تحریر : شاہ بانو میر پاکستان جیسے تیز ترین میڈیا سروس والے ملک میں چند روز پیشتر ہوئی بات کی بابت کہیں ذکر ہو اس قلیل دورانیے میں اتنی مزید برق رفتار اور حیرت انگیز خبریں آچکی ہوتی ہیں کہ اس خبر کا لگتا جیسے صدیوں پہلے کبھی ہوئی تھی ـ ایک نبی پاک کے زمانے میں ایک بُڑھیا پریشان حال حاضر ہوئی اور عرض کی کہ میں اپنے بیٹوں کی کم عمری کے باعث فکر مند ہوں ـ پوچھا کہ کیا عمریں ہیں؟ جواب ملا کوئی 200 برس زندہ رہتا ہے تو کوئی 300 برس اس پر انہوں نے جواب دیا کہ قیامت سے پہلے ایسی قوم ہوگی جن کی عمریں 60 70 80 سال ہوں گی وہ بڑہیا حیرت و استعجاب سے بولی اوہ تو وہ بیچارے نہ اچھے گھر بنا سکیں گے نہ ہی رزق حاصل کر سکیں گے ـ جواب دیا نہیں وہ لوگ تو بہترین اعلیٰ گھروں کو تعمیر کریں گے بہترین زندگی گزاریں گے تعیشات عام ہوں گی ـ
یہ اسی دور کا ذکر ہے کہ جہاں صبح ہوئی بات رات ٹی وی سے غائب اور نیا واویلا منظم انداز سے منظر عام پر آجاتا ایگزیکٹ کے شور سے پہلے قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک جنگجوانہ مہم اپنے پورے عروج پر دکھائی دے رہی تھی جیسے اس بار اسکاٹ لینڈ یارڈ والوں کے مکمل تعاون سے نائن زیرو اور ایم کیو ایم کو مکمل طور سے ایک بار بے اثر کر کے کراچی کا امن و امان بحال کروا کر ہی دم لینا ہے ـ وزیر داخلہ انتہائی پرسکون اور خاموش انداز سے یکلخت جمیز بانڈ زیرو زیرو سیون بنے دکھا ئی دیتے ہیں اور پُریقین انداز میں بتاتے ہیں کہ ہمارا مسلسل بہت معنی خیز رابطہ قائم ہے برطانیہ کی خفیہ تفتیشی ٹیموں سے اور ان کو ممکنہ تعاون فراہم کیا جا رہا ہے
بس کچھ دنوں کی بات ہے ڈاکٹر عمران فاروق کا قاتل کٹہرے میں ہوگا یکلخت جیسے سامری جادوگر کہیں سے پاکستان کے افق پے نمودار ہوتا ہے اور طلسمی چھڑی گھماتا ہے ـ پل بھر میں ہر میڈیا جو نمبر ایک دوڑ کیلیۓ ایک دوسرے کے لتے لیتے دکھائی دیتے تھے وہ ہم زبان ہم آواز ہو کر ایک ہی راگ الاپتے دکھائی دیتے ہیں ایگزیکٹ ایگزیکٹ ایگزیکٹ پیتل کو سونا اور سونے کو پیتل کرنا کوئی ہمارے میڈیا سے سیکھے جس پر مہربان ہوں اسے بغیر کسی قابلیت کے شہرت کے ساتوِیں آسمان پر پہنچا دیں یوں فرض سمجھ کر باقاعدہ انہیں بیان کیا جائے گویا ان زرخرید غلام ہیں ـ یہی ہمیشہ کا رویہ اس بار پھر مکمل ہم آہنگی کے ساتھ ہر ٹی وی چینل پر دیکھا جا سکتا تھا ـ
Axact
