قانون سازی

PTI

PTI

تحریر : سید کمال حسین شاہ
پی ٹی آئی کی حکومت نے بہت اچھی قانون سازی کی ہے۔ اگر صرف ان کاموں کو زور سے پورا کیا جائے کے پی کے پاکستان کا مثالی صوبہ بن سکتا ھے۔یہ دیکھا جانا مناسب ہے کہ خیبر پختونخواہ کی حکومت کی کارکردگی کیسی ہے۔ حکومتی معاملات میں کفایت شعاری سے کام لیا جا رہا ہے اور اعلی حکومتی عہدے داروں کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال نہ کرنے کی کوششس ہو رہی ہے۔ عام انتخابات کے بعد جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو خیبر پختونخواہ کے صوبے کی حالت دگرگوں تھی۔ بہت سے تجربہ کار سیاست دانوں اور سینیئرکالم نویسوں نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ وہ امن و عامہ کی انتہائی دگرگوں حالات کی بناء پر حکومت نہ بنائیں۔۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے ایک سنگ میل طے کیا ہے اورخیبر پختونخواہ کی حکومت نے اب تک بہت سے ایسے کام کر لئے ہیں جنہوں نے نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے۔

پاکستان کے میڈیا نے اب تک خیبر پختونخواہ میں ہونے والی تبدیلیوں کو نظر انداز کیا ہے لہذا یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ان معلومات کو عوام تک پہنچایا جائے۔ اس میں پولیس میں اصلاحاتْ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ، خیبر پختونخواہ کی پولیس کو سیاست سے پاک کر دیا گیا ہے اور یہ خیبر پختونخواہ کی حکومت کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اس وقت پولیس حکومت،اس کے وزرا یا اراکین اسمبلی کی جانب سے کسی قسم کی مداخلت کے بغیر آزادانہ طور پر کام کر رہی ہے۔ تمام فیصلے قانون کے مطابق اور میرٹ پر کئے جاتے ہیں۔ اس پالیسی پر عمل درآمد کے بعد سے بہت بہتری پیدا ہوئی ہے۔ پولیس پر شہریوں کے فیڈ بیک کا نظام کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخواہ کے پولیس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے پولیس سٹیشنز کے بارے میں لوگوں کا فیڈ بیک حاصل کرنے کا نظام بنایا گیا ہے۔ اس کا مقصد کرپشن کو جڑ سے ختم کرنا ہے اور شہریوں کو سہولت مہیا کرنا ہے۔ بہترین حکمرانی کے نمونے کے طور پر اس کا مقصد شہریوں میں اعتماد پیدا کرنا ہے اور ان کی شمولیت میں اضافہ کرنے کے ذریعے ان تک پہنچنا ہے، کرپشن میں کمی اور خدمت کی ادائیگی میں بہتری شامل ہیں۔ شہریوں کا فیڈ بیک کا نظام اعلی پولیس افیسرز کو نگرانی اور احتساب کا موقع مہیا کرتا ہے.عظم میر ارو کئی روسرے پڑے لکھے لوگوں کو عوام کے رابطے کی زمداری دیپولیس سٹیشنز پر خواتین کے لئے ڈیسک بینا گیا ہے۔

ثقافتی رکاوٹوں اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے، خواتین کے لئے اپنے حقوق، خاص طور پر پولیس کی خدمات حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کے حل کے لئے، خیبر پختونخواہ کے پولیس ڈپارٹنمٹ نے خواتین کے ڈیسک قائم کئے ہیں۔ یہ ڈیسک خواتین کی شکایات پر کیسز کے اندراج، پولیس کی مدد کی خدمات اور خواتین کے خلاف تشدد میں کمی میں مدد کریں گیاور خواتین کو اپنے قانونی حقوق کے بارے میں معلومات مہیا کرنے کے ذریعے ان کو خود مختار بنائیں گے۔ اب تک ستر پولیس سٹیشنوں میں خواتین کے کائونٹر قائم کر دئے گئے ہیں۔

