ملتان (نمائندہ خصوصی) پنجاب کونسل آف دی آرٹس اور ڈینھ وار جھوک سرائیکی کی طرف سے لیجنڈ آف میوزک ثریا ملتانیکر کے اعزاز میں تقریب منعقد کی گئی ۔ تقریب کے انعقاد میں سخن ور فورم اور شمع بناسپتی کی اعانت شامل تھی ۔ صدارت ایگزیکٹو ڈائریکٹر پنجاب کونسل آف دی آرٹ چوہدری آصف پرویز جبکہ مہمان خصوصی سجادہ نشین درگاہ عالیہ خواجہ معین الدین کوریجہ تھے ۔ تقریب سے پروفیسر شوکت مغل، راحت ملتانیکر ، رضی الدین رضی ، قیصر نقوی ،شاکر حسین شاکر، ملک محمد اکمل وینس، رانا محمد فراز نون ، آصف خان ، عمران اعظمی ، سید مہدی الحسن شاہ ، ملک مختار اعوان ، ملک جہانزیب وارن ، عابدہ بخاری ، ظہور دھریجہ نے خطاب کیا اور میڈم ثریا ملتانیکر کی خدمات پر روشنی ڈالی اور خراج تحسین پیش کیا ۔ کمپیئرنگ کے فرائض عامر شہزاد صدیقی نے سر انجام دیئے۔
ممبر صوبائی اسمبلی و سابق صوبائی وزیر حاجی احسان الدین قریشی نے کہا کہ وسیب ہم سب کا ہے ۔ ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو گا ۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف میڈم ثریا ملتانیکر کے پرستار ہیں ۔ میڈم ثریا ملتانیکر نے اپنے خطاب میں اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ آج کی تقریب سے مجھے نئی زندگی ملی ہے اور میں تمام منتظمین کا شکریہ ادا کرتی ہوں ۔ اس موقع پر میڈم ثریا ملتانیکر کی صاحبزادی راحت ملتانیکر نے اپنی والدہ کی شخصیت اور خدمات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میڈم بہت اچھی فنکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھی ماں بھی ہیں ۔ خواجہ معین الدین کوریجہ نے کہا کہ سرائیکی خطہ صوفیاء کی سر زمین ہے ، صوفیاء کے کلام کے ذریعے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ حضرت خواجہ غلام فرید کے عارفانہ کلام کو فروغ دینے میں ثریا ملتانیکر کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر چوہدری محمد آصف نے کہا کہ ملتان میری تعیناتی مختصر عرصہ رہی مگر میں ملتان کو بھول نہیں سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ سرائیکی زبان بہت میٹھی ہے اور اس خطے کی ثقافت بہت رچ ہے اور اس کی ترقی کیلئے ہم سے جو کچھ ہو سکا ہم کریں گے۔ انہوں نے کہا میڈم ثریا ملتانیکر کسی ایک فرد کا نام نہیں ، وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ جنہوں نے اپنے سفر کا آغاز تو بلا مبالغہ صفر سے کیا مگر اپنے کام میں محنت، ریاضت، لگن، انسانوں کے ساتھ الفت و محبت اور سنگیت کے ساتھ سچے اور کھرے عشق کی بناء پر آج میوزک کے ایک لیونگ لیجنڈ شمار ہوتی ہیں۔
