تحریر : عمارہ کنول مفت و مفتی کی اصطلاح آپ نے بھی بہت بار سنی ہو گی۔ہر وہ کام جس میں آپ کی جیب ہلکی نہ ہو اور قائد اعظم آپ کی جیب میں استراحت فرماتے رہیں اسے مفت ومفتی کام ہونا کہتے ہیں ۔ مفت ومفتی کام اب تو زمانہ قدیم کی بات لگتی ہے کیونکہ آج کے دور میں اگر کوئی کام مفت میںہو جائے تو چند ثانیہ نہ تو یقین آتا ہے اور نہ ہی دل مانتا ہے کہ سچ میں یہ کام ہو گیا ہے۔ آج کے دور میں مفت اگر کوئی کام ہوتا ہے تو وہ ہے تبصرہ یا تنقید و رائے زنی ۔ یعنی زبان کو زحمت دینے میں کوئی روپے خرچ نہیںہوتے اگر میں کہوں اس زبان کو ہلانے کی بھی کچھ لوگ قیمت بلکہ بھاری اجرت وصول و طلب کرتے ہیں تو آپ بے اختیار میرے ہم خیال ہو جائیں گے جیسے ٹی وی اینکرز ۔ نکاح کے بارے میں فرمانِ نبی ۖہے النکاح من السنتی ۔ اور سنت کی ادائیگی کار ثواب و کار خیر ہے لیکن آج کل یہ سنت ادا کرنا بہت مہنگا پڑتا ہے۔ جی آپ کی سوچ کا زاویہ درست سمت میں جا رہا ہے اس صف میں ایاز کے ساتھ محمودہیں مفتی و عالم حضرات ۔۔بھاری فیسیں وصول کرنا ، امپورٹڈ کپڑے پروٹوکول میں آمدورفت پر تعیش زندگی گزارتے ہوئے سادگی پر بھرپور تقریر کرنا انھی حضرات کا خاصہ ہے۔ بے حد معذرت خواہ ہوں اگر میرے الفاظ سے کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچے۔
میرا مقصد دل آزاری نہیں حقائق کی نقاب کشائی ہے۔ جن سے ہم اکثر چشم پوشی کرجاتے ہیں ۔ آواز اٹھانے کو گناہِ عظیم تر تصور کرتے ہیں۔ دین کا معاملہ ہو یا دنیا کا ، ان کا عمل دخل ہماری زندگیوں میں نمک کی طرح اہم ہے۔ حالانکہ ان میں سے اچھے اور راست مفتیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ مفتی حضرات کی ایک شرارت سے آگاہ کرتی چلوں کہ جہاں آدھی بات بتانی ہے وہاں پوری اور جہا ں مکمل تفصیل درکار ہے وہاں تخصیص سے کام لیتے ہیں جیسے اک عورت نے طلاق کی عدت سے متعلق معلومات چاہی تو تفصیلی فتویٰ جاری ہو۔ ا ک تین ماہ کی مدت ہے۔.نامحرم کا سامنا نہ ہو۔بہت سی شرائط لکھی گئی تھیں ۔ پھر آخری جملہ ملاحظہ ہو کہ مرد چاہے تو فوراًشادی کر لے۔ بندہ ان سے سوال کرے کہ محترم جب بی بی نے آپ سے آپ سے اپنے متعلق پوچھا تو اتنا ہی بتاؤ نا۔کیوں دل جلا رہے ہو کہ تم پر اتنی پابندیاں اور وہ مرد جس نے تم پے طلاق تھوپ کر تمھاری زندگی اجیرن کر دی وہ چاہے تو فوری نئی زندگی کی ابتداء کر کے خوشیوں کے ھنڈولے میں جھول سکتا ہے۔ اب مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے۔
بس اتنا ہی بتاتے ہیں حالانکہ یہ وہ معلومات ہیں جس کا ادھورا پہنچانابے ایمانی اور غلط ہے۔ مکمل بتاؤ نا کہ شرائط کیا کیا ہیں اور پہلی بیوی کے حقوق کیا کیا ہیں؟ اسلام نے جتنے بیوی کے حق رکھے اگر مرد وہ پورے کرنے پے آئے تو داڑھ تک پسینے میں ڈوب جائے۔ مثلاًبیوی کو الگ گھر ،خدمت کے لیے ملازم کی فراہمی،.بیوی کی خوشنودی ، حتیٰ کہ تمھارے ماں باپ کی خدمت یا تمھاری خدمت کرنا بھی اس پر فرض نہیں۔ ہاں اگر وہ ایسا کر رہی ہے تو تمھارا ممنون ہونا بنتا ہے۔ اکڑنا نہیں ۔ پھر یہ کہ اگر وہ تمھارا بچہ پیدا کر دے تو اس کی رضاعت سے انکاربھی کر سکتی ہے۔ اپنے بچے کی رضاعت کے لیے کسی کو یا بیوی کو ہی اجرت دینا شوہر کا فرض ہے ۔پھر اگر طلاق ہے تو بیوی کا نان نفقہ پورا کرنا بھی مرد کے فرائض میں شامل ہے۔ کتنے مفتی حضرات نے آج تک جمعے کے خطبات میں کبھی یہ بات ارشاد فرمائی ۔ ہاں چار شادیوں کی اجازت ہے اگر پہلی بیوی بانجھ ہے، بدشکل بدزبان ہے۔. حسب و نسب میں کم ترہے۔ ازدواجی حقوق ادا کرنے سے کسی مستقل بیماری کی وجہ سے قاصر ہے۔ میں ابھی بھی ادھورا چھوڑ رہی ہوں کہ شاید باقی باتوں پہ کبھی مفتی حضرات تفصیلاً روشنی ڈالیں ۔
Islam
آج جنت کی شارٹ کٹ کنجی مدرسہ میں داخلے کو سمجھا جاتا ہے۔ پرانے وقتوں کے مولوی حضرات کے دل خوف خدا سے معمور اور روشن پیشانیوں والے تھے ۔ مال ودولت اور جاہ وجلال سے کوسوں دور بھاگتے تھے ۔ انھوں نے اپنی زندگیاں اسلام کے نام وقف کر کے اللہ کے ہاں مقام پایا۔.اپنی ضرورت سے بڑھ کے نہ لیا۔ جبکہ آج کل مفتی محض نام کے مفتی ہیں۔ یہ تو اتنے مہنگے ہیں کہ ماں کے پیٹ سے بھی بذریعہ آپریشن برآمد ہوتے ہیں اور اب تاعمر لوگوں سے اس خرچے کو وصول کر رہے ہیں۔ .مجالس کا اہتمام ہو یا نعت خوانی کا، بھاری فیس کا مطالبہ پہلے کیا جاتا ہے۔ چلئے مان لیتے ہیںکہ ایک مناسب حد تک اپنا خرچ وصول کرنا جائز ہے مگر لاکھوں وصول کرنا رواداری نہیں غلط ہے۔ میانہ روی کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ قرآن و سنت تو میانہ روی پہ متفق ہیں۔ ارے اللہ کے نامعقول بندو ! اب تو ڈاکٹروں نے بھی لاکھوں میں فیس لینا بند کر دی جن کا شیوہ ہی کھال اتارنا ہے۔ آج کل مفتی صاحبان سے کوئی بات پوچھ لیں توپہلے بغور معائنہ کریں گے کہ اتنا عقلمندانہ سوال کرنے کی آپ کی جرات کیسے ہوئی؟ پھر قران پاک کی کوئی غیر متعلقہ ایسی تاویل آپکی سماعتوں میں انڈیلیں گے کہ آپ اپنا سر تو پیٹ ہی لو بلکہ دل چاہے کہ ان حضرت کو بھی ۔۔۔۔۔ سمجھدار کو اشارہ کافی۔
صوفی برکت آف دالووال سے کون واقف نہیں. بچپن میں امی کے سکول ٹیچر ہونے کی وجہ سے ہمیں دالووال کے قریبی گاؤں میں رہنا پڑا تھا۔ ایک دن دل میں عجیب سی بے چینی لگی تو گھر والوں کے ساتھ دربار گئی۔ تب بابا جی حیات تھے تاہم علیل تھے ۔انکو وہیل چئیر پر خادم باہر لاتے اور وہ زائرین کے مسائل سنتے ، دعا کرتے ۔ بہت سے لوگ فیض یاب ہوئے۔.مجھے یاد ہے میں نے مغرب کی نماز وہیں ادا کی، ورد سنا اور ہم گھر واپس آگئے۔ برسوں بعد دل نے وہی بے چینی محسوس کی۔ لاہور سے رخت سفر باندھا سیدھا دالووال ۔ ویسا ہی پر نور راحت آمیز سماں مگر کچھ جدید تبدیلیوں کے ساتھ ۔ باباجی کے وصال کے بعد گرل لگا کر باغ کوپرشکوہ مزارمیں تبدیل کر دیا گیا تھا،دل میں ڈھیروں عقیدت اور پرشوق نظر سے میں اس نفاست و خوبصورتی کو سراہ رہی تھی۔
ارادہ تھا کہ اندر جاکر فاتحہ اور سورة یٰسین پڑھوں گی جو کہ ہر دربار ہ،ر بارگاہ پر میرا معمول ہے۔ سیڑھی پر پاؤں رکھا ہی تھا کہ کڑک دار آواز میں گارڈ نے روکا ۔ بی بی اسوقت اندر جانا منع ہے ۔استفسار پر علم ہوا کہ انتظامیہ نے نماز عصر کے بعد عورتوں کے مزار پر جانے کی پابندی لگا رکھی ہے۔ انتظامیہ کے موقف کے مطابق ہم نے اللہ کے حکم کے مطابق پابندی لگائی ہے۔ بھئی درست ہے کہ اللہ نے عورتوں کے قبرستان جانے پر پابندی لگائی ہے۔ مگر اولیا ء اللہ تو غالبا اس شرط سے مبرا ء قرار ہیں۔ معاذاللہ میں کوئی فتویٰ جاری نہیں کر رہی، محض یہ واضح کرنا چاہ رہی ہوں کہ صوفی صاحب کے وصال کے بعد انتظامیہ کے خود ساختہ اصول جن کو شاید صوفی صاحب نے بھی ناپسند کیا ہو گا، آج وہاں رائج ہیں۔ اپنے غصے اور آواز کو تو قابو کر لیا۔
