کیا جھوٹے لوگ پاکستان کی سیاست کا مقدر ہیں؟

Pakistan Politics

Pakistan Politics

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
آج پاکستان کی سیاست انتہائی کرب کی کیفیت میں ہے کیونکہ ہر جانب جھوٹو فریب کا بازار اتنا گرم ہے کہ کہیں سچائی کا چہرہ صاف طور پر دیکھا ہینہیں جا سکتا ہے۔ایک میرے قائد کی سیاست تھی کہ جو کہہ دیا وہ پتھر کی لیکیر ہوا کرتا تھا۔ میرے قائد ایک بہت بڑے وکیل ہونے کے باوجود۔ سیاستمیں جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ تصور کرتے تھے۔

آج اقتدار کے بھوکوں کی زبان سے سچ نام کی چیز نکلتی ہی نہیں ہے۔انہیں اقتدار کی چکا چوند ایسی دکھائی دیتی ہے کہ جس تک پہنچنے کے لئے وہ ہر بڑے سے بڑا جھوٹ بولنے کے لئے ہمہ
وقت تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔پاکستانی قوم کی یہ بد قسمتی ہے کہ آج ایسے رہنماﺅں سے اسے پالا پڑاہے کہ ماضی کی تاریخ میں اتنے بڑے جھوٹے اورکردار سے خالی لوگوں سے اس قوم کا واسطہ شائد نہیں پڑا ہے۔یہجھوٹے لوگ کسی لحاظ سے بھی پاکستانی قوم کی سیاسی باگ ڈور سنبھالنے کے اہل نہیںہیں،مگر اقتدار کے سب سے بڑے بھوکے اور لالچی بھی یہ ہی لوگ ہیں۔

ایسے لوگوں کو اگر اقتدار نہیں ملے گا تو یہ اپنے سیاسی پیدا کرنے والوں کو ماضی کی طرح چیخ چیخ کر پکاریں گے کہ پاکستان کے اقتدار پر شب خون مارو ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔یا اپنے ہالی موالیوں کو کہیں گے کہ اس ملک کی معیشت و سیاست کی اینٹ سے اینٹ بجا دو !یہ لوگ اس وطن سے نہیں اپن ذات سے مخلص
ہیں۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لوگوں نے ماضی کے کھلاڑی سے اُس کی چرب زبانی اور جھوٹی تقاریر سے متاثر ہو کر ایک آس لگائی تھی کہ یہ پاکستان کا خیر خواہ اور مخلص انسان شائدہماری سیاست میں نمودار ہو گیا ہے۔لہذا لوگوں نے جوک در جوک اس کا حصہ بننے کی خواہش کی اور اس کو پاکستان کی سیاست میں ایک اچھی انٹری سمجھا ۔مگر جب اس سیاست کے نئے شہسوار کے کرتوک قوم کے سامنے آئے تو قوم حیرت زدہ رہ گئی۔جب میدان سیاست میں اس کھلاڑی کو ناکامی ہوئی اور شکست اس کا مقدر بنی تو ہمیں تو کہیں بھی اس
کے اندر اسپورٹس مین اسپرٹ نظر نہیں آئی۔بلکہ اس کو اپنی شکست گذشتہ دو سالوں سے آج تک ہضم ہی نہیں ہوئی ہے ۔126، دن دھرنے دے کر اس شخص نے ایک جانب قومی معیشت کو کھڈے لائین لگایاتو دوسری جانب ایسے ایسے جھوٹ تراشے کہ شیطان کو بھی جھوٹ بولنے میں شکست سے دو چار کر دیا اور شیطانُ نے بھی پاکستان سے نکل کر کہیں اور بسیرا کر لیا۔

Pakistan

Pakistan

فوجی بوٹوں میں سیاست کی تربیت لینے والے یہ سیاست دان فوجی بوٹوں کی جھنکار سے ساری قوم کو اپنے نام نہاد دھرنوں کے دوران بھی ڈراتا رہا ۔اسرائیلی وزیر اعظم کا یہ دوست پاکستان کی معیشت کی تباہی کا ایجنڈا لے کر اور پاکستانی معیشت کا قاتل بنا کر بھیجا گیا تھا۔ مگراس کے باوجود چند نادان لوگ اس کو پاکستان کی سیاست میں آگے بڑھانے کے لئے مسلسل کندھا دے رہے ہیں۔

اپنی سیاسی نا کامیوں کا اس کھلاڑی نے۔ کونسی ایسی پاکستان کی معتبر شخصیت تھی جس کو ذمہ دار نہ ٹہرایا ہو۔موصوف نے چیف جسٹس آف پاکستان سے لیکر چیف الیکشن کمشنر فخرو الدین جی ابراہیم جو پاکستان کا معتبر ترین نام تھاتک پر اپنے جھوٹے الزامات لگائے مگر کوئی ایک الزام بھی عدالتوں یا کسی اور فورم پر ثابت نہیں کر سکے۔ اقتدار کے بھوکے اس جھوٹے شخص پر جس دن قوم نے اعتماد کا اظہار کیا وہ دن پاکستان میں تباہی اور تعصبات کی
گھڑی کے آغاز کا دن ہو گا۔

