تحریر : زاہد مصطفی اعوان یورپ سمیت فرانس اور دوسرے کئی ممالک کے آئمہ کرام اور علما ء کرام نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ دنیا بھر میں گستاخانہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت پر مشتعل نہ ہوں اور صبر سے کام لیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آزادی اظہار کے دعویداروں کو دوسروں کی آزادیوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے اور ایسا مواد شائع کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ جن سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہو۔ 53 مسلمان سکالرز نے اپنے دستخطوں سے جاری کردہ ایک بیان میں مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ وہ کسی قسم کے اشتعال میں نہ آئیں اور خود کو پرامن رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مسلمانوں کا ردعمل اسلامی تعلیمات اور رسول کریم کی درگزار اور رحم کرنے کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہئے۔ گستاخانہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت سے مسلمانوں کو بہت تکلیف پہنچی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی بھاری اکثریت کے جذبات نہ قابل یقین حد تک دکھی ہوتے ہیں اور ان کے دل اس سے زخمی بھی ہوتے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے مسلمانوں کا ردعمل اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق ہونا چاہئے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق رسول کریم نے دوسروں کے ساتھ نرم رویہ رکھنے اور رحم کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبر، برداشت، نرم خوئی اور رحم کی تلقین کی ہے۔ مسلمانوں کو ان تعلیمات پر عمل کرنا چاہئے۔ کیونکہ کسی بھی عمل کا فوری ردعمل اس سے زیادہ اچھا ہو ہی نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا مقصدیہ نہیں ہونا چاہئے کہ اس طرح کے گستاخانہ خاکوں کو زیادہ اہمیت دی جائے بلکہ ان کو نظر انداز کرنا ہی درست اقدام ہوگا۔ اس سے یہ زیادہ نمایاں نہیں ہوسکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اپنی تقاریر اور ایکشن میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اسلام اس آزادی کا قائل ہے تاہم اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ دوسروں کی آزادی کا بھی احترام کیا جائے اور جس بات پر وہ یقین رکھتے ہیں اسے درست تسلیم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار کو دوسروں کے جذبات کو مجروح کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ مادر پدر آزادی کی اجازت کسی بھی معاشرے میں نہیں دی جاسکتی۔ لوگوں کی عزت و وقار اور جائیداد کا تحفظ کرنے کے لئے قوانین موجود ہیں۔ ایک دوسرے کے کلچر کا احترام کریں اور کمیونٹیز کے اندر دراڑیں پیدا نہ ہونے دیں۔ مسلمانوں کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ مسلمانوں کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے والدین، بچوں اور خود سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ مسلمان اپنے جذبات دوسری کمیونٹیز کو بتانے کے لئے ان کے ساتھ رابطے کریں۔ مسلمان اپنے غیر مسلم دوستوں کو یہ بتانے سے شرم محسوس نہ کریں کہ انہیں اپنے مذہب اور مذہبی شخصیات کا مذاق اڑائے جانے پر شدید صدمہ ہوتا ہے۔
ALLAH
غیر مسلموں کو بتایا جانا چاہئے کہ مسلمان اپنے پیغمبر اسلام سے کس قدر محبت کرتے ہیں۔ اپنی زندگی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سے چیلنجوں کا سامنا کیا مگر انہوں نے اپنے اقدامات کے ذریعے لوگوں کو یہ ثابت کیا کہ وہ پرامن ہیں۔ انہوں نے کسی بھی قسم کی پرتشدد رویے کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان پر طائف میں زبانی اور جسمانی طور پر بھی حملے کئے گئے مگر انہوں نے ان لوگوں کو معاف کر دیا۔ ان کے چچا اور ساتھیوں کو قتل کیا گیا مگر انہوں نے اس پر بھی پرامن ردعمل ظاہر کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خلاف باتوں کرنے والوں کے خلاف کبھی انتقامی کارروائی نہیں کی اور اس حوالے سے مسلمانوں کو ہمیشہ صبر کی تلقین کی ہے۔ بعض لوگ اسلاموفوبیا کی حرکتوں کے ذریعے مسلمانوں کے اندر اشتعال پیدا کرکے انہیں کٹہرے میں لانا چاہتے ہیں۔
مسلمانوں کو اس طرح کی حرکتوں سے ہوشیار رہنا چاہئے اور وہ قانون اپنے ہاتھوں میں نہ لیں۔ مسلمانوں کو جذباتی لوگوں کے ہاتھوں میں بھی نہیں کھیلنا چاہئے۔ یورپ کے مسلمانوں کو اس طرح کی صورتحال سے خبردار رہنا چاہئے اور بیان بازی سے گریز کرنا چاہئے۔ فرانس ایک پر امن ملک ہے جہاں مسلمان کئی دہائیوں سے بسلسلہ روز گار آبا د ہیں اور ہر قومیت کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔فرانس میں ہر فرد کو آزادی حاصل ہے لیکن قانون کے اندر رہ کر ۔قانون سے بالاتر کوئی نہیں ۔حکومت فرانس کو بھی حکومتی لیول پر قانون سازی کرنی ہو گی ،جس میں تمام مذاہب کو تحفط کیا جائے اور کسی بھی مذہب کی دل آزاری کا خاتمہ کرنا چاہیے ۔ مذہب خواہ مسلم ہو عیسائی ہو صہیونی ہو تمام مذاہب کے لوگوں کو چاہیے کہ فرانس کو ایک پر امن ملک رہنے دیں ۔نہ کہ فرد واحد قانون ہاتھ میں لے اور دہشت گردی کر دے ۔اسلام تو بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔
ہمسائیوں کے ساتھ اچھے سلوک کا درس دیتا ہے ۔میرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک مشہور واقعہ تو سنا ہو گا جس میں ایک بوڑھی عورت روزانہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کوڑا پھنکتی تھی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کردار سے اسے مسلمان کیا ۔ہمیں بھی نبی اکرم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا ہو گا ۔سانحہ پشاور ہو یا سانحہ پیرس قابل مذمت ہیں ۔دہشت گردی کی اس لہر کو ختم کرنا ہو گا ۔دنیا میں امن برپا کرنا ہو گا۔