واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) لبنان میں عوامی احتجاج کے نتیجے میں وزیر اعظم سعد حریری کے استعفیٰ دینے کے چند روز بعد امریکی انتظامیہ نے کہا تھا کہ وہ لبنان کو دی جانے والی فوجی امداد روکنے جاری ہے۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ بیروت کو ہرسال امریکا کی طرف سے فوجی شعبے میں 10 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی امداد دی جاتی ہے۔
امریکا کی طرف سے لبنان کی فوجی امداد سے متعلق اس وقت امریکا میں دو الگ الگ آراء سامنے آئی ہیں۔ واشنگٹن کے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ بیروت کو امداد روکنے سے متعلق موقف میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جا رہی ہے۔
امریکی حکومت کے ایک عہدیدار نے وزیر خارجہ مائک پومپیو کے بیان کی طرف اشارہ کیا جس میں انہوں نے لبنان میں نئی خوشحال اور مستحکم حکومت کے قیام پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ لبنانی موثر معاشی اصلاحات چاہتے ہیں۔
محکمہ خارجہ کے عہدیدار نے کہا کہ امریکا آنے والے وقت میں فوجی امداد کو منجمد کرنا ہے یا نہیں اس بارے میں ایک بیان جاری کرے گا ، لیکن ابھی تک ایسا نہیں کیا گیا ہے۔
امریکی کانگرس میں اس حوالے سے اس وقت ہل چل شروع ہوئی جب کانگرس کی کمیٹیوں ایک ممبر نے یہ خبر لیک کردی کہ ٹرمپ انتظامیہ نے لبنان کو فوجی امداد سے منجمد کرنے کی درخواست کی ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ لبنان کو فوجی امداد روکنے کا ایک مقصد حزب اللہ پر پابندیوں میں مزید سختی کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ لبنان کی فوجی امداد روکنے کا ایک پہلو ایران کی خطے میں بڑھتی سرگرمیاں ہیں۔ امریکا ایرانی سرگرمیوں اور خطے میں مداخلت کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے لبنان کی فوجی امداد روکنے سے متعلق فیصلے میں وزارت خارجہ اور دفاع کے عہدیداروں سے مشاورت نہیں کی۔
دوسری طرف بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ امریکی انتظامیہ لبنان کو فوج امداد دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ حالانکہ امریکا کے خطے میں کئی جیو ۔ پولیٹکل مفادات بیروت سےوابستہ ہیں۔ حزب اللہ کو نکیل ڈالنا، اسرائیل کی سلامتی کا مسئلہ اور شامی پناہ گزینوں جیسے مسائل بھی اہمیت کے حامل ہیں۔
لبنان کے لیے واشنگٹن میں بھی دو الگ الگ موقف پائے جاتے ہیں۔ وزیرخارجہ مائک پومپیو اور ان کے موقف کے حامی لبنان کی امداد اس لیے جاری رکھنا چاہتے ہیں تاکہ حزب اللہ کا مقابلہ کیا جاسکے۔ لبنان میں احتجاجی مظاہروں سے پہلے پہلے یہ موقف عام تھا۔ دوسرا موقف ان سخت گیر عہدیداروں کا ہے جن خیال ہے کہ حزب اللہ اور لبنانی حکومت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ لبنانی حکومت بنیادی طور پر حزب اللہ کی شراکت دار ہونے کی ذمہ دار ہے۔ فیصلہ سازی میں لبنان حکومت حزب اللہ کا موقف تسلیم کرتی ہے۔ اس لیے وہ سزا کی مستحق ہے۔
العربیہ چینل کی جانب سے لبنان کی فوجی امداد روکنے سے متعلق امریکی عہدیداروں سے رائے جاننے کی کوشش کی گئی مگر امریکی حکام نے اس حوالے سے کوئی رائے دینےسے انکار کردیا۔ تاہم امریکی حکام کا کہنا تھا کہ وزرارت خارجہ اور دفاع کے عہدیداروں میں لبنان کی فوجی امداد روکنے سے متعلق الگ الگ موقف پایا جاتا ہے۔