بغداد (جیوڈیسک) عراق کے سابق نائب صدر اور پارلیمنٹ میں سب سے بڑے سنی بلاک کے سربراہ اسامہ النجیفی نے عراقی حکومت کی جانب سے تبدیلی کی بات کو غیر حقیقی قرار دیا ہے۔
روزنامہ الشرق الاوسط سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ” کابینہ میں تبدیلی یا از سر نو ترتیب کا اعلان دراصل فرار کے ساتھ ساتھ فوائد پر جھپٹنے کی ایک کوشش اور وقت کے حصول کا بہانہ ہے، اس کا حقیقی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں۔وزیراعظم العبادی اپنے فیصلے میں خودمختار نہیں بلکہ اپنی جماعت اور قومی اتحاد جس نے انہیں اس منصب کے لیے نامزد کیا تھا ان کے فیصلے اور مخصوص بین الاقوامی طاقتوں کے دبا کے آگے جھکنے کے پابند ہیں۔
انہوں نےمسلح ملیشیائوں کو تربیت دینے کے لیے عراق میں ایرانی پاسداران کے افسران اور حزب اللہ کے عناصر کی موجودگی کا بھی انکشاف کیا۔انھوں نے کہا کہ پاپولر موبیلائزیشن کے بعض عناصر نے دہشت گردی کے خلاف حقیقی طور پر برسرجنگ ہوکر داعش سے کئی علاقوں کو آزاد کرایا اور انسانی حقوق کے قوانین کی پاسداری کی، جب کہ بعض عناصر نے بیجی، الدور، جرف الصخر، سلیمان بیک اور دیالی صوبے کے دیگر علاقوں کو آزاد کرانے کے بعد جان بوجھ کر وہاں کا انفرا اسٹرکچر تباہ کیا۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پاپولر موبیلائزیشن فورس جب کسی علاقے میں داخل ہوتی ہے تو وہاں سے سرکاری ادارے مثلا فوج، پولیس، لوکل گورنمنٹ اور صوبائی کونسل غائب ہوجاتے ہیں۔ جس کے بعد اغوا، قتل، لوٹ مار اور لوگوں سے پوچھ گچھ کی کارروائیاں شروع ہوجاتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کربلا کے نزدیک ، الرزازہ میں سیکورٹی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں،جہاں 1600 کے قریب شہریوں کو اغوا کیا جاچکا ہے، یہ تمام افراد سامرا اور تکریت سے تعلق رکھنے والے تھے اور کسی کو بھی ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ اب کہا ہیں۔ ان تمام واقعات کی پہلی اور آخری ذمہ داری مسلح افواج کے کمانڈر جنرل پر عائد ہوتی ہے۔