تحریر : محمد صدیق پرہار جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سزائے موت کیس کی سماعت کی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پولیس ملزم تک پہنچ جاتی ہے پھر جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں۔ اور پھر کہتے ہیں کہ عدالت نے انصاف نہیں کیا۔ تاہم سچی گواہی کے بغیر نظام عدل نہیں چل سکتا، جھوٹی گواہی دینا اصل ظلم ہے۔
اللہ کا حکم ہے سچی گواہی دو۔اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتاہے پھربھی شہادت مانگی جاتی ہے۔قتل کے دیگرمختلف مقدمات کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اس مقدمے میں حقائق چھپائے گئے ہیںاورپیش کردہ گواہان سچے نہیں۔اوروجہ عنادبھی سامنے نہیں آئی۔اللہ کاحکم ہے سچ کونہ چھپائو، سچ کے لیے گواہ بنو،لیکن ہمارے معاشرے کایہ المیہ ہے کہ کوئی سچاگواہ نہیں بنتا۔ایک اورمقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قتل کے مقدموںمیں رشتہ داروںکوگواہ بناکرجھوٹی کہانیاںبنائی جاتی ہیں۔اگرپولیس نے کسی کوگواہ نہیںبنایاتوعدالت کافرض ہے کہ وہ اسے طلب کرے۔سارانظام عدل پرقائم ہے جب سچ ہی سامنے نہیں آئے گاتوعدل کیسے ہوگا۔جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے جھوٹ بولنے کے بارے میںجوریمارکس دیئے وہ قارئین نے پڑھ لیے ہیں ۔اب یہ دیکھتے ہیں کہ سیاستدان جھوٹ کے بارے میں کیاکہتے ہیں۔سابق صدرآصف علی زرداری کہتے ہیں کہ مشرف اتنے سچے ہیں توعدالتوںکاسامناکریں۔ان کی کمرمیں اتنی تکلیف ہے توپھرڈسکوکیسے کر رہے ہیں۔
شہبازشریف کاکہناہے کہ جھوٹ مت بولو،قسمت خراب نہ کرو،ملک آگے بڑھنے دو۔غلط بیانی سے قوم کی خدمت نہیں ہورہی پنجاب میں دھیلے کی کرپشن نہیں ہوئی۔جھوٹ اوربے بنیادالزامات کی سیاست کرنے والوںکے دن گنے جاچکے ۔شہبازشریف کہتے ہیںکہ جھوٹ بولنے کاورلڈ ریکارڈ بنانے والے سیاستدان قوم کوگمراہ نہیں کرسکتے۔جھوٹ بولنے کاعالمی ریکارڈ قائم کرنے والے سیاستدان نے ہرموقع پریوٹرن لیا۔ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سینئرسیاستدان جاویدہاشمی کاکہناتھا کہ سیاستدانوںکوکھلی کتاب کی طرح ہوناچاہیے۔صادق اورامین کاقانون ضیاء الحق نے اپنے مخالفین کوسیاست سے نکالنے کے لیے بنایا تھا۔