متاثرین کے لئے پولیس تک رسائی کا مفت فون نمبر0800ـ00400۔ سینٹرل پولیس آفس پشاور میں قائم کیا گیا ہے۔ یہ ایسے متاثرین کو ٹیلی فون کے ذریعے رسائی مہیا کرتا ہے جو پولیس سٹیشن پر جانے کی پوزیشن میں نہ ہوں یا پولیس سٹیشن کے عملے کی جانب سے ان کے حق کو مسترد کیا گیا ہو۔ اس خدمت کا مقصد پولیس کی کاروائی کے وقت میں کمی لانا ہے اور پراونشل پولیس آفس کو پولیس سروس کی رفتار اور معیار کی تشخیص کے لئے نگرانی کا ایک ذریعہ مہیا کرنا ہے۔ تھانہ کلچر کے خاتمے کے لئے پراونشل پولیس آفیسرز نے پولیس سٹیشنوں کے سپیشل معائنوں کا انتظام کیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد پولیس کو پیشہ ور، خدمت مہیا کرنے والے اور قابل احتساب بنانا ہے جس میں پولیس کے اختیارات کے بے جا استعمال، عوام کے ساتھ نامناسب سلوک اور غیر قانونی حراستوں کو ختم کرنا ہے۔ ان معائنوں کے آغاز سے اب تک چار ہزار سے زیادہ افسروں اور اہل کاروں کو بڑی اور چھوٹی سزائیں دی گئی ہیں جن میں نوکری سے برخاست کرنا اور تنزلی شامل ہیں۔ پولیس سٹیشنوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں تا کہ ان کی براہ راست نگرانی کی جا سکے۔خیبر پختونخواہ میں آن لائن ایف آئی آر رجسٹریشن کا نظام کامیابی سے کام کر رہا ہے۔

آن لائن فرسٹ انفارمیشن رپورٹ کا نظام چوبیس گھنٹے کی آن لائن دستیاب سہولت ہے جو لوگوں کو پولیس سٹیشن پر ذاتی طور پر جائے بغیر ایف آئی آر درج کرانے کا موقع دیتی ہے۔ اس اصلاح کا مقصد عام لوگوں کو ان کے دروازے پر رسائی مہیا کرنا ہے، ایف آئی آر کے اندراج نہ کئے جانے کے واقعات کا خاتمہ اور متاثرین کو پولیس ڈپارٹمنٹ کے اعلی افسران تک براہ راست رسائی مہیا کرنا ہے۔خیبر پختونخواہ کی پولیس کو جدید سم ٹیکنالوجی سے لیس کر دیا گیا ہے تا کہ چوری شدہ اور غیر اندراج شدہ گاڑیوں کا سیکنڈز میں سراغ لگایا جا سکے۔ گاڑیوں کی رجسٹریشن کے بارے میں تمام معلومات، چیسز نمبر، رنگ، مالک اور شناختی کارڈز کی تفصیلات پولیس کو دو سیکنڈز میں دستیاب ہونگی۔ سرکاری عہدے داروں کے مطابق، پولیس آفسروں کو ابتدائی طور پر پچھتر سمز دی گئی ہیں۔ ان سمز کو استعمال کرتے ہوئے، پولیس نے پہلے ہی سینکڑوں گاڑیوں کا سراغ لگا لیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہا اکثر چوری شدہ اور غیر اندراج شدہ گاڑیوں کو دہشت گردی کے حملوں اور عام جرائم کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس دوران شہریوں کو اپنی گاڑیوں کو چھڑانے کے لئے ہفتوں یا مہینوں انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