سرائیکستان قومی کونسل کے چیئرمین پروفیسر شوکت مغل نے کہا کہ وسیب کی محرومی کے خاتمے کے حوالے سے جو بھی قدم اٹھایا جائے گا ، ہم اس کا خیر مقدم کریں گے ۔ ملک مختیار اعوان اور ملک جہانزیب وارن نے کہا کہ سرائیکی زبان کو عام کرنے میں ہمارے شاعروں ، ادیبوں اور گلوکاروں کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں رانا محمد فراز نون ، سید مہدی الحسن شاہ اور عابدہ بخاری نے ثریا ملتانیکر کے اعزاز میں منعقد کی گئی تقریبِ پذیرائی کو تعریفی اقدام قرار دیا اور ملتان آرٹس کونسل کے ساتھ ان کے معاون اداروں کا شکریہ ادا کیا ۔قیصر نقوی نے کہا کہ جس دور میں میڈم ثریا ملتانیکر نے سنگیت کے میدان میں نام کمایا ، اس دور میں سیکھنا تو مشکل نہ تھا کہ اس فن کے اساتذہ جگہ جگہ موجود تھے مگر سیکھنے کے بعد نامور ہونا بیحد مشکل اور ناممکن حد تک دشوار تھا کیونکہ دائیں بائیں بہت سریلے اور قابل سنگیت کار موجود تھے۔
شمع بناسپتی کے مارکیٹنگ منیجر عمران اعظمی نے کہا کہ میڈم ثریا ملتانیکر صرف نے صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں نام روشن کیا ، جس پر ہم جتنا فخر کریں کم ہے۔ رضی الدین رضی اور شاکر حسین شاکر نے اپنے خطاب میں کہا کہ پہلا موقع ہے کہ لاہور سے پتھروں کے ساتھ پھول بھی آنا شروع ہو گئے ۔ ظہور دھریجہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملتان ٹی ہاؤس بننے سے آرٹس کونسل کی پارکنگ ختم ہو گئی ہے ، اس مسئلے پر فوری توجہ کے علاوہ الحمراء طرز کی آرٹس کونسلیں وسیب میں بنانے کی ضرورت ہے ۔ بہاولپور آرٹس کونسل کی تعمیر ہونے کے علاوہ وسیب کے ہر ضلع میں آرٹس کونسل موجود ہو تو ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کے علاوہ سماجی و معاشی تبدیلی بھی اس خطے میں آئے گی۔
روزنامہ موثر کے ایڈیٹر ایم اسلم میاں نے کہا کہ ہم خصوصی طور پر لاہور سے شرکت کیلئے آئے ہیں کہ میڈم ثریا ملتانیکر کا گیت بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے بچپن سے سنتے آ رہے ہیں ، دوسرا یہ کہ سرائیکی بہت میٹھی زبان ہے ، ہمیں ملتان سے محبت ہے اور اسی محبت نے ہمیں یہاں آنے پر مجبور کر دیا ۔ انہوں نے کہا کہ میں اس عظیم الشان تقریب کے انعقاد پر ظہور دھریجہ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ ایسی تاریخی کتاب ہم نے پوری زندگی میں نہیں دیکھی ۔ اتنی پذیرائی تو اہل لاہور نے میڈم نور جہاں کی بھی نہیں کی ۔ اس موقع پر مہران ملک نے کہا کہ کہ میں شکر گزار ہوں کہ سئیں ظہور دھریجہ اور میاں اسلم نے اس تاریخی تقریب میں شرکت کا موقع فراہم کیا ۔ محفل موسیقی میں معروف سرائیکی گلوکاروں اعجاز راہی ، استاد سجاد رسول ، نسیم سیمی ، ثوبیہ ملک ، اعظم لاشاری ، مقبول ملنگی کھرل نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور خوب داد حاصل کی ۔ کمپیئرنگ نعیم الحسن ببلو اور طاہرہ خان نے سر انجام دیئے۔
