لبنان: فلسطینی کیمپ میں حماس کے تین کارکنوں کا قتل

Killing of Hamas Activists

Killing of Hamas Activists

لبنان (اصل میڈیا ڈیسک) فلسطین کے اسلامی گروپ حماس نے حریف جماعت الفتح کو غزہ میں اپنے تین کارکنوں کی ہلاکت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ تاہم الفتح نے حماس کے ان الزامات کو مسترد کر دیا۔قتل کا یہ واقعہ جنازے کے جلوس میں پیش آیا۔

فلسطین کی عسکریت پسند تنظیم حماس کا دعوی ہے کہ 12 دسمبر اتوار کو جنوبی لبنان میں واقع فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں جنازے کے جلوس کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں اس کے تین ارکان ہلاک ہو گئے۔

حماس نے لبنان کے برج الشمالی کیمپ میں ہونے والی ان ہلاکتوں کا الزام حریف جماعت فتح تحریک پر عائد کیا ہے۔ تاہم فتح نے اس الزام کو مسترد کردیا۔ لبنان کی فوج نے جنازے کے دوران فائرنگ کے سلسلے میں ایک فلسطینی نوجوان کو گرفتار بھی کیا ہے۔

فائرنگ کا یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا جب اتوار کے روز ہی فلسطینی مغربی کنارے کے انتخابات میں فتح اور حماس سے وابستہ امیدواروں کو ووٹ ڈالنے جا رہے تھے۔

جمعے کے روز ایک دھماکے میں حماس گروپ کا ایک رکن ہلاک ہو گیا تھا اور عسکریت پسند گروپ اسی کا جنازہ لے کر لبنان کے شہر طائر کے قریب واقع فلسطینی کیمپ کے پاس سے گزر رہا تھا۔ اسی دوران جنازے کے جلوس پر ہونے والی فائرنگ میں حماس کے تین رکن مارے گئے۔

حماس نے اس دھماکے کا الزام بجلی میں ہونے والی خرابی پر لگاتے ہوئے یہ کہا کہ کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے جو آکسیجن سلنڈر تھے اس میں آگ بھڑکنے کی وجہ سے دھماکہ ہوا۔ اس نے لبنانی فوج کے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ یہ دھماکا اسلحہ ڈپو میں ہوا تھا۔

حماس کا کہنا ہے، ” آگ لگنے سے املاک کو نقصان پہنچا لیکن اس کا اثر محدود تھا۔” دھماکے سے قریب کی دیواریں سیاہ ہو گئیں اور پاس کی ایک مسجد کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔ اس میں ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت حمزہ شاہین کے نام سے ہوئی تھی۔ بعد میں حماس نے ہفتے کے روز کہا کہ وہ، ”جہادی مشن پر شہید ہو گئے۔”

کیمپ کے ایک رہائشی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ”جنازے کا جلوس کیمپ کے قبرستان میں پہنچا اور وہاں اچانک ہجوم کی طرف فائرنگ کی گئی۔” ایک دوسرے مقامی رہائشی کے بیان کے مطابق جیسے ہی فائرنگ شروع ہوئی لوگ بھاگنے لگے۔

حماس نے سن 2007 میں فتح کے خلاف غزہ پٹی کے علاقے میں خانہ جنگی شروع کی تھی اور پھر اس کے بعد اس نے علاقے کا کنٹرول خود ہی سنبھال لیا، جب کہ اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے پر فتح کا کنٹرول باقی رہا۔ دونوں فریقوں کے درمیان اختلافات کم کرنے اور امن قائم کرنے کی کوششوں کے باوجود آج تک دشمنی جاری ہے۔

حماس کے ایک عہدیدار رفعت المرا کا کہنا ہے کہ الفتح کے عسکریت پسندوں نے ”جنازے کے جلوس پر گولی چلائی” جس میں چھ دیگر افراد زخمی بھی ہوئے۔ حماس نے اپنے ایک اور بیان میں کہا، ”ہم رملہ میں اتھارٹی کی قیادت اور لبنان میں ان کی سیکورٹی سروسز کو مکمل طور پر اس جرم کے لیے ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔”

لیکن برج الشمالی کیمپ میں الفتح سے وابستہ سیکورٹی فورسز کے ایک اہلکار طلال العبید قاسم نے کہا، ”گولی چلانے والا شخص نہ تو الفتح تحریک کا رکن ہے اور نہ ہی سیکورٹی فورسز سے اس کا کوئی تعلق ہے۔”

لبنان میں فلسطینی سفیر اشرف دابور نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا کہ حکمراں فتح گروپ نے فائرنگ کے اس واقعے کی ”مذمت” کی ہے۔ دابور کا مزید کہنا تھا، ”ہم نے حماس کے رہنماؤں سے رابطے کیے ہیں اور ان سے اس کی تحقیقات کے نتائج کا انتظار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔”

ادھر لبنانی فوج نے اپنے ایک بیان کہا ہے کہ اس جرم کے الزام میں جس شخص کو پکڑا گیا ہے اسے فلسطینی سیکورٹی فورسز نے کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

لبنان اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) کے تحت اپنی حدود میں قائم ایسے 12 کیمپوں میں ایک لاکھ بانوے ہزار فلسطینی پناہ گزینوں کی میزبانی کرتا ہے۔ تاہم لبنانی فوج ان کیمپوں میں داخل نہیں ہوتی اور اس کی سیکورٹی کی نگرانی فلسطینی دھڑوں کی مقامی پولیس کرتی ہے۔