دہشت گردی کی برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے، ایک نئے فورس کا قیام وقت کی اہم ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لئے بنائے گئی فورس میں سترہ سو سے زیادہ افراد بھرتی کئے جائے گیں جن میں سے ساڑھے چھ سو پہلے ہی بھرتی کئے جا چکے ہیں۔ یہ فورس خیبر پختونخواہ کے سات علاقوں میں قائم کی جا رہی ہے اور سابقہ فوجیوں کو اس میں بھرتی کیا جا رہا ہے۔ جیل توڑنے، آگ لگنے یا دوسری ناگہانی آفات کی صورت میں معلومات کے ضیاع کو بچانے کے لئے، تمام قیدیوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزد کیا جا رہا ہے۔ اس نظام کے تحت تمام قیدیوں کا ریکارڈ کمپیوٹر پر موجود ہوگا۔ پشاور اور ہری پور میں ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کیا جا چکا ہے اور اس کو تمام سینٹرل جیلوں، ڈسٹرکٹ اور سیشن جیلوں تک وسعت دی جا رہی ہے۔ سولہ جیلوں کا معائنہ مکمل ہو چکا ہے۔ ان جیلوں میں عملہ بھرتی کر لیا گیا ہے اور کمپیوٹر لگائے جا چکے ہیں۔ مردان میں ڈاٹا اینٹری شروع ہو چکی ہے اور تمام جیلوں کے ریکارڈ کو جون بیس ہزار سولہ تک مکمل کر لیا جائے گا۔

جھگڑوں کی مصالحتی کونسلیں۔ باہمی جھگڑوں کو ‘بڑوں’ کی مداخلت کے ذریعے مل جل کر حل کرنیکی روایت بہت پرانی ہے اور بہت مقدس ہے۔ البتہ اس علاقے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نہ صرف امن و امان کی صورت حال خراب ہوئی بلکہ رضامندی سے جھگڑوں کو حل کرنے کی مضبوط روایت کو بھی تباہ کر دیا۔ اس مقدس روایت کو زندہ کرنے کے مشن کے ساتھ، خیبر پختونخواہ کی پولیس کی جانب سے جھگڑوں کی مصالحتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو بہت کامیابی سے کام کر رہی ہے۔پشاور میں ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لئے ایک نظام وضع کیا گیا ہے۔ پشاور میں چالیس مختلف مقامات پر ایک سو بیس کیمرے لگائے گئے ہیں۔ ٹریفک پولیس ہیڈ کوارٹرز گل بہار میں کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے۔
خیبر پختونخواہ ٹورازم، کلچر اور ارکیالوجی ڈپارٹمنٹ پشاور کی تاریخی حثیت کو بحال کرنے کے بہت آرزومند ہیں۔ اس منصوبے کے تحت شہر کی دیوار اور سولہ دروازوں کی بحالی کی جائے گی اور اس مقصد کے لئے صوبائی حکومت نے دو سو ملین روپیہ مختص کیا ہے۔

Legislation

Legislation

تعلیم۔ سکولوں اور کالجوں میں آن لائن داخلہ۔بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے ڈاٹا بیس کے مطابق آن لائن داخلے کا نظام قائم کیا گیا ہے جس میں طالب علموں کو کم سے کم معلومات دینی پڑے گی اور داخلے کی درخواست آن لائن فیس جمع کرا کر خود بخود داخلہ حاصل کر لیں گے۔ ہائر سیکنڈری سکولوں اور کالجز کے موجودہ ڈاٹا کی تفصیلات کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ یہ نظام اسی سال سے شروع کیا جائے گا۔
عمران خان انیس سال سے کم عمر نوجوانوں میں کرکٹ کی صلاحیت کی تلاش کا پروگرام شروع کیا گیا ہے جس کے ذریعے باصلاحیت نوجوانوں کو بین القوامی سطح پر کرکٹ کھیلنے کا موقع ملے گا۔پی ٹی آئی کی حکومت نے تعلیم کے لئے چھاسٹھ بلین روپے کی رقوم مختص کی ہیں جو کہ خیبر پختونخواہ کے کل بجٹ کا بیس فی صد ہے۔ اگر اس کا موازنہ پنجاب حکومت سے کیا جائے تو پنجاب کے تعلیمی بجٹ کے مقابلے میں یہ چالیس فی صد زیادہ ہے۔خیبر پختونخواہ کی حکومت نے صوبے میں اساتذہ اور محکمہ تعلیم کے ملازمین کی حاضری اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے خودمختار نگرانی کے یونٹ قائم کئے ہیں۔ یہ یونٹ تین سالہ منصوبے کے تحت یو کے ڈپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ کے تعاون سے قائم کئے گئے ہیں۔ اس نظام کے ذریعے اٹھائیس ہزار سکولوں کی نگرانی کی جائے گی۔ جی پی ایس کے نظام سے منسلک پی ڈی اے مانیٹر سکولوں میں اساتذہ، طالب علموں کی حاضری کی نگرانی کریں گے اور مستقبل کی ضروریات کا تعین کیا جائے گا۔ خودمختارنگرانی کے یونٹس فروری دو ہزار چودہ کے پہلے ہفتے سے کام کر رہے ہیں۔ پانچ سو مانیٹرنگ اسسٹنٹس بھرتی کئے گئے ہیں جو پورے صوبے میں سکولوں کا روزانہ کی بنیاد پر معائنہ کر رہے ہیں۔