جاوید ہاشمی نے کہاعمران خان سچاآدمی ہے میراان کے ساتھ اختلاف اصولوںکی بنیادپرتھا۔کوئی جج ،جرنیل اورسیاستدان صادق اورامین ہونے کادعویٰ نہیںکرسکتا۔دنیامیں ایک ہی ہستی ہے جوصادق اورامین ہے ۔وہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے۔عمران خان کاکہناتھا کہ جمہوریت میں ایک جھوٹ پراستعفیٰ دیاجاتاہے مگریہاں توجھوٹ نہیں جھوٹ کی بارش ہوگئی۔مگرپھربھی کچھ نہیں ہوا۔جاویدہاشمی کی پریس کانفرنس میں بس اتنی صداقت تھی کہ رقم بڑھائونوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔روات میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار کاکہناتھا کہ میراعلاقہ وفاداروںکاعلاقہ ہے۔یہ علاقہ پاکستان سے محبت کرنے والوںکاعلاقہ ہے۔میںنے کسی کودعوت نہیں دی۔جس محبت سے لوگ اکٹھے ہوئے ہیں میرایمان تازہ اوریقین مضبوط ہوگیا ہے کہ بیان سچ اورانصاف کاساتھ دینے والوںکی تعدادزیادہ ہے۔انہوںنے کہا کہ آج سیاست میں عزت تھوڑی رہ گئی ہے۔سچ اورجھوٹ، حلال اورحرام میںتمیزختم ہوگئی ہے۔ہم گالم گلوچ میں مصروف ہیں۔بیرونی خطرات کی پرواہ نہیں ہے، اندرونی مسائل بھی ہیں۔ان کاکہناتھا کہ اس مٹی میںملک کے لیے وفاق ہے۔ن لیگ کی حکومت آتی ہے توترقی شروع ہوجاتی ہے۔ہسپتال، سی پیک اورسڑکیں بنتی ہیںاورترقیاتی کام ہوتے ہیں، مخالفین آتے ہیں توترقیاتی کام بندہوجاتے ہیں۔چوہدری نثارکہتے ہیں کہ خوشامدکرنے والانہیں سچ کہنے والاہوں حکومتوںکوخوشامدکامچھرکھاگیا۔
حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورعلیہ الصلوة والسلام نے فرمایاکہ سچ بولنانیکی ہے اورنیکی جنت میں لے جاتی ہے اورجھوٹ بولنافسق وفجورہے اورفسق وفجوردوزخ میں لے جاتاہے۔حضرت صفوان بن سلیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورعلیہ الصلوة والسلام سے پوچھاگیا کہ کیامومن بزدل ہوسکتاہے، حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاہاں،پھرعرض کیاگیامومن بخیل ہوسکتاہے فرمایاہاں ،پھرپوچھاگیا مومن کذاب یعنی جھوٹا ہوتاہے فرمایانہیں جھوٹ آخرجھوٹ ہے۔
اس کوجتناچاہے چھپایا جائے ایک نہ ایک دن ظاہرہوہی جاتا ہے۔ہرشخص یہ سمجھتا اورتسلیم کرتاہے کہ جھوٹ بولناگناہ ہے۔جھوٹ ہی تمام برائیوں اورفسادات کی جڑہے۔جھوٹ بولنے سے منہ کی خوشبوبھی جاتی رہتی ہے۔جوشخص جھوٹ پہ جھوٹ بولے اس کامعاشرہ میں وقارختم ہوجاتاہے۔ہر شخص کوجھوٹ سے نفرت ہے۔ جب کہ دنیامیں سب سے زیادہ جھوٹ ہی بولاجاتاہے۔ہم جھوٹ سے نفرت بھی کرتے ہیں اورجھوٹ بولتے بھی ہیں۔ ہمیں صرف اس جھوٹ سے نفرت ہے جوہمارے خلاف بولاجارہاہویاجس جھوٹ سے ہمیں یاہمارے مفادات کانقصان ہورہا ہو۔ہمیں اس جھوٹ پرکوئی اعتراض نہیں ہے جس جھوٹ سے ہماراکوئی نہ کوئی فائدہ ہورہا ہویاجس جھوٹ سے ہم پرکوئی اثرنہ پڑتاہو۔بچپن سے ہی تربیت دی جاتی ہے، گھروں اورسکولوںمیں بچوں کوسمجھایا جاتاہے کہ جھوٹ نہیں بولاکرتے۔ایساصرف زبانی طورپرہوتاہے۔ عملی طورپرجھوٹ بولنے سے روکنانہیں جھوٹ بولناہی سکھایاجاتاہے۔