ALLAH
وفور جذبات سے چھلکتی آنکھوں کو قابو نہ کر سکی۔ خوب رو کے بھڑاس نکالی ۔ دل ہلکا ہوا تو اگلی بار جلدی آنے کا ارادہ مصمم کرکے واپس سدھاری۔ چلیں یہ آج آپ نے وہ پڑھا جو بہت لوگوں کے ساتھ ہوا۔ مگر ان کے خلاف آواز نھیں اٹھائی جاتی کہ کل مرنا بھی ہے اور جنازہ مفتی یا مولوی صاحب نے ہی پڑھانا ہے۔ اولیا اللہ سے عقیدت کبھی ختم نہیں ہو سکتی کیونکہ پریشانی کے دوہی حل ماں کی گود یا کسی بزرگ کا مزار۔کیونکہ تدارک ہو یانہ ہو ایک ذہنی سکون مل جاتا ہے۔ اب اللہ کے پاس نیک وسیلے سے دعا گئی ہے، شرف قبولیت پائے گی۔ تو کیا وہ وسیلہ کوئی ایسا سفید پوش نہیںہو سکتا جس کی پریشانی آپ چپکے سے دور کر دو۔ اس کا پورا خاندان آپکو دعائیں دے گا ۔ بزرگ بھی خوش اور اللہ بھی۔
دوسرا حل گورنمنٹ سے التجا کہ ہمارے کورسسز میں بنیادی اسلامی تعلیم جیسے چھ کلمے ،نماز ، نماز جنازہ وغیرہ لازمی قرار دیں تاکہ ہم میں سے کچھ غریب ان سے جل جل کر خاک ہونے سے بچ جائیں کیونکہ بہرصورت قبر میں نماز جنازہ کے بعدہی اتارا جاتاہے۔ مردوں کو مسلمان جلایا نہیں کرتے ۔مفتی صاحبان خدارا دین کو تجارت نہ بنائیں ایک مسلے کا حل امیر غریب سب کو ایک سا ہی بتائیں ۔کسی نے مفتی صاحب سے قتل کا قصاص پوچھا تو انہوں نے فرمایا ؛رہٹ جس سے ہل چلایا جاتا ہے کمرے میں کھڑا کر کے اس کے برابر اناج۔ کہا آپکا بیٹا بھی شریک جرم تھا۔ آدھا آپ دیجئے تو فرمانے لگے محترم ہل کو لٹا لیجئے اس کے برابر اناج کا قصاص ہی درکارہے بس۔ آج اگر ہم گمراہ ہیں تو اپنی لاعلمی کی وجہ سے۔ہمارے اساتذہ کو باقاعدہ اسلامی تربیت فراہم کی جائے کیونکہ نہ توہمیں کسی شدت پسند سے پڑھنا ہے نہ ہی کسی ناقص العلم سے۔ ہمیں دل ودماغ کی روشنی کی ضرورت ہے۔ محض ڈگری کی نہیں۔
کئی بار پڑھا اور سوچا بھی کہ مسٹر چرچل کے اظہار محبت کے طویل باب سے ہمارا کیا لینا دینا۔ اس کی جگہ حیات طیبہ بھی تو پڑھائی جا سکتی ہے ۔ پورے پاکستان سے مفتی صاحبان کے بارے معلومات اکٹھی کریں ۔ میں یہ نہیں کہتی کہ تمام بلک زیادہ تر بدنام ہیں۔ تفصیل سے آپ سب ھی آگاہ ہیں۔ ابھی مفتی عبدالقوی کا قصہ تازہ ہے۔ قصہ پارینہ تو بہت سے معاملات کو بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جیسے مولوی صاحب کا بارہ سالہ بچی سے عقد ، مدرسوں میں معصوم بچوں سے زیادتی و تشدد کے واقعات ۔ مفتی حضرات سے میرا محض یہی شکوہ ہے کہ اگر ہم آپ سے کچھ پوچھنے کی جسارت کر بیٹھیں توہماری درست رہنمائی فرمایا کریں ، بھٹکے ہوئے مسافروں کو غلط راستہ بتا کر آپکو کیا ملے گا؟ ہماری سوچ ، ذہن اور جذبات سے کھیلنا بند کریں ۔ اسلام جیسا ہے ویسا سکھائیں ۔ اسلام کو اپنی دکان چمکانے کے لیے مسخ نہ کریں .. واللہ اعلم باالصواب۔