اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے جواب نے جہاں اس بارے میں قانون سازی پر مجبور کر دیا ہے وہاں اپوزیشن کے لئے بھی حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر قانون سازی کا عمل مکمل کرنے کا پیغام ہے۔
حکومت اور اپوزیشن مل کر قانون سازی کرنے میں ناکام رہے تو پانامہ پیپرز لیکس پر تحقیقاتی کمشن قائم نہیں ہو سکے گا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پیغام کو اپوزیشن اپنی اخلاقی فتح قرار دے رہی ہے۔ حکومت موقف تسلیم نہ کرنے سے اپوزیشن وقتی طور پر ڈفلیاں بجا رہی ہے تحقیقاتی کمشن کے قیام کے لئے قانون سازی کے لئے خاصا وقت درکار ہے۔
قومی اسمبلی میں مجوزہ قانون پیش کرنے سے قبل حکومت اور اپوزیشن میں مفاہمت ضروری ہے۔ بصورت دیگر یکطرفہ قانون سازی ایوان زیریں سے منظور ہونے کے باوجود ایوان بالا میں مسترد ہو سکتی ہے اس طرح یہ معاملہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق عدالتی کمشن کے قیام کے لئے قانون سازی فوری طور پر مکمل نہ ہونے سے معاملہ التوا میں پڑ سکتا ہے جس سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اگر وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر قانون سازی میں یہ نکتہ شامل کر دیا کہ پانامہ لیکس یا آف شور کمپنیوں میں براہ راست جن لوگوں کے نام آئے ہیں ان کے بارے میں تحقیقات کی جائے تو ابتدائی مرحلہ میں ہی وزیراعظم محمد نواز شریف کا نام ریفرنس سے خارج ہو سکتا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے ٹی او آر پر ”کچھ لو کچھ دو“ کی پالیسی اختیار نہ کی گئی اور صرف وزیراعظم محمد نواز شریف کا گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی گئی تو حکومت اور اپوزیشن بند گلی میں جاسکتے ہیں جس سے دونوں کے لئے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔
آنے والے دنوں میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قانون سازی کیلئے مذاکرات کی میز نہ سجی تو صورتحال سنگین ہو سکتی ہے۔