تحریر : رائو عمران سلیمان ایک وقت تھا کہ مسلمانوں کو ایسے حکمران میسر تھے جن کے عقائد اور تہذیب میں انسانیت کی خدمت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جو اپنے اپنے ادوار میں بڑی بڑی ریاستوں کے مالک ہونے کے باجوو سادگی اور انصاف کی عمدہ مثال بنے رہے ،جو سب سے بڑھ کرسچے تھے ایماندار تھے اور مذہب وملت کا امتیاز کیے بغیر انسانیت کی خدمت یقین رکھتے تھے اب معلوم نہیں کہ اس دور کے مسلمانوں کی اپنی کوتاہیاں ہیں کہ انہیں انسان دوست اور رعایا پرور حکمران نہیں مل پارے رہے ؟یا پھرمسلم حکمرانوں کا وہ خمیر ہی نہیں رہاہے کہ وہ انسانیت کی خدمت کرکے دین واسلام کانام اونچا رکھ سکیں ،ایک وقت تھا کہ مسلم حکمران اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو ترجیح دیتے تھے مگر آج کے مسلم حکمران کی تقریر کے دوران اگر ازان ہو جائے تو وہ بھی اسے ناگوار گزرتی ہے۔
میں سب ہی مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اس لائن میں نہیں کھڑا کر رہا، ہاں مگر چند ایک کے! اسلامی جمہوریہ پاکستان کے موجود ہ اور گزشتہ حکمرانوں کی جانب میرا اشارہ واضح طور پر ہے ۔سوال یہ ہے کہ اس ملک کی اسمبلیوں کے خلاف کوئی بات نہ کرے اور اسے لعنت ملامت نہ کیا جائے ،پھرسوال یہ اٹھتا ہے کہ آخرکیوں ایسا نہ کیا جائے؟ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ آخر اس ملک کی اسمبلیاں وایوان بالا عوام کی کیا خدمت کررہے ہیںجو ان کا احترام کیا جائے ۔؟سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد جب پاکستان دولخت ہوا توجواز یہ بنایا گیا کہ جو بھی حکومت آتی ہے وہ چھوٹے صوبو ں کو نظر انداز کردیتی ہیں،یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ قومی وصوبائی اسمبلیاں اس ملک میں پھیلے صوبوں کی خدمت نہیں کر سکتی ؟۔تو اس بات کی ضرورت کو محسوس کیا گیا کہ کوئی ایسا محکمہ بنایا جائے کہ جس کی مدد سے چھوٹے صوبوں کو بھی بڑے صوبوں کی طرح نمائندگی مل سکے لہذا اس سوچ کے بعد سینٹ بنایا گیا۔
قومی اسمبلی میں جو ممبرا ن منتخب ہوکر آتے ہیں وہ وہاں کی اکثریت کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں جس کے باعث قومی اسمبلی کے نمائندے صوبوں کے لحاظ سے زیادہ یا کم ہوتے ہیں مگرسینٹ کے ارکان تمام صوبوں سے برابر کی تعداد میں منتخب کیے جاتے ہیں ،یہ برابری کا عمل درحقیت عوام کی نمائندگی کے لیے رکھا گیا مگر کوئی یہ بتاسکتاہے کہ 1971سے لیکر آج تک کسی سینیٹر نے اپنے صوبوں کے مسائل حل کرائیں ہو یا کسی عام آدمی کی تبدیلی کا پیش خیمہ بنے ہو؟۔یہ لوگ ایک آدمی کی زندگی تو کیا بدلتے خود ہی خریدوفروخت ہونے لگے ،سینٹ انتخابات جب بھی اس ملک میں آتے ہیں تو ناجانے دل میں ایسا خیال کیوں آتا ہے کہ اس عمل سے انسانیت کی تزلیل کی جارہی ہو،کوئی بتا سکتاہے کہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک پاکستان کی قومی اسمبلی یا سینٹ میں بیٹھے خواص نے اس ملک کے عام آدمی کی کیا خدمت کی ہے؟۔
جب ہم عام آدمی کی بات کرتے ہیں تو اس بیچارے کو تو معلوم ہی نہیں ہے کہ سینٹر ہوتا کیا ہے اورا س کے کیا فرائض ہوتے ہیں۔مارچ 2018میں سینٹ کے 52کے قریب سینیٹر ز ریٹائرڈ ہونے والے ہیں ،جس کے باعث ملک میں خریدوفروخت کا ایک سلسلہ شروع ہوجائے گا،جس کے بعد جس کے پاس زیادہ دولت ہے وہ چاہے تو اپنا پورا خاندان ہی سینیٹر بنواسکتاہے ۔اس میں صوبائی اسمبلی کے لوگ ووٹ ڈالتے ہیں مختلف پارٹیوں کے سربراہ اپنے اپنے صوبائی اسمبلی کے ممبران کو باور کروادیتے ہیں کہ ووٹ کس کو ڈالنا ہے ماضی میں ایک سینیٹر کی قیمت پانچ کروڑ سنائی دیتی تھی مگر اب چونکہ مہنگائی بہت زیادہ ہوگئی ہے اس لیے اس کے ریٹ بھی بڑھ گئے ہیں۔اس کے علاوہ فاٹا اور اسلام آباد کے سینٹ اراکین کو قومی اسمبلی میں بیٹھے لوگ منتخب کرتے ہیں انہیں بھی قائدین کا ہی حکم ماننا ہوتا ہے۔
