تحریر۔۔۔ شاہد شکیل موسم سرما کے آغاز سے ہی دنیا بھر میں ہر انسان گرم کپڑوں کی تلاش میں مصروف ہو جاتا ہے غریب افراد کو ہزاروں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی ڈھنگ کا چیتھڑا تک نصیب نہیں ہوتا جبکہ امیر لوگ ایک موسم تو کیا ایک بار استعمال شدہ لباس کو دوسری بار دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے غریب ممالک میں لوگ سردی سے ٹھٹھر کر جان گنواتے ہیں اور امیر لوگ یخ بستہ سردی میں اپنے گرم کمروں میں آگ کے سامنے بیٹھ کر آئس کریم کھاتے ہیں۔ لباس ایک ایسی چیز ہے جسے ایک طرف دنیا کے غریب ممالک میں تن ڈھانپنے اور سردی یا گرمی سے بچاؤ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے
دوسری طرف اسی لباس کو امیر لوگ فیشن کے طور پر استعمال کرنے کے بعد کچرے میں پھینک دیتے ہیںاور لباس کا تیسرا رخ یہ ہے کہ اسی لباس کو دنیا بھر میں کاروباری افراد نے قانونی و غیر قانونی طور پر ذریعہ معاش بنا لیا ہے جس سے وہ روزانہ لاکھوں کروڑوں کماتے ہیں،ایک طرف مغربی ممالک میں رنگ برنگے ملبوسات کی نمائش اور چمک دمک ہرموسم تبدیل ہونے پر بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے
دوسری طرف غریب ممالک میں لوگ سردی سے بچاؤ کیلئے نئے اور قیمتی کپڑے خریدنے کی ہمت نہ رکھتے ہوئے سیکنڈ ہینڈ دھجیوں اور چیھتڑوں کی تلاش میں نکل پڑ تے ہیں ان کی تلاش انہیں کسی شوپنگ پلازہ کی بجائے لنڈا بازار پہنچاتی ہے لیکن وہاں بھی غریبوں کی کھال اتار لی جاتی ہے کیونکہ لنڈے بازار میں فروخت ہونے والی ایک سوئٹر یا کوٹ تاجران کو کوڑی کے بھاؤ ملتے ہیں اور وہ انہیں ہزاروں میں فروخت کرتے ہوئے بھی سو نخرے کرتے ہیں،اس سیکنڈ ہینڈ ٹیکسٹائل،گارمنٹس ،ملبوسات پر ایک مختصر مضمون پیش خدمت ہے۔
دنیا کے ہر ملک میں لنڈا بازار موجود ہے اور لنڈے بازار کے کاروباری افراد کو ہر قسم کے ملبوسات نہایت سستے داموں اور کئی بار تو مفت ہی حاصل ہو جاتے ہیں جن سے وہ روزانہ ہزاروں لاکھوں ڈولرز ، یوروز اور روپوں کا منافع کماتے ہیں، جرمنی میں بھی سیکنڈ ہینڈ ملبوسات کا بہت بڑے پیمانے پر کاروبار ہے سیکنڈ ہینڈ چیتھڑے نما کپڑوں کی سالانہ تعداد سات سو پچاس ٹن ہے اور فی ٹن تین سے پانچ سو یورو کی آمدنی ہوتی ہے غیر قانونی طور پر پرانے کپڑوں کو جمع کرنے والے افراد اور کنٹینرز کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے
کیونکہ یہی افراد عطیات کئے ہوئے ملبوسات کو غیر قانونی ایشیائی اور افریقی ممالک سمگل کرتے اور بے تحاشا پیسہ کماتے ہیں، عطیات کئے گئے ملبوسات ضرورت مندوں تک نہیں پہنچ پاتے اور کپڑوں کا مافیا جعل سازی سے کاروبار کو وسیع کرتا جا رہا ہے۔
Western Countries
مغربی ممالک میں عام طور پر استعمال شدہ ملبوسات اور جوتے وغیرہ کو جمع کرنے کیلئے ہر شہر اور قصبے میں مخصوص مقامات پر بلدیہ نے کنٹینرز نصب کر رکھے ہیں جن پر نمایاں الفاظ میں درج ہوتا ہے کہ یہ کنٹینرز بلدیہ ،فلاں ادارے یا فلاں فرم کی ملکیت ہے اس کنٹینرز میں آپ استعمال شدہ ملبوسات ، جوتے اور گھریلو ٹیکسٹائل مثلاً کمبل ،ٹاولز وغیرہ پھینک سکتے ہیں لیکن اپنی تمام اشیاء کو ضرور چیک کریں کہ کسی لباس یا پھینکی گئی اشیاء میں کوئی قیمتی چیز تو نہیں رہ گئی بعد ازاں ہم ذمہ دار نہ ہونگے
