجاج کسی سیر حاصل سیاسی سرپرستی سے محروم تھا۔ اگرچہ عوامی تحریک کو ابتدا میں مصداقیت حاصل ہوئی تاہم اس کے نتیجے میں ایک متعین ویژن اور منصوبے کی جانب پیش رفت نہ ہو سکی۔
امریکی جریدے کا کہنا ہے کہ جب موجودہ نئی صورت حال میں استحکام آئے گا تو مظاہرین کو بیلٹ بکسوں کے ذریعے حکمراں اشرافیہ کے سقوط کے لیے ایک منظم سیاسی حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی۔ اس سلسلے میں عوام کو درپیش مرکزی رکاوٹوں میں رائے دہندگان کے لیے فرقہ وارانہ محرکات پر قابو پانے کا طریقہ تلاش کرنا شامل ہے۔ اس کے برعکس عوامی تحریک فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہو سکتی ہے۔ اس کے باعث یہ خطرہ پیدا ہو سکتا ہے کہ مظاہرین سے کہیں زیادہ سیاسی تجربہ رکھنے والی حکمراں اشرافیہ عوامی تحریک پر قابو پا لے۔
رپورٹ میں خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ اگرچہ سیاسی رہ نماؤں کو یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق فرقہ وارانہ نظام کو تحلیل کر دیں ،،، پر ان کے اجتماعی مفادات موجودہ صورت حال کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ مربوط ہے ،،، لہذا انہوں نے تبدیلی کے حوالے سے ہر مطالبے کی مزاحمت کی۔
امریکی جریدے کے مطابق لبنانی مظاہرین کو ایسے دشمن کا سامنا ہے جو نہ صرف ذہین بلکہ مسلح بھی ہے۔ حزب اللہ اور امل موومنٹ کے حامیوں نے گذشتہ چند ماہ کے دوران کئی مرتبہ مظاہرین پر دھاوا بولا۔ اس بات کو خوف پھیلا ہوا ہے کہ حزب اللہ 2008 کی طرح ایک بار پھر سڑکوں پر قبضہ نہ کر لے۔
لبنانی عوام کی احتجاجی تحریک کا ایک مرکزی انتظامی مسئلہ یہ ہے کہ وہ قیادت کے ڈھانچے سے محروم ہے۔ لبنانی فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل اور عوامی احتجاجی تحریک کی ایک نمایاں آواز خلیل حلو کا کہنا ہے کہ قیادت کے لیے مظاہرین کی عدم نامزدگی کا سبب یہ خوف ہے کہ انہیں ہلاک کر دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ “جن قوتوں کے ساتھ ہم نبرد آزما ہیں وہ خطرناک ہیں … بالخصوص حزب اللہ بہت خطر ناک ہے۔ خیل حلو کے مطابق ان لوگوں نے 2005 میں اپوزیشن کی آوازوں کو موت کی نیند سلا دیا تھا .. اور اب بھی ان کو کوئی چیز نہیں روکے گی”۔ لبنانی ریٹائرڈ جنرل نے تسلیم کیا کہ احتجاج کرنے والے مظاہرین ملک میں ایک چھتری تلے جمع نہیں ہو سکے ، اس لیے کہ مظاہرین کا تعلق مختلف پس منظروں اور مختلف سماجی حلقوں سے ہے۔
فارن پالیسی کی رپورٹ کے مطابق لبنان میں عوامی احتجاجی تحریک کے زورِ حرکت کھو جانے کا خطرہ ہے۔ اس لیے کہ کامیاب سیاسی تحریک کو آخرکار ایک معروف قائد کی جانب سے ہدایات، سیاسی ایجنڈے اور فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ابھی تک احتجاجی تحریک لبنان میں حکمراں نظام کے گہرے مسائل کی جانب قومی اور بین الاقوامی توجہ مبذول کرانے میں بڑی حد تک کامیاب رہی۔ تاہم مظاہرین چاہتے ہیں کہ وہ محض توجہ دلانے سے کچھ زیادہ کر کے دکھائیں۔