معلوم نہیں ان ایوانے بالا میں آکر ایسا کیا نشہ چھایاہوتاہے کہ جوا یک دفعہ اس میں چلا جائے تو وہ کسی بھی حا ل میں وہاں سے جانانہیں چاہتا ،میں یوں تومشاہد حسین سید صاحب کا بہت قدردان ہوں میں نے ان کی سیاست کابغور جائزہ لیا وہ جب بھی کوئی بیان دیتے ہیں بہت احتیاط کے ساتھ الفاظوں کا اتار چڑھائو رکھتے ہیں ،یعنی کسی سے بگاڑ کر نہیں چلتے ان کی گفتگو سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بندہ یا پیدائشی پارلیمنٹرین ہے یا پھرانہوںنے اس ملک میں موجود ایوانوں میں میں رہنے کے لیے یہ انداز اپنا رکھا ہے ہم نے دیکھا کہ مارچ میں مشاہد حسین سید صاحب بھی پارلیمنٹ سے ریٹائرڈ ہورہے ہیں مگر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پارلیمنٹ سے جانا ان کے لیے کسی ڈراونے خواب سے کم نہیں ہے ان کا ایک بیان مسلم لیگ میں شمولیت سے قبل ہی سامنے آیا کہ مریم نواز اس ملک کی نڈر لیڈر ہیں اور میں ان کی قیادت پر بھرپوراعتماد کا اظہار کرتاہو ویسے تو یہ مسلم لیگ ق میں رہتے ہوئے خود چودھری برادران کے لیے باعث تشویش بنے ہوئے تھے کہ یہ ان کے ساتھ ہیں یا پھر حکومت کے ساتھ ہیں؟۔مگر اب تو ساری رسمیں اور قسمیں ہی ٹوٹ چکی ہے ظبط کا بندھن بھی اب جاتا رہاہے مشاہد حسین سید اب نہ صرف ڈوبتی ہوئی مسلم لیگ ن کی کشتی میں سوار ہوگئے ہیں بلکہ ہوشیاری یہ ہے کہ وہ کسی بھی حال میں اس ملک کے عام شہری کی طرح زندگی گزارنے کاسوچ بھی نہیں سکتے چاہے مریم نواز کو اپنا لیڈر ہی کیوں نہ ماننا پڑے بس ایک پارلیمنٹ کے ٹکٹ کا سوال ہے ؟،۔
دوستوں بہت مشکل ہے اس دور میں ایک عام آدمی کی زندگی بسر کرناجس کی حفاظت کے لیے کوئی باڈی گارڈ نہیں ہوتے ،مسلم لیگ ق کو خسارے میں دیکھ کر مشاہد حسین سید نے اپنی قیادت کو بدل لیا ہے بلکل اسی انداز میں اب اس ملک کے امیر لوگ سینٹ کی نشستوں کو خریدنے کے لیے کہیں اپنا ضمیر بیچے گئے تو کہیں خریدیں گے ۔اگر اس ملک میں کسی کی قیمت نہیں تو وہ اس ملک کا عام آدمی ہے اس کے معصوم بچے ہیں جس کی اس ملک میں کوئی حیثیت نہیں ہے ۔سیاستدان کا یہ بیان تو سامنے آتا ہے کہ انتخابات میں جوڑ توڑ سیاسی جماعتوں کا حق ہے مگر اس ملک کے ایک عام آدمی کا ان پر کیا حق ہے۔یہ تسلیم کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔
ہر روز جھوٹ آئے روز کے عوام سے لارے لپوں کے سوا ان منتخب اور ہارس ٹریڈننگ زدہ ممبران اسمبلیوں کے پاس کچھ نہیں ہوتا، ایک جگہ تو اللہ خود جھوٹوں پر لعنت فرماتاہے مگر یہ لوگ حلف اٹھا کر بھی ایوانوں میں بیٹھ کر روزانہ درجنوں کے حساب سے جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اب تو ایسا لگتا ہے کہ پورا ملک ہی جھوٹ کے پلندے پر کھڑا ہے اس پر اگر کوئی یہ کہے کہ ایسی پارلیمنٹ پر لعنت ہے تو ان پارلیمنٹیرین کو ایسی آگ لگ جاتی ہے جیسے بیچ چوراہے پر ان کے کپڑے اتار لیے گئے ہو، ویسے ہمیں کیا حق پہنچتاہے ان لوگوں کو لعنت بھیجنے کا یہ ذمہ تو خود اللہ ہی نے اپنے سرلیا ہوا ہے کہ جھوٹو ں پر اللہ کی لعنت ہے۔