عام طور پر لوگ غیر ضروری ملبوسات ان کنٹینرز میں پھینک دیتے ہیں اور اپنے پرانی اشیاء سے چھٹکارا حاصل کرتے ہیں،یہ تمام اشیاء عطیات کی صورت میں جمع ہوتی ہیں اور اندورنِ ملک یا بیرونی ممالک کو عطیات کردی جاتی ہیں ،لیکن اس کے برعکس تمام معاملات الٹے ہوتے ہیں کیونکہ کئی ملکی و غیر ملکی اکثر و بیشتر ان کنٹینرز سے قیمتی ملبوسات نکال لیتے اور انہیں اچھے داموں فروخت کر دیا جاتا ہے یا کنٹینرز بھرنے کے بعد بیرون ملک سمگل کردیا جاتا ہے
ضرورت مندوں تک یہ اشیاء نہیں پہنچ پاتیں اور یہاں سے لنڈے بازار کا آغاز ہوتا ہے جس کے تحت تجارتی سپلائرز اور کاروباری لوگ بہت منافع کماتے ہیں۔جرمنی کی ریسائکلنگ کمپنی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیمبرگ میں چالیس فیصد کلکٹر غیر قانونی طور پر کپڑے جمع کرتے ہیں ، سی پورٹ والا شہر ہونے کی وجہ سے کئی قسم کی سمگلنگ کی جاتی ہے لیکن ٹیکسٹائل کو ایکسپورٹ کرنے کا کاروبار عروج پر ہوتا ہے،جرمنی قانونی طور پر تیس فیصد ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کرتا ہے کئی ملبوسات جنہیں چیھتڑے کہنا مناسب ہو گا ردی کنٹینرز میں پھینک دئے جاتے ہیں اور مخصوص فرمیں انہیں جلا دیتی ہیں، تخمینے کے مطابق سالانہ چودہ ہزار ٹن ردی ملبوسات کو آگ لگا دی جاتی ہے۔
ہیمبرگ کے بلدیاتی اور ماحولیاتی ایجنسی کے ماہرین کا کہنا ہے دوہزار چودہ سے ہم نے مشترکہ طور پر ہر پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر کنٹینرز نصب کئے ہیں اور بذریعہ پریس تمام لوگوں کو آگاہ کر دیا ہے ایک بروشر بھی ہر گھر بائی پوسٹ بھیجا ہے اور غیر قانونی لانڈری جمع کرنے والوں سے ہوشیار اور محتاط رہنے کی اپیل کی ہے
خصوصی طور پر التماس کی ہے کہ تمام استعمال شدہ ٹیکسٹائل کو صرف بلدیہ کی طرف سے نصب شدہ کنٹینرز میں ہی پھینکیں تاکہ قانونی طریقے سے انہیں ری سائیکل کیا جائے یا ضرورت مندوں تک پہنچایا جائے ،حکومت مجموعی طور پر نصف سے زائد قابلِ استعمال ٹیکسٹائل بیرونِ ملک جن میں افریقا اور ایشیاء شامل ہیں عطیات کرتی ہے، کیونکہ یہ تمام اشیاء ہمیں عطیات کی صورت میں ہی موصول ہوتی ہیں اور ہم انہیں ضرورت مندوں تک پہنچاتے ہیں۔
سیکنڈ ہینڈ(لنڈا بازار) کا کاروبار بہت وسیع ہے جس میں جرمنی کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک سیکنڈ ہینڈ ملبوسات کی قانونی و غیر قانونی طریقوں سے بے انتہا منافع کما رہے ہیں جرمنی کے ہر شہر میں بلدیہ کے تعاون سے ایک یورو شاپ کے نام سے کئی بڑے بڑے ہالز میں گھریلو استعمال کی اشیاء مثلاً کراکری ، الیکٹرونک ، فرنیچرز کے علاوہ سیکنڈ ہینڈ ٹیکسٹائل کا کاروبار کیا جاتا ہے ان ایک یورو شاپس میں ایک یورو سے ایک ہزار یورو تک کی مختلف اشیاء فروخت کی جاتی ہیں
تمام آمدنی کو ضرورت مندوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ان ایک یورو شاپس میں ایک بے روزگار کے علاوہ مرسیڈیز اور بی ایم ڈبلیو کے مالک بھی شوپنگ کرنے آتے ہیں ،یہ کہنا مناسب ہو گا امیر ملک کا لنڈا بازار۔پاکستانی رہنماؤں کو بھی چاہئے کہ غریب افراد کیلئے کوئی ٹرسٹ یا ادارہ قائم کرے جہاں ضرورت مند مفت نہیں تو کم سے کم ادائیگی سے ملبوسات یا گھریلو اشیاء قابلِ قبول حالت میں آسانی سے حاصل کر سکیں۔