پاکستان کے دارالحکومت اسلام آبادمیں دن دیہاڑے بجٹ والے دن سیکیورٹی اہلکاروں کو فائرنگ کرکے زخمی کردیا گیا کراچی لاشوں کا شہر بنتا جارہا ہے اس پر آخر میں لکھوں گا مگر سب سے پہلے زرا یہ پڑھ لیں کہ لاہور کے پوش علاقہ میں صرف 7 گھنٹے بجلی بند رہنے پر جس طرح لیسکو چیف کے خلاف فوری مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کرلیا گیا اگر اسی طرح باقی ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں تو امید ہے۔
جنرل مینجر،م مبران،چیئرمین واپڈا سمیت وزیر پانی بجلی بھی کہیں نہ کہیں ملاقاتیوں کے انتطار میں بیٹھے نظر آئیں گے اس طریقہ علاج سے ملک میں بجلی بحال ہو جائے گی یا پھر سب افسران اندر ہو جائیں گے لیکن اس کے لیے شرط ہے ایمانداری کی مگر لاہور کے ایسے پوش علاقے کی سات گھنٹے بجلی بند رہنے پر لیسکو چیف کو گرفتار کرنا کہیں ان لوگوں کو خوش کرنا تو نہیںجو یہاں بڑے بڑے سیاستدان ،بیوروکریٹ اوربزنس مین رہتے ہیں لیسکو چیف پر ایک الزام یہ بھی ہے۔
انہوں نے بجلی غیر قانونی طور پر بند کرکے کہیں اور دے دی تھی جو بجلی چوری کے زمرے میں آتا ہے مگر یہ کام کون سی ایسی جگہ ہے جہاں پر نہیں ہورہا آپ پاکستان کے کسی دور دراز دیہات میں چلے جائیں وہاں پر بجلی کا صرف نام ونشان ہی ملے گا 24گھنٹے میں صرف چند گھنٹے لوگوں کو بتانے کے لیے بجلی چھوڑی جاتی ہے کہ کہیں یہ نہ سمجھیں کہ وہ لالٹین کے دور میں رہ رہے ہیں جبکہ پاکستان کے بڑے شہروں میں بھی کئی کئی گھنٹے بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔
کیا یہ پاکستان کے علاقے نہیں ہیں اگر لاہور کے پوش علاقہ ڈیفنس میں 7گھنٹے بجلی نہ آنے سے لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کا چیف گرفتار ہو سکتا ہے تو پاکستان کے باقی علاقوں میں صبح سے شام تک بجلی بند رکھنے والوں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی جاتی اگر لیسکو چیف کو بجلی چوری پر گرفتار کیا گیا ہے تو پھرنصف صدی سے بھی زائد عرصہ سے اس ملک کو لوٹنے والے چوروں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی جاتی اور جمہوریت کے نام پر آمریت مسلط کرنے والوں کے خلاف کیوں یہاں زبان کھولنے پر پابندی ہے۔
Pakistan
ایسے حکمرانوں کے خلاف بھی مقدمہ ہونا چاہیے جو ووٹ تو عوام کے نام پر لیتے ہیں مگر اقتدار میں آکر عوام کو بھول جاتے ہیں اور اپنی بادشاہت قائم کرلی جاتی ہے کیا پاکستان میں قانون کی گرفت میں وہی آتے ہیں جن کا کوئی رشتہ دار سیاست میں نہیں ہوتا غریب آدمی تو پاکستان بنانے کے چکر میں اس وقت بھی قربانیاں دیتا رہا اور ابھی تک غربت کی چکی میں پس پس کر قربانیاں دے رہا ہے۔
پاکستان بننے کے بعد بھی ایک مزدور سہانے مستقبل کے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے فٹ پاتھ پرسکون کی نیند سو جاتا تھا اب اسکے بچے مستقبل سے بے خبر انہی فٹ پاتھوں پر نیم پاگلوں کی سی زندگی گذار رہے ہیں ایک نسل نے خوبصورت مستقبل کے خواب دیکھے تو ان کی نسل حکمرانوں کی بے رحمی کے ہاتھوں پائی پائی سے تنگ ہوگئی اور آج ملک میں آدھی آبادی سے بھی زیادہ لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں کیا یہی قائد کا پاکستان تھا جس کے لیے محنت کشوں نے قربانیاں دی اور آج تک قربانیاں دیتے آئے ہیں پاکستان میں جب بھی کوئی حکمران بنا انہوں نے عوام سے ہی قربانیاں مانگی اپنے لیے اور اپنے خاندان کے لیے انہوں نے قربانی کو شجر ممنوعہ قرار دے رکھا ہے۔
پاکستان کی دولت بیرونی ملکوں میں جمع کرکے اپنے بچوں کو اقتدار کے گر سکھانے شروع کردیے جبکہ غریب کا بچہ آج بھی ڈگریوں کا پلندہ ہاتھوں میں اٹھائے چپڑاسی کی نوکری کو ترستا ہے انہی حالات کو محسوس کرتے حبیب جالب جیسا حساس انسان انقلابی شاعر بن جاتا ہے اور عوام کے دکھ درد کو زبان پر لانے کی وجہ سے پابند سلاسل بھی کردیا جاتا ہے کیونکہ حکمرانوں کو عوام کی بات کہنے والا ہمیشہ انکی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔
منگل 3جون کو اسلام آباد کی نیشنل اسمبلی میں وفاقی بجٹ پیش کیا جانے والا ہے اور اس سے قبل لال مسجد کے قریب سیکیورٹی اہلکاروں کو فائرنگ کرکے زخمی کردیا گیا ہمارے حکمرانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ خود تو سینکڑوں سیکیورٹی والوں کے حصار میں رہتے ہیں اور عوام کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا جارہا کراچی کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا جو ہمارے حکمرانوں نے اور سیاستدانوں نے لاشوں کا شہر بنا دیا ہے کیونکہ جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے۔
تو اسکے ردعمل میں دوسری جماعت کے کارکن اپنا بھر پور انتقام لیتے ہیں اور اکثر بے گناہ ان ٹارگٹ کلرز کا نشانہ بن جاتے ہیں جس ملک کا دارالحکومت دہشت گردوں سے محفوظ نہ ہو دہشت گرد دن کی روشنی میں کچہری کے احاطہ میں داخل ہو کر پوری تسلی سے وکلاء اور جج پر فائرنگ کرکے انہیں ابدی نیند سلادیں سیکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کرکے انہیں زخمی کردیا جائے تواسکے باقی شہر کیسے محفوظ ہوسکتے ہیں اس ملک میں اگر کوئی محفوظ ہے تو وہ صرف حکمران ہیں اور شائد اسی لیے لوگ کروڑوں روپے لگا کر سیاست کی شطرنج کھیلتے ہیں تاکہ وہ بھی اقتدار کے ایوانوں میں جا کر محفوظ زندگی گذار سکیں۔