لبنان (اصل میڈیا ڈیسک) لبنان کے صدر نے سابق وزیراعظم سعد حریری سے دوبارہ نئی حکومت تشکیل دینے کو کہا ہے۔ تقریبا ایک برس قبل ملک گیر سطح پر مظاہروں کے بعد وہ وزیر اعظم کے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔
لبنان کے صدر مائیکل عون نے سابق وزیر اعظم سعد حریری کو ملک میں نئی حکومت تشکیل دینے کی دعوت دی ہے۔ نئی حکومت سازی کی کوششیں کافی دنوں سے جاری تھیں اور سعد حریری ارکان پارلیمان کی اکثریت کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔اسی لیے صدر نے انہیں دوبارہ نئی حکومت تشکیل دینے کی دعوت دی ہے۔ لبنان گزشتہ کئی ماہ سے سیاسی و معاشی بحران کا شکار رہا ہے اور نئی حکومت کو اقتصادی چیلنجز کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔
گزشتہ برس سعد حریری کی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے جس کی وجہ سے انہیں وزارت عظمی کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ حریری کو ملک کے سرکردہ سیاسی طبقے کا ایک نمائندہ سمجھا جاتا ہے اور ان کے خلاف مظاہرے سیاسی اصلاحات کے لیے ہورہے تھے۔ مبصرین کے مطابق ان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے سے ایسے افراد کو دھچکا لگے کا جو ملک میں سیاسی اصلاحات کے لیے مسلسل آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
گزشتہ برس وہ اس وقت مستعفی ہوگئے تھے جب ملک معاشی بحران سے دو چار تھا، کرپشن اور ہر جانب پھیلی ہوئی بد نظمی سے افراتفری کا ماحول تھا۔ اس وقت سے اب تک حالات میں کوئی خاص بہتری بھی نہیں آئی ہے۔
سعد حریری کو اپنی جماعت کے علاوہ شیعہ سیاسی جماعت العمل، ایک بڑے دیگر سنی گروپ اور آزاد امیدواروں کے ساتھ ساتھ مسیحی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔
لبنان کی سیاست مذاہب اور برادریوں کے درمیان منقسم ہے جس کی وجہ سے ملک کا سیاسی منظر قدرے پیچیدہ ہے۔ ملک میں تقریبا ً18 مذہبی گروپ ہیں اور آئین کے مطابق حکومت میں تمام اہم مذہبی طبقات کی نمائندگی ضروری ہے۔
لبنان کے سیاسی نظام کے تحت وزیر اعظم کے عہدے پر صرف کوئی سنی مسلمان جبکہ صدر کے عہدے پر کوئی مسیحی شہری اور پارلیمانی اسپیکر کے عہدے پر کوئی شیعہ سیاستدان ہی فائز ہوسکتا ہے۔ دیگر سیاسی عہدے بھی اسی بنیاد پر مختلف سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔
اس مناسبت سے سعد حریری کا یہ سیاسی سفر آسان نہیں ہوگا۔ پہلے تو انہیں اپنی کابینہ میں سب کو مناسب وزارتیں تقسیم کرنے کے لیے کافی کوشش کرنی پڑے گی اور پھر ملک کو جن معاشی اور سماجی مسائل کا سامنا ہے ان سے نمٹنا ہوگا۔ فی الوقت ان کے لیے دونوں ہی راستے مشکل ہیں۔
لبنان کی سابقہ حکومت چار اگست کو بیروت کی بندرگاہ میں انتہائی شدید دھماکوں کے بعد اقتدار سے علیحدہ ہوگئی تھی۔ ان دھماکوں میں تقریباً 200 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے اور بیروت شہر کا آدھا حصہ بری طرح تباہ ہو گیا تھا۔
اس کے بعد کے بعد جرمنی میں لبنان کے سابق سفیر مصطفی ادیب کو وزارت عظمی کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا۔ تاہم حکومت سازی میں ناکام ہونے کے بعد انہوں نے استعفی دیدیا تھا۔ ان کے استعفے کے بعد سے ہی نئی حکومت کے قیام کی کوششیں جاری تھیں۔
لبنان کو اس وقت اس کی تاریخ کے سب سے سنگین اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ فرانس اور دیگر عالمی طاقتوں نے ملک میں حقیقی اصلاحات سے پہلے کوئی بھی مالی امداد فراہم کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ موجودہ بحران کی ذمے داری لبنانی حکمران طبقے کی کئی دہائیوں سے جاری منظم بدعنوانی اور ناقص انتظامی عمل پر عائد کی جاتی ہے۔