اس موقع پر میڈم ثریا ملتانیکر اور دوسرے مہمانوں کو سرائیکی اجرکوں کے تحائف پیش کئے گئے۔ ریذیڈنٹ ڈائریکٹر آرٹس کونسل ملتان فواد رفیق نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔ اس موقع پر معروف سماجی رہنما ملک محمد اکمل وینس ، سابق صدر ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سید اطہر شاہ بخاری ، سابق صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن وسیم ممتاز ایڈوکیٹ، معروف دانشور پروفیسر ڈاکٹر مقبول گیلانی، جا م خدا بخش کھونہار، آصف دھریجہ، پاکستان سرائیکی پارٹی کے رہنما ملک جاوید چنڑ، سرائیکی فورم کے سربراہ آصف خان ، سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما سید مطلوب شاہ بخاری، عابد سیال ،صیغم عباس قریشی ، جام جمشید اقبال ،فرح رحمان ، فہیم ممتاز ایڈوکیٹ، رازی بھٹہ ، مظہر جاوید سیال، سرائیکی رہنما ملک اللہ نواز وینس ، مقصود دھریجہ، الطاف خان ڈاہر، رانا امیر علی امیر ،ایاز محمود ، زاہد منیر، سلطان محمود، اجمل دھریجہ ، حاجی عید احمد، شبیر بلوچ، افضال بٹ، عمیر سلیم، ناصر سلیم، شریف بھٹہ ، شیخ ممتاز الرحمن سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
اس موقع پر کتاب بھی شائع کی گئی ، جس میں شامل مضمون میں ظہور دھریجہ لکھتے ہیں کہ آپ ملتان آئیں تو آپ کو قدم قدم پر تاریخ کے انمٹ نقوش اور تاریخ سازشخصیات ملیں گی ۔ ملتان شہر کے وسط میں چوک شہیداں ماں دھرتی کا دفاع کرنے والے شہداء کی یاد دلاتا ہے ، اس کے قریب ایک محلہ بھیڈی پوترا ہے جہاں فن و ثقافت کی بڑی شخصیات نے جنم لیا ۔ ان میں ایک نام ثریا ملتانیکر کا ہے ۔ 1940ء کے عشرے میں ثریا نے آنکھ کھولی ، موسیقی کی ابتداء تربیت استاد حسین بخش خان سارنگی نواز سے حاصل کی ۔ موسیقی کی باقاعدہ تربیت استاد غلام نبی خان جو عالمی شہرت یافتہ سارنگی نواز استاد غلام نبی خان آف دہلی کے شاگرد تھے ، سے حاصل کی ۔ ان کی شاگردی میں میڈم ثریا ملتانیکر نے وہ مقام حاصل کیا جو بہت کم گلوکاروں کو نصیب ہوا۔
موسیقی میڈم ثریا ملتانیکر کا خاندانی ورثہ ہے ،اس خاندان کی بدرو ملتانی کو موسیقی کی دنیا میں بہت بڑا مقام حاصل ہے۔ ثریا ملتانیکر کی والدہ اور بدرو ملتانی آپس میں کزن تھیں ۔ بدرو ملتانی کی پورے ہندوستان میں جانا اور پہچانا جاتا تھا ۔ خوبصورتی اور حسن کی نعمت اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ دی تھی ، آج بھی خوبصورتی اس خاندان کا زیور ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ مینا لودھی نے بھی موسیقی کی دنیا میں نام پیدا کیا مگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ جوانی میں دنیا سے رخصت ہو گئیں ۔ جو مقام ثریا ملتانیکر نے حاصل کیا ، وہ کسی کے حصے میں نہیں آیا ۔ میڈم ثریا ملتانیکر کی صاحبزادی راحت ملتانیکر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ، وہ محکمہ تعلیم میں انگریزی کی استاد ہیں ۔ موسیقی ان کے گھر کا ورثہ ہے ۔ اس میدان میں خوب ریاض کر رہی ہیں ، اپنی والدہ کی طرح بہت اچھی انسان بھی ہیں ۔ غریبوں سے ہمدردی ان کا شیوہ ہے ۔ وہ غریب اور ضرورت مند فنکاروں کی بھی بہت مدد کرتی ہیں ۔ پاکستان ٹیلیویژن ملتان سنٹر کی جنرل منیجر کی حیثیت سے ان کی خدمات کو وسیب کے فنکار ، شاعر ، ادیب اور گلوکار آج بھی یاد کرتے ہیں۔
میڈم ثریا ملتانیکر کے بارے میں معروف ادیب نذیر خالد لکھتے ہیں کہ ثریا ملتانیکر جی کے فن کے حوالے سے میں نے بہاولپور میں رہائش پذیر کلاسیکل موسیقی کے استاد جناب مبارک علی خان سے دریافت کیا کہ ثریا جی کی گائیکی کے بارے میں کچھ بتائیں تو انہوں نے جواباً کہا کہ” سب سے پہلی اور بڑی بات یہ ہے کہ میری معلومات کے مطابق پاکستان میں اسوقت ثریا ملتانیکر کے علاوہ اور کوئی خاتون کلاسیکل گانے والی نہیں ہے یہ واحد خاتون ہے جو اس مشکل صنف گائیکی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔ یہ کام آسان نہیں اگر آسان ہوتا تو جیسے ہم موسیقی میں بیسیوں نئے لوگ اور نئے چہرے دیکھتے ہیں ان میں کوئی کلاسیکل کی طرف بھی آتا مگر ایسا نہیں ۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ثریا صاحبہ نے بہت محنت اور مشکل کے ساتھ یہ سیکھا ہے ، انہوں نے بڑے استادوں سے یہ فن سیکھا ہے اسیلئے اسمیں کسی غلطی یا خامی کی گنجائش نہیں ہے۔
میڈم نے جن بڑے استادوں سے سیکھا ہے اسی طرح انہیں بڑے موسیقاروں اور استادوں کی صحبت ان کے میوزک کنسرٹ اور محافل میں بیٹھنے کا موقع ملا ہے ، یہی وجہ ہے کہ میڈم کی گائیکی اور انکی تہذیب بہت بلند درجہ کی ہے ، انکا اٹھنا بیٹھنا بات کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی تربیت بہت ہی بڑے لوگوں کے ہاتھوں میں ہوئی ہے ورنہ ہمارے لوگ تواس تہذیب و شائستگی سے بھی بالکل بے بہرہ ملتے ہیں۔ انکا گلہ نہایت سریلا ، لے کی پکی اور گائیکی کے رموز جانتی ہیں ، یہ باتیںہیں جو انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز بناتی ہیں۔”
بر صغیر کی موسیقی میں استاد توکل حسین خان کا بڑا نام ہے،بہاولپور میں سکونت پذیر انکے پوتے اور اپنے عزیزدوست اعجاز توکل خان جو اردو زبان کے پاکستان کی سطح کے جدید لہجے کے شاعر اور کلاسیکل موسیقی کے سمجھدار استادشمار ہوتے ہیں سے ثریا جی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ مختصر ساجواب دینگے اوروہ یہ کہ سب سے بڑی اور قابل فخر بات یہ ہے کہ ثریا ملتانیکر ایک ایسی گلوکارہ ہیں جنہوں نے بڑے استادوں سے یہ علم سیکھا ( اسکے لئے ااعجاز صاحب نے ”سیکھی پوچھی ہوئی ”کے الفاط استعمال کئے ) دوسری بات جو انہیں سب سے جدا کرتی ہے یہ ہے کہ انہوں نے کلاسیکل موسیقی سیکھی اور اسکے ساتھ وابستہ ہوئیں یہ امرانکوبرتری ا ور فضیلت بخشتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کلاسیکل موسیقی کی طرف آنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں جو اس طرف آتا ہے وہ خود بخود دوسروں سے ممتاز ہو جاتا ہے۔