جھوٹ بولنے کازیادہ ترمنفی اثرعدالتوںمیں زیرسماعت مختلف نوعیت کے مقدمات پرپڑتاہے۔جس کی نشاندہی جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے قتل کے مختلف مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے کیا۔جھوٹے مقدمات اورگواہوں کی وجہ سے کئی بے گناہ تختہ دارپرچڑھ جاتے ہیں اورکئی مجرم آزادپھررہے ہوتے ہیں۔جھوٹ بولنے کی وجہ سے ہی انصاف کاقتل ہوجاتاہے۔ججزصاحبان نے مقدمات کافیصلہ گواہوں کے بیانات اوردستاویزی ثبوت دیکھ کرکرناہوتاہے۔گواہ جھوٹ بول جائیں یادستاویزات میں بھی جھوٹ ہوتوفیصلہ کیسے انصاف کے مطابق ہوسکتاہے۔عدالتوںمیں گواہوں سے کہلوایاجاتاہے کہ جوبولوں گاسچ بولوں گا حالاں کہ وہ جوکچھ بھی بول رہا ہوتاہے وہ جھوٹ ہی ہوتاہے۔ہمارے عدالتی نظام میں ایساسسٹم بھی ہوناچاہیے جس سے ججزصاحبان کسی بھی مقدمہ کے حقائق جاننے کے لیے وکلاء اوردیگرعدالتی اورانتظامی عملہ کے بغیرازخودتحقیقات کراسکیں۔ اس مقصدکے لیے خصوصی افرادبھی بھرتی کیے جاسکتے ہیں۔یہ تحقیقات اس طرح خفیہ اورغیرجانبدارانہ ہونی چاہییں کہ فریقین میں سے کسی کوبھی پتہ نہ چلے کہ ان کے کیس کی تحقیقات کون اورکب کررہاہے۔تاکہ وہ موقع کی تحقیقات کوبدلنے یااثراندازہونے کی کوشش نہ کرسکیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایساکرنے سے عدالتوںمیں جھوٹے مقدمات کااندارج بھی کم ہوجائے گااورجھوٹ بولتے وقت بھی یہ خدشہ ضروررہے گا کہ اگرعدالت نے موقع پرجاکرتحقیقات کرالیں اورمیرامقدمہ یامیری گواہی جھوٹ ثابت ہوگئی تویہ بہت بڑی رسوائی کی بات ہوگی ، اس لیے وہ کوشش کرے گا کہ وہ جھوٹ نہ بولے بلکہ عدالت کوسچ سچ بتادے۔عدالتوںمیںجھوٹے مقدمات دائرکرنے والوں کوبھی وہی سزائیں دی جائیں جومقدمات سچ ثابت ہونے پرمدعاعلیہ کودی جانی ہوں۔
اس کے علاوہ عدالت کاوقت ضائع کرنے پرمقدمات کی نوعیت کے اعتبارسے فی مقدمہ دس ہزارسے پانچ لاکھ تک جرمانہ بھی عائدکیاجائے۔کسی کوقتل کے جھوٹے مقدمات میں نامزدکرنے والوںکوعمرقیداوردس لاکھ روپے جرمانہ عائدکیاجائے۔قتل سمیت کسی بھی مقدمہ میںموقع کاگواہ ہونے پرگواہی نہ دینے اورثبوت مٹانے پربھی سزائیں مقررکی جانی چاہییں۔کسی گواہ کوکسی کے خلاف گواہی دینے پرجان سے ماردیے جانے سمیت کوئی بھی خطرہ ہوتواس کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔جھوٹ پکڑنے کے لیے کوئی نہ کوئی تکنیک استعمال کی جائے توبعض اوقات یہ تکنیک بھی کارآمدثابت ہوجاتی ہے۔ہم نے سکول میں کسی کتاب میں پڑھاتھا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس دوعورتیں آئیں ان کے پاس ایک بچہ تھا ہرایک عورت کایہی دعویٰ تھاکہ یہ بچہ اس