پی ٹی آئی کے سربراہ مسٹر عمران خانالیکشن ہارنے کے بعد کھسیانی بلی کی طرح کھنمبا نوچنے میں مصروف ہوئے تو ایک اور مغرب کے پالتو جعلی مولوی کے ساتھ مل کر اس ملک میں وہ دھما چوکڑی مچائی کہ ملک کی معیشت اربوں کے نقصان کے لپیٹے میں آگئی۔موصوف کے اندر گیم اسپرٹ نام کی کوئی چیز ہے نہیں،مئی 2013 کے انتخابات میں اپنی شکست ماننے کو تیار ہی نہ ہوئے۔ایک جعلی مولوی کو ویست سے منگا کر اور اُس کے ساتھ مل کر ملک میں دھاندھلی کا ایسا شور بپا کیا کہ کان پڑی آواز تک سُنائی نہ دیتی تھی۔مگر بے صبرہ کھلاڑی کسی موڑ پر بھی کامیاب نہ ہو سکا ۔موصوف جوڈیشل کمیشن میں جب کوئی ثبوت مہیا نہ کر سکے تو اب میڈیا پر آکر اپنے تمام جھوٹوں کا اقرار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ موصوف ایک جانب تو پیپلز پارٹی کو بھی اس دھاندھلی کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں تو دوسری جانب پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن ۔کے عدالت میں دیئے گئے دلائل کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہے
ہیں۔حالانکہ وکیل کے دلائل میں سچائی کم اور کلائنٹ کے حق میں جھوٹ زیادہ شامل ہوتا ہے۔

عمران خان اپنے جلسوں کو اپنی جیت کی دلیل قرار دے رہے ہیں کیا انہیں یاد نہیں کہ کراچی میں ان سے بھی بڑا جلسہ مولانا فضل الرحمان نے کیا تھا۔عمران خان اپنے بنائے ہوئے کمیشن پر تو اعتماد کرتے نہیں ہیں جس نے کے لوگوں کا بے ایمانی اور دھاندھلی کا پول کھول کر رکھدیا کہ پی ٹی آئی میں کسقدر بات کے پکے اور قول کے سچے لوگ موجود ہیں دوسری جانب دولت کی حوس ان لوگوں کو اس قدر ہے کہ استعفے دیئے جانے کے باوجود کروڑوں کی
تنخوہیں وصول کرنے میں ان لوگوں نے ذرا بھی شرم محسوس نہیں کی۔

کوئی ایک بات بھی گیم اسپرٹ لیس لیڈر ،جوڈیشل کمیشن میں ثابت نہیں کر سکے مگر دعویٰ یہ ہے کہ تحریکِ انصاف سچ ڈھونڈنے میں جودیشل کمیشن کی مددکر رہی ہے؟ بیلٹ پیپر ہمیشہ اور ہر صوبے میں تعداد سے زیادہ چھاپے جاتے ہیں ۔مگر اس بات کو بھی یہ اور ان کے وکیل ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ دھاندھلی کے لئے بیلٹ پیپر زیادہ چھاپے گئے۔یہ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن اس دھاندھلی میں شامل تھا مگر ثبوت ان کے پاس کوئی نہیں ہے۔35 پنکچر کے بارے میں موصوف نے خود ہی جھوٹ بولنے کا اقرار کرلیا۔اس افواہ
کے پھیلانے میں بھی ان کے ایک بریگیڈیئر اور امریکی ذرائع ان کے ساتھ کھڑے تھے۔

سب سے بڑا جھوٹ موصوف نے دس مرتبہ فوجی ڈکٹیٹر کو لانے کے عزم کرنے والے کے بارے میں بولا کہ اس کے دور میں پنجاب میں دودھ اور شہد کی نہریں بہ رہی تھیں اور موجودہ پنجاب میںحکومت تو کوئی کا م کر ہی نہیں رہی ہے،پنجاب میں ترقی کے انبار ڈاکٹیٹر کے حامیوں نے ہی لگائےتھے؟؟؟جبکہ ہم سجھتے ہیں کہ وہ پنجاب کا انتہائی کرپٹ دور تھا۔موصوف کا انوکھا خواب یہ بھی ہے کہ 2015 میںانتخابات ہونگے اور وہ وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہونگے۔ویسے دن میں خواب دیکھنے میں حرج ہی کیاہے؟ ایک انوکھا سچ بے صبرے کھلاڑی کا یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات
میں دھاندھلی نہیں کی گئی ۔جبکہ ان کے حلیف اس بات کے گواہ ہیں کہ وہاں پر پی ٹی آئی حکومت نے دھاندھلی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئے ہیں۔

ہم پوچھتے ہیں کہ کیا جھوٹے لوگ پاکستان کی سیاست میں ہمارا مقدر ہیں؟ایسے لوگ جو ہر لمحہ آرٹیکل 62/63 کی زد میں پوری طرح آتے ہیں ۔کیا ایسے ہی لوگ پاکستان کے مظلوم عوم کا مقدر ہیں ؟ایسے سیاست دانوں نے سوچ لیا ہے کہ جھوٹ پر ہی اپنی عمارت کھڑی کریں گے کہ اس کے سہارے اقتدار تک پہنچنا ان کے نزدیک بہت آسان ہے۔ جب کہ ان کو چلانے والوں کا بھی یہ تصور
ہے کہ جھوٹ اتنا بولو کہ لوگوں کو اس پر سچ کا گمان ہونے لگے۔

Shabbir Khurshid

Shabbir Khurshid

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
03333001671
shabbir23hurshid@gmail.com