میانوالی میں استاد غلام حسن خان صاحب ایک کلاسیکل گلوکار ہیں میانوالی اور اسکے گردونواح میں ان کے درجنوں شاگرد موسیقی سے وابستہ ہیں وہ موسیقی کی بہت اچھی سوجھ بوجھ رکھنے والے ہیں جب ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ ثریا ملتانیکر کی گلوکاری کے بارے میںکوئی شخص یہ تو کہہ سکتا ہے کہ وہ گلے سے گاتی ہیں سینے سے نہیں گاتیں یا اس طرح کا کوئی اور اعتراض لیکن جہاں تک موسیقی کے علم اسکی باریکیوں اور رموز کا تعلق ہے اس میں وہ طاق ہیں اور خوب سمجھتی ہیں ،سر اور لے میں بھی پختہ ہیں اور جن خان صاحبان سے انہوں نے تعلیم لی ان جیسا تو اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔وہ بلامبالغہ ایک بڑی فنکارہ ہیں اللہ تعالی انہیں سکھ بخشے۔
آواز کی دنیا میں میڈم ثریا ملتانیکر نے ریڈو پاکستان لاہور سے گائیکی کا باقاعدہ آغاز کیا ۔ عارفانہ کلام خصوصاً سرائیکی کافی ان کی پہچان رہی ہے ،حضرت شاہ حسین ،بابا بلھے شاہ ، خواجہ فرید کی کافیوں سے میڈم کو شہرت کے ساتھ احترام بھی حاصل ہوا ۔ خواج ہفرید کی کافی ” آ چنْوں رل یار ” بہت زیادہ مقبول ہے ایک لوک گیت ” اللہ جانْے یار نہ جانے ” میڈم کی پہچان بنا ۔سرائیکی گیت ” کھڑی ڈیندی آں سنہیڑا انہاں لوکاں کوں ” جو سابق ریاست بہاولپور کی فوجی دھن میں گایا گیا ہے ، سرائیکی کا ملی نغمہ بن گیا ۔ اب میڈم جہاں جاتی ہیں ، اس ترانے کی فرمائش پہلے ہوتی ہے۔ ضیا الحق دور میں ریڈیو پر سرائیکی کا یہ ملی گیت بین رہا ۔ میڈم ثریا ملتانیکر نے فلمی موسیقی میں بہت کم حصہ لیا ، اس کے باوجود ان کا فلمی گیت ” بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے ” آج بھی زبان زد عام ہے ۔ میڈم سے ایک مرتبہ میں نے پوچھا کہ آپ فلمی دنیا سے کیوں دور رہیں؟ میڈم نے بتایا کہ فلم کا مرکز لاہور بن چکا تھا، سب چلے گئے مگر مجھے اپنا ملتان چھوڑنا گوارا نہ ہوا کہ ملتان کی محبت میری مجبوری نہیں میرے پاؤں کی زنجیر ہے۔
میڈم ثریا ملتانیکر کے گھر میرے ساتھ پروفیسر عاطف دھریجہ اور زبیر دھریجہ موجود تھے ، ان سے ہم نے بھولی بسری یادیں جاننا چاہیں تو میڈم نے بہت سی یادیں تازہ کیں ، جو کہ ہم نے 10 اکتوبر 2016ء کو روزنامہ جھوک کی خصوصی اشاعت میں شائع کیں ۔ اس موقع پر میڈم نے بتایا کہ میں قطعی طور پر موسیقی کی تعلیم حاصل نہ کر سکتی اگر میرے ماموں فضل حسین موسیقی کے دلدادہ نہ ہوتے ۔ انہوں نے بتایا کہ میرے ماموں پہلوان تھے ، بڑے بڑے پہلوان اور بڑے بڑے گائیک ان کے دیرے پر موجود رہتے ۔موسیقی کی محفلیں ہوتیں جس سے متاثر ہو کر میں نے باقاعدہ موسیقی کی تعلیم حاصل کی اور اب بھی خود کو موسیقی کی ادنیٰ طالبعلم سمجھتی ہوں۔
