لاہور (جیوڈیسک) پنجابی فلموں کے سلطان کو دنیا چھوڑے اکیس برس ہو گئے، فلموں میں لوگوں کو انصاف دلوانے والے سلطان راہی کو خود انصاف نہ مل سکا، قاتل پکڑے نہ جاسکے۔ ہاتھ میں گنڈاسہ تھامے، فرسودہ نظام کو للکارتا سلطان راہی دو دہائی تک پنجابی فلموں کی پہچان بنا رہا۔
ستر کی دہائی میں فلم بشیرا سے ایسی انٹری دی کہ فلموں کا ایکسٹرا اداکار فن کا سلطان کہلایا۔ احمد ندیم قاسمی کے افسانے گنڈاسہ سے ناصر ادیب نے ایسا کردار تراشا کہ ہر طرف پہلے وحشی جٹ اور پھر مولا جٹ کے چرچے ہونے لگے ۔ سلطان راہی کی مصطفی قریشی کے ساتھ ہتھ جوڑی مشہور ہوئی اور فلمسٹار انجمن اور صائمہ نے ہیروئن کے طور پر نام کمایا۔
سلطان راہی نے تقریباً 750 کے قریب فلموں میں کام کیا اور اسی بنا پر ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج کیا گیا تھا۔ اپنی ذاتی زندگی میں سلطان راہی صوم صلوۃ کے پابند تھے اور انہوں نے متعدد بار حج اور عمرے کی سعادت حاصل کی۔
سلطان راہی نے کیریئر کا آغاز بطور ایکسڑا کیا اور آخری سانس تک اپنے ایکسٹرا ساتھیوں کو فراموش نہیں کیا اور فلم انڈسٹری کے ایکسٹرا اداکاروں کیلئے ایک فنڈ قائم کیا جس سے انہیں امدادی رقوم جاری کی جاتی رہیں۔
سلطان راہی نے پنجابی کے علاوہ متعدد اردو فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے اور انہیں فلمی دنیا کے سبھی بڑے ایوارڈز سے نوازا گیا۔
پنجابی فلموں کے سلطان راہی کو 1996 ء میں گوجرانوالہ کے قریب نامعلوم ڈاکوؤں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا اور آج تک فلم میں مظلوم کو انصاف دلانے والے کو قانون انصاف نہیں دلا سکا۔