لیبیا (جیوڈیسک) لیبیا مشرقی شہر درنہ میں ان تین کارکنوں کے سر قلم کر دیے گئے ہیں جو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شدت پسندوں کے زیر قبضہ شہر کے حالات کے بارے میں لکھتے تھے۔ کارکنوں کی لاشیں منگل کو برآمد ہوئی ہیں تاہم ابھی تک کسی تنظیم نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
ان تینوں کارکنوں کو گذشتہ ماہ کے شروع میں اغوا کیا گیا تھا اور انھوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اس شہر کے بارے میں معلومات دی تھیں لیبیا کے کئی شدت پسند گروپ مشرقی شہر درنہ پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور ان میں سے بعض نے حال ہی میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ سے اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
لیبیا میں سر قلم کرنے کے واقعات بہت ہی کم تعداد میں سامنے آئے ہیں اور ایسے واقعات ان علاقوں میں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں جہاں پر شدت پسند تنظیموں کا کنٹرول ہے۔ تینوں کارکنوں کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ نے تسلیم نہیں کی ہے۔
لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں بی بی سی کی نامہ نگار رانا جواد کے مطابق ملک میں کرنل قذافی کے اقتدار کے خاتمے کی تحریک کے فوری بعد بہت سارے باغی جنگجو شامی صدر بشار الاسد کے خلاف جنگ کے لیے کئی شدت پسند گروپوں میں شامل ہو گئے اور اب ان میں سے کئی جنگجو واپس آ گئے ہیں اور اس وقت ان کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ملک کے مشرقی علاقوں میں موجود ہیں۔
لیبیا میں سنہ 2011 میں کرنل معمر قذافی کو اقتدار سے معزول کیے جانے کے بعد سے ملک میں عدم استحکام کی صورتِ حال ہے اور اس دوران مسلح گروہوں کے درمیان تصادم کے واقعات میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں نامہ نگار کے مطابق ہلاک ہونے والے تینوں کارکن کبھی زیادہ نمایاں نہیں ہوئے تھے اور اکثر اوقات شہر کے بارے میں معلومات سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جاری کرتے تھے۔
شہر میں ایک موجود کارکن جس کا نام سکیورٹی خدشات کی وجہ سے پر نہیں دیا جا رہا ہے، کے مطابق ہم نے یہاں دولتِ اسلامیہ کو مسترد کر دیا ہے اور لیکن وہ اس کے بارے میں باہر نکل کر عام لوگوں سے بات نہیں کر سکتے۔ درنہ شہر پر حکومتی کنٹرول 2012 میں ختم ہو گیا تھا۔ لیبیا میں انصار الشریعہ شریعہ سمیت کئی شدت پسند تنظیموں کو امریکہ کے علاوہ ديگر کئی ممالک میں شدت پسند تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