میں نے پوچھا ” خواجہ فرید سئیں کی ایک شادی ملتان سے ہوئی تھی ، کیا آپ اس بارے جانتی ہیں ؟ ”۔ انہوں نے بتایا کہ” جی ہاں ! ہمارے بڑے بتاتے ہیں کہ خواجہ غلام فرید سئیں کی شادی ہمارے خاندان میں سے ہوئی تھی ۔ ہوتاں بی بی ملتان کی تھیں ، خواجہ سئیں اللہ کے ولی تھے ، جنہوں نے چوروں کو قطب بنایا ۔ ان کے ساتھ نسبت پر ہمیں فکر ہے۔ خواجہ سئیں نے روزہ رکھا ۔ غیر مسلم عورت پکوڑے لے کر آئی تو آپ نے کھا لئے ۔ لوگوں نے کہا کہ آپ کا روزہ ٹوٹ گیا ہے ۔ خواجہ صاحب نے فرمایا کہ روزہ توڑنے کا کفا رہ ہے، آپ بتائیں کہ کسی کا دل توڑنے کا کیا کفارہ ہے ؟ ” میں نے پوچھا ” میرے دوست نذیر خالد تحقیقی کام کر رہے ہیں ، کیا مینالودھی کی آواز میں کوئی چیزیں مل جائیں گی ؟” میڈم نے فرمایا ” نہ بابا ، میرے علم میں نہیں۔ ”
میں نے کہا ” غیر مسلم فنکاروں میں سے ہم نے کنور بھگت کا نام سنا تھا کہ وہ بہت بڑے سخی تھے اور مسلمان فنکاروں میں سے آپ کو دیکھا ہے ۔ ” میڈم نے کہا ” کنور بھگت کے بارے میں کچھ باتیں بتائیں ” ۔ میں نے کہا کہ ” کنور بھگت سندھی فنکار تھے، بہت میٹھی آواز تھی ،سخی بہت بڑے تھے ، پاکستان بننے سے پہلے اسے قتل کر دیا گیا تھا ، کہتے ہیں کہ اسکو بہت ساری دولت ملتی تھی ، لیکن وہ اپنے پاس ایک ٹکا بھی نہ رکھتا تھا اور اسکے تقسیم کر دیتا تھا ۔ ” میڈم ثریا ملتانیکر نے کہا کہ ” جو آپ بخرے والی بات کر رہے ہیں ، بخرے میں بھی کرتی ہوں ۔ آدھا حصہ اپنا اور باقی آدھے حصے میں سے غریب غربا کا حصہ ، پنجتن پاک کے نام کا حصہ ، غوث پاک کے نام کا حصہ ، پرندوں کا حصہ اور اپنے والدین کے نام کا بخرا کرتی تھی۔
اسی طرح میرا بیٹا جو باہر رہتا ہے مجھے پیسہ بھیجتا ہے کہ اماں یہ اللہ کے نام کا حصہ ہے پر میرے بیٹے کو وہ غریب بھی یاد ہی نجو ہمارے گھر کام کرتے تھے ۔ ٹانگے والے، رکشے والے یاد ہیں جو ان کو سکول لے کر جاتے تھے اور لے کر آتے تھے ۔ کپڑے اور برتن دھونے والی، فرش صاف کرنے والی اور روٹی پکانے والی عورتیں اور بیبیاں یاد ہیں ۔ بلاشک وہ خود تو فوت ہو گئیں مگر میرے بیٹا کہتا ہے کہ ان کی اولادوں کی خدمت بھی ہم پر فرض ہے ۔ہم حصے بخرے پہنچاتے ہیں ۔ بابا سئیں یہ باتیں بتانے کی نہیں ہوتیں مگر باتوں سے بات نکلی تو میں نے بتانا بھی ضروری ہوتا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے سیکھتے ہر جاتے ہیں ۔ دو میٹھے بول بھی سخاوت ہے ۔ ہنس کر بولنا بھی سخاوت ہے۔ ادب ، آداب بھی اچھی بات ہے ۔ سرائیکی میں کہتے ہیں جھکا مول نہ کھاوے دِھکا ۔ جو بوؤ گے وہی کاٹو گے ۔ یہ سب باتیں برحق ہیں۔ ”