لیبیا (اصل میڈیا ڈیسک) خانہ جنگی کے شکار شمالی افریقی ملک لیبیا ميں اگلے ماہ دسمبر میں صدارتی انتخابات ہو رہے ہيں۔ اس الیکشن میں سابق آمر معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام نے بھی بطور امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کرا ديے ہیں۔
رواں برس چوبیس دسمبر کو لیبیا میں صدارتی الیکشن کے لیے ووٹنگ ہو گی۔ یہ انتخابات شیڈیول کے مطابق دس دسمبر سن 2018 کو ہونے تھے لیکن مسلسل مسلح تصادم کی وجہ سے انہيں مؤخر کر دیا گيا۔
چوبیس دسمبر کو تمام امیدوار انتخابی عمل میں شریک ہوں گے اور اگر کوئی اميدوار واضح برتری حاصل کرنے ميں ناکام رہا، تو پھر چوبیس جنوری کو دوسرے مرحلے میں صرف ان دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہو گا، جنہوں نے پہلے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہوں گے۔ لیبیا کے صدارتی الیکشن کو اقوام متحدہ کے مصالحتی عمل کا نقطہ عروج قرار دیا گیا ہے۔
ان انتخابات میں سابق مقتول آمر معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام قذافی بھی ایک امیدوار کے طور پر حصہ لے رہے ہیں۔ صدارتی امیدوار کے طور پر انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی اتوار چودہ نومبر کو نیشنل الیکٹورل کمیشن میں جمع کرائے۔ یہ کاغذات قذافی کے بیٹے نے ملک کے جنوبی مغربی شہر سبھا میں جمع کروائے ہیں۔ ان کے صدارتی انتخابات میں بطور امیدوار شریک ہونے کی تصدیق لیبین الیکشن کمشن کی جانب سے بھی سامنے آئی ہے۔
معمر قذافی کے دور میں انہیں اپنے والد کا جانشین تصور کیا جاتا تھا۔ ان کے والد ایک عوامی تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے محروم کر دیے گئے تھے۔ والد کے زوال کے بعد سیف السلام کو سن 2011 میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
انہیں پانچ برسوں سے زائد عرصے بعد جون سن 2017 میں رہا کیا گیا۔ ان کی سیاسی وابستگی پاپولر فرنٹ برائے آزادئ لیبیا نامی سیاسی و عسکری گروپ کے ساتھ ہے۔ یہ بنیادی طور پر سابق آمر کے حامیوں کی سیاسی جماعت اور ملیشیا بھی ہے۔
رواں برس جولائی میں امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے انچاس سالہ سیف السلام قذافی نے ملکی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں واضح کیا تھا کہ وہ اپنے ملک کے گم شدہ اتحاد کو دوبارہ حاصل کرنے کی شدید تمنا رکھتے ہیں۔ ان کی یہ بھی کوشش ہو گی کہ سیاسی طور پر فعال ہو کر اپنے ملک میں سے سیاسی عدم استحکام اور انتشار کا خاتمہ کر سکیں۔ انہوں نے یہ انٹرویو ویڈیو لنک پر دیا تھا۔
یہ بھی اہم ہے کہ سیف السلام قذافی انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کو انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کے تحت مطلوب ہیں۔
یاد رہے کہ معمر قذافی نے لیبیا پر چالیس برس سے زائد عرصے تک حکومت کی تھی اور پھر عوامی بیداری کی ایک زوردار مگر پرتشدد تحریک کے دوران انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔ بعد میں انہیں تلاش کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
سیف السلام قذافی کے علاوہ ایک اہم امیدوار جنگی سردار خلیفہ حفتر ہیں۔ معمر قذافی کے دور میں ملکی فوج کے ایک سینیئر افسر خلیفہ حفتر اب اپنی مسلح تنظیم لیبین نیشنل آرمی کے کمانڈر اور خود ساختہ فیلڈ مارشل ہیں۔
صدارتی الیکشن میں قومی معاہدے کے تحت قائم ہونے والی حکومت کے سابق وزیر داخلہ فتحی علی باشاغا کے امیدوار بننے کے بھی امکانات موجود ہیں۔ ان کے علاوہ سابق سفارت کار عارف علی اینائض اور لیبیا کی اسمبلی ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر عقیلہ صالح عیسیٰ بھی صدارتی الیکشن میں بطور امیدوار بننے کی خواہش ظاہر کر چکے ہیں۔