پچھلی حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے، اساتذہ کی کمی چودہ ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ پہلے مرحلے میں، خیبر پختونخواہ کی حکومت نے آٹھ ہزار اساتذہ کو بھرتی کیا ہے۔ دوسرے مرحلے میں خیبر پختونخواہ حکومت نے مزید چھ ہزار اساتذہ کو بھرتی کرنے کا آغاز کیا ہے۔ خیبر پختونخواہ کی حکومت کا یہ تاریخی قدم ایک حقیقی تبدیلی کی بنیاد بنے گا کیونکہ اس سے فرسودہ نظام تعلیم کا خاتمہ ہو گا جو نوآبادیاتی دور میں متعارف کرایا گیا اور یہ معاشرے کے امیر اور غریب کے فرق کو کم کرے گا۔ اب امیر اور غریب دونوں کیبچے برابر مقابلے میں ہونگے اور ترقی کے یکساں مواقع حاصل کریں گے۔ یہ نظام خاص طور پر پسماندہ علاقوں کے طالب علموں کیلئے مفید ہو گا اور وہ شہری علاقوں کے بچوں کے مقابلے میں آسانی پیدا ہو گی۔ نئے نصاب کے مطابق انگلش میڈیم کی کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور تقسیم کر دی گئی ہیں۔ خیبر پختونخواہ ٹیکسٹ بک بورڈ نے قران و حدیث کی روشنی میں کرپشن کے خلاف نعروں کو ٹیکسٹ بکس میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ معاشرے میں کرپشن کی برائی سے آگاہی ہو۔ گریڈ ایک سے بارہ تک کی ٹیکسٹ بکس کے اندرونی ٹائٹل میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی ضرورت کو اجاگر کرنے کے لئے قران پاک سے چند آیات بھی شامل کی جائیں گی۔ قران پاک اورحدیث سے کرپشن کے خلاف تقریبا سو پیغامات جمع کئے گئے ہیں۔

