تحریر: عابد علی آرائیں وطن عزیز میں سات ماہ سے ہرطرف پاناما لیکس کا چرچا ہے ، سپریم کورٹ بھی اس معمہ کو حل کرنے کے لئے کوشاں لیکن ابھی تک صرف دو ٹی وی چینلز پر کچھ عرصہ کی پابندی اور ایک ٹی وی چینل کو جرمانہ کے سوا کچھ نہیں نکل سکا، نجی ٹی وی چینل نے بھی توہین عدالت کیس میں معافی مانگ لی ہے ، لیکن بعض ناقدین تو بینچ کے ٹوٹنے کی باتیں بھی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیس کی سماعت کرنے والے لارجر بینچ کے ایک رکن کی حکمران جماعت کے سینیٹر سے ملاقات کی خبرٹی وی چینلز پر نشر ہوچکی ہے اس لئے فاضل جج کواخلاقی طور پر بینچ سے الگ ہوجانا چاہیئے۔ تین اپریل 2106 کے روز ملکی تاریخ میں پاناما لیکس کے نام سے ایک خبر منظر عام پرآئی جس نے ملک و قوم کو مسلسل 7 ماہ سے ایک ہیجان کی کیفیت میں ڈال رکھا ہے۔
اس کی تحقیقات کے لئے تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن اور عدالت عظمی سے رجوع سمیت ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے بھی کئے اور 2 نومبر 2106 کواسلام آباد کو مکمل طور پربند کرنے کا اعلان کیا جبکہ جماعت اسلامی کی پہلے سے کرپشن کے خلاف تحریک جاری تھی۔پانامالیکس پر وزیر اعظم نواز شریف نے دو بارقوم سے خطاب کیا اور ایک بار قومی اسمبلی میں بیان دیا اس معاملہ پر عدالتی کمیشن کی تشکیل کادلاسہ دیالیکن وزیر اعظم کے خطابات سے سیاسی حریف مطمئن نہ ہوسکے ،حکومت کی طرف سے ایک خط چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو لکھ دیا گیا چیف جسٹس نے جوابا لکھا کہ جو ضابطہ ہائے کار حکومت نے کمیشن کی تشکیل کیلئے دیئے ہیں ان کے مطابق معاملات کی تحقیقات کیلئے کئی سال درکار ہونگے، پھرپارلیمنٹ نے پاناما کی تحقیقات کے لئے کمیشن کی تشکیل اور اس کے ضابطہ ہائے کارتشکیل دینے کا کھیل شروع ہواجس نے بھی قوم کی طرف سے قانون سازی ومسائل کے حل کیلئے منتخب کردہ اراکین پارلیمان کواتنا مصروف رکھا کہ انہیںنہ تو قوم کی تعلیم یاد تھی نہ صحت اور نہ ہی امن امان کا قیام،ملک کے سارے مسائل حل ہوگئے تھے صرف پاناما لیکس کا واحد مسئلہ تھا جو حل طلب تھا، حکومتی وزرائ، تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی بھی کسی سے پیچھے نہ تھے۔
Aupreme Court
روزانہ شام کو ٹی وی چینلز پر تھیٹر کا سا سماں ہوتاہے، عدالت عظمی نے چھ ماہ بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اورامیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹرسراج الحق ،سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید،طارق اسد ایڈووکیٹ اور وطن پارٹی کے بیرسٹر ظفراللہ خان کی پانچ درخواستوں کو سننے کا فیصلہ کیا جن کی اب تک 6سماعتیں ہو چکی ہیں لیکن ابتدائی ایام کی طرح ہیجان کی کیفیت اب تک موجود ہے،چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربرہی میںجسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ نے ستمبر2016 میں دائر کی گئی ان درخواستوں کی پہلی سماعت 20 اکتوبرکو کی جس میں عدالت نے پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے دائر 5درخواستوں میں سے وطن پارٹی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے باقی درخواستوں پروزیر اعظم نواز شریف،مریم نواز ، حسین نواز ،حسن نواز، وزیر خزانہ اسحاق ڈار،وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدرایف بی آر، نیب سمیت دیگر فریقین اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیئے،اور مزید سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کردی گئی ۔ دریں اثناء اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 30نومبر کو حکم جاری کیا کہ اگر تحریک انصاف نے جلسہ کرنا ہے تو انتظامیہ سے اجازت لے کر پریڈ گرائونڈ میں جلسہ کرے لیکن اسے وفاقی دارالحکومت کو بند کرنے کی اجازت نہیں ، دوسری جانب عدالت عظمی نے اس دوران کیس کی سماعت کیلئے لارجر بینچ تشکیل دے دیاجوچیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس آصف سعید خان کھوسہ ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل ہے۔۔