شور شور پورے پاکستان کے مسائل ایک طرف زیرو اور ایگزیکٹ ٹاپ آف دی لسٹ ایم کیو ایم کہاں گئی ؟ گورنر سندھ کا معاملہ ؟ کراچی میں پانی کی سنگین صورتحال بلوچستان کی حساس صورتحال ؟ گوادر کاریڈور پے مچا شور؟ ہر ایشو اس وقت سوچے سمجھے طے شدہ منصوبے کے تحت پس چلمن چلا گیا ـ سامنے رہ گیا تو بول اس کو کہتے ہیں غرور کا سر نیچا اس میں قصور شعیب شیخ کا بھی ہے تھوڑے میں جب اللہ کی رحمت زیادہ آجائے تو ہر کم ظرف انسان ایسی ہی رعونت دکھاتا اور پھر آسمان کا قہر اس پے نازل ہوتا بول کے مالک شعیب شیخ کی تقریر کا ایک ایک حرف اور انداز حد درجہ خدا کی غیرت کو جگانے والا تھا اسباب بظاہر انسان ہی بنتے لیکن در حقیقت اللہ کی جانب سے سزا اسی لب و لہجے کی وجہ سے اس پر اتری یہ میرا یقین ہے ـ
یہ ہے رب سوہنے کا انصاف گو کہ مجھ سمیت ہر وہ انسان جو میڈیا کی ذرا سی سوجھ بوجھ رکھتا ہے یہ بآسانی سمجھ رہا ہے کہ سیٹھوں کے بھی آخر کچھ تعلقات ہیں اثر رسوخ ہیں ان کو یوں سر عام برا بھلا کہ کر ان کے ملازمین ان کے دانشوروں کو بڑی رقوم سے خریدا جائے گا تو پھر وہ کچھ تو کریں گے ـ لیکن میرا نقطہ نظر کچھ اور ہے معاملہ کئی سال بے قاعدگی کا ہو بڑے پیمانے پر ٹیکس خورد برد ہو ٹیلی فون کی لائنیں اتنے بڑے نیٹ ورک کیلیۓ دن رات استعمال ہوتی ہوں کوئی بھی نہیں چونکا؟ بالکل ویسے ہی جیسے اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کا کسی کو علم نہیں تھا ـ اس بات کو درست مان لیا جائے تو میرا سوال ہے اس ملک کی خفیہ ایجنسیوں سے کہ جن کی پھرتیلی سرگرمیوں نے آج تک کئی گھروں کے وارث غائب کر رکھے ہیں
روتے اپنے پیاروں کو آج تک دیکھنے سے قاصر ہیں آخر ان کا پاکستان میں اندرونی سلامتی کے حوالے سے کیا لائحہ عمل ہے ، اگر ہر فراڈ کی رپورٹ بیرون ملک اخباروں نے شائع کر کے اس ملک کی خفیہ ایجنسیوں اس ملک کی وزارتِ داخلہ اس ملک کی پولیس اور میڈیا کو جگانا ہے ؟ شعیب شیخ غرور سے توبہ کر کے عاجزی کے ساتھ اللہ کے حضور گڑگڑاؤ کیونکہ جتنا مضبوط ادارہ بنایا وہ جھوٹ کی ریتلی بنیاد پر تھا ایک ہی جھٹکا لگا سارا طمطراق سارا مقام خاک آلود ہوگیا ـ سبق سیکھنے والے وقت کے اس کامیاب ترین ادارے اور اس چیلنج کرنے والے سے سبق سیکھ سکتے ہیں ـ فراڈ جھوٹ کو جتنا مرضی طاقتور بنائیں ایگزیکٹ کی طرح تین بر اعظموں میں پھیلا لیں لیکن جھوٹ کا مقدر صرف ذلت اور شکست ہے آئیے قرآن پاک کھول کر اسی قسم کی کئی مثالیں پڑھ کر سمجھیں کہ وہ مثالیں قیامت تک دہرائی جانی ہیں تو ہم ان عبرت ناک مثالوں کاحصہ نہ بنیں ـ