پاکستان میں پہلی دفعہ، خیبر پختونخواہ میں تمام سرکاری سکولوں کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے ایک پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کے آغاز میں پشاور، نوشہرہ،مردان اور ڈیرہ اسماعیل خان کے ٠٥٢ سکولوں کا انتخاب کیا گیا ہے جن میں خاص توجہ بیرونی دیواروں، صفائی، کلاس روموں، فرنیچر اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو دی جا رہی ہے۔ تعمیر سکول پروگرام میں دلچسپی رکھنے والے افراد اور ادارے سکولوں کی بہتری کے لئے رقوم عطیہ کر سکتے ہیں۔ یہ پروگرام اپریل بیس سو چودہ میں شروع کیا گیا تھا۔ آزمائشی مرحلے کے بعد اس کو پورے صوبے میں وسعت دی گئی ہے، ایک ہزار سے زیادہ سکولوں کو ویب سائٹ پر آپ لوڈ کیا گیا ہے۔ اب تک چھبیس ملین روپے کی رقوم جمع ہو چکی ہیں اور پچپن سکول کو مکمل طور پر رقوم مل چکی ہیں۔بنیادی اور ثانوی تعلیم کے لئے پڑھو اور زندگی بدلو کی مہم شروع کی گئی ہے۔ اس مہم کے تحت تقریبا تین لاکھ بچوں کو سکول میں داخلہ دیا گیا ہے۔
خیبر پختونخواہ نے پانچ سو ملین روپیہ یونیورسٹی آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے لئے مختص کیا ہے جوصوبے میں قائم کی جائے گی اور بہت سے طالب علموں اور ٹیکنیکل تعلیم سے وابستہ ماہرین کے لئے مددگار ثابت ہو گی۔ جاپانی کمپنی جائیکا نے مشینری اور دیگر آلات مہیا کرنے کے لئے دو سو پانچ ملین روپیہ مہیا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے اور جرمن کمپنی چھیالیس ملین روپیہ، کمپیوٹرز، فوٹو کاپیئرز اور جنریٹرز کے لئے مہیا کرے گی۔

خیبر پختونخواہ کی حکومت نے سرکاری ملازمتوں میں اقلیتوں کے لئے مخصوص کوٹے میں سو فی صد اضافہ کر کے اسے ڈیرھ فی صد سے تین فی صد کر دیا ہے۔ حکومت نے ہر ضلع میں اقلیتوں کی فلاح بہبود کے افسر کے تقرر کا بھی فیصلہ کیا ہے تا کہ اقلیتوں کے معاملات کو اچھے طریقے سے حل کیا جا سکے۔خیبر پختونخواہ کی حکومت نے پشاور میں پاکستان کا سب سے بڑا کار ویلج قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس منصوبے کے لئے منسٹری آف ہائوسنگ کو چالیس ایکڑ زمین مہیا کرنے کا کہا گیا ہے۔ بارگین سینٹرز کو کار ویلج میں منتقل کیا جائے گا اور لوگوں کی سہولت کے لئے ایکسائز کا محکمہ بھی اسی ویلج میں قائم کیا جائے گا۔

ضلع پشاور میں عوامی مفاد میں تمام عوامی جگہوں بشمول ریسٹورنٹس، ہوٹلز، موٹلز، سٹوڈنٹ کینٹینز اور دیگر عام جگہوں پر شیشہ پینے پر سخت پابندی عائد کی گئی ہے۔ وزیر اعلی نے صوبے میں دیواروں پر لکھی تحریروں اور پوسٹرز کو ہٹانے کا حکم دیا ہے۔ ڈینگی سے نمٹنے کے لئے خیبر پختونخواہ کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی اور خیبر پختونخواہ کے صحت کے شعبے نے ایک مختصر مدت میں تقریبا پانچ سو مریضوں کی مکمل صحت یابی کے ذریعے کامیابی سے ڈینگی پر قابو پا لیا ہے۔ سات اضلاع میں یوتھ سینٹرز، جوان مرکز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ اس سال ہر مرکز کو دس ملین روپیہ دیا گیا۔ جوان مرکز میں ڈاٹا سینٹر، جاب سینٹر، سپورٹس سینٹر ہونگے۔ یہ نوجوانوں کی تمام سرگرمیوں، آگاہی کی مہمات، اور کمیونٹی کی خدمات کا ایک مرکز ہونگے۔صحت کے شعبے میں خیبر پختونخواہ حکومت کی اولین ترجیح پولیو ویکسی نیشن ہے۔ بارہ ہزار پانچ سو تربیت یافتہ رضاکاروں کی مدد سے صحت کا انصاف کی مہم کامیابی سے چلائی گئی۔ پچھے چار سالوں میں پہلی دفعہ اس سال پشاور سے پولیو وائرس ٹیسٹ کے نمونے منفی ہیں۔

Syed Kamal Hussain Shah

Syed Kamal Hussain Shah

تحریر : سید کمال حسین شاہ