اس بینچ کے روبروپانامالیکس کیس کی دوسری سماعت یکم نومبر کوہوئی جس میںسپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے اعلی سطحی عدالتی کمیشن بنانے کاعندیہ دیا تو وزیر اعظم نواز شریف ، عمران خان سمیت فریقین کے وکلاء نے عدالتی کمیشن کے قیام کی عدالتی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے تمام فریقین کی جانب سے عدالتی فیصلہ کو من و عن تسلیم کرنے کی تحریری یقین دہانی کرادی گئی،عدالت نے اسی سماعت کے دوران فریقین سے ٹی او آر بارے تجاویز بھی طلب کرلیں،جبکہ عدالت نے ایک بار پھرفریقین کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کی اور اسی سماعت پر نیب نے عدالت کو آگاہ کیا تھاکہ اس معاملے کی تحقیقات کا اختیار نیب کے پاس نہیں ہے جس پرعدالت نے اظہار برہمی کیاتھا،سماعت ایک روز بعد تین نومبر2016تک ملتوی کی گئی۔عدالت کی طرف سے کمیشن کی تشکیل کے عندیہ نے عمران خان کو تسلی دی تو انہوں نے 2 دسمبر کا دھرنا موخر کرکے یوم تشکر منانے کا اعلان کیا،اور دو نومبر کو یوم تشکر کے سلسلہ میں پریڈ گرائونڈ میں جلسہ کیا گیا۔مقدمہ کی تیسری سماعت تین نومبر کو ہوئی جس میں وزیراعظم نوازشریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور کیپٹن (ر) صفدر کی طرف سے جواب جمع کرادیاگیالیکن باقی فریقین نے جواب جمع نہ کرایاتو عدالت نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیا۔
Nawaz Family
عدالت نے وزیراعظم کے بیٹوں اور بیٹی کو جواب کیلئے آخری مہلت دیتے ہوئے فریقین کو ہدایت کی وہ عدالتی کمیشن کے ضابطہ کار جمع کروائیں۔تاہم عدالت جمع کرائے گئے ضابطہ کار کی پابند نہیں ہو گی،، پانامہ لیکس کیس کی چوتھی سماعت 7نومبر کو ہوئی جس میں وزیراعظم کے بچوں کے تحریری جوابات اور جماعت اسلامی کی طرف سے اضافی ضابطہ کار عدالت میں جمع کرائے گئے تو عدالت نے ابزرویشن دی کہ بظاہر معاملہ کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ کمپنیوں کی ملکیت سے انکار نہیں کیا گیا، عدالت نے تمام فریقین سے ایک ہفتے میں متعلقہ دستاویزات اور شواہد طلب کرتے ہوئے قرار دیا کہ یہ تمام دستاویزات جمع کرانے کا آخری موقع ہے، اس حوالے سے مزید مہلت نہیں دی جائے گی،اس دوران عدالت نے وزیراعظم اور ان کے بچوںکے وکیل کی دستاویز جمع کرا نے کے لئے 15روز کی مہلت دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت 15نومبر تک ملتوی کردی۔اس دوران تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کی طرف سے شواہد ومتعلقہ دستاویزات عدالت میں جمع کروا دی گئیں اور وزیراعظم کے بچوں نے وکیل تبدیل کرتے ہوئے سلمان اسلم بٹ کی جگہ اکرم شیخ ایڈووکیٹ کو بطور وکیل پیش کردیا۔
پانچویں سماعت 15 نومبر کو ہوئی جس میں عدالت نے مقدمہ میں فریق بننے کے لئے آنے والی تمام درخواستیں مستردکردیں اور ،تحریک انصاف کے وکیل حامد خان کی استدعا پر سماعت17نومبر تک ملتوی کردی ان کا کہناتھا کہ وہ وزیراعظم کے بچوں کی طرف سے جمع کرائی گئی دستاویزات کا جائزہ لینا چاہتے ہیں ، سپریم کورٹ نے فریقین کو بطور شہادت عدالت میں جمع کرائی گئی دستاویزات کا تبادلہ کرنے کے بعد ان کا جائزہ لینے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ دستاویزات آ گئی ہیں، اگلا مرحلہ کمیشن کی تشکیل ہے۔اس دوران وزیر اعظم کے بچوں کی طرف سے عدالت کے سامنے قطری شہزادے حمد بن جاسم بن جابر کا خط پیش کیا گیا۔جس میں آف شور کمپنیوں کی خریداری کیلئے ان کے والد کی جانب سے رقم دیئے جانے کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ عدالت عظمی نے چھٹی سماعت 17اکتوبر کوکی جس میں عمران خان کے وکیل حامد خان نے وزیر اعظم کے قوم سے دو خطابات اور قومی اسمبلی میں پانامالیکس پر بیان پڑھے،جس سے عدالت مطمئن نہ ہوسکی ، عدالت کا کہنا تھا کہ عمران خان کے وکیل کو چاہیئے تھا کہ وہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کی طرف سے پیش کئے گئے ثبوتوں کے جواب میں کوئی ٹھوس شواہد سامنے لاتے تاکہ ان کے موقف کو غلط ثابت کیاجاسکتا۔
لیکن عمران خان کے وکیل نے جو کچھ کہا وہ غیر متعلقہ تھا، اس دوران حامد خان کے دلائل جاری تھے کہ عدالتی وقت ختم ہونے پر کیس کی سماعت 30نومبر تک ملتوی کردی گئی، اس سماعت کے چند روز بعد حامد خان نے عمران خان کی وکالت سے دستبرداری کا اعلان کردیا توعمران خان لندن کے دورے پر روانہ ہوگئے اور واپسی پر انہوں نے نعیم بخاری کی سربراہی میں بابر اعوان، سکندر اور ملیکہ بخاری پر مشتمل چار رکنی ٹیم کا اعلان کردیا ۔اب دیکھیں ساتویں پیشی پر کیا ہوتا ہے؟ساتھ ساتھ عمران خان اور جہانگیر ترین کی آف شور کمپنیوں کا کیس بھی جاری ہے لیکن سونے پہ سہاگہ شیخ رشید کی نااہلی کیلئے ن لیگ کے رہنما شکیل اعوان کی درخواست پربھی سپریم کورٹ نے شیخ رشید احمد کونوٹس جاری کردیئے ہیں جس کی مزید سماعت دوہفتوں بعد ہوگی۔ آنے والا وقت بتائے گاکہ معاملہ وزیر اعظم ، ان کے خاندان یا تحریک انصاف اور ان کے حمایت کنندگان میں سے کس کے گلے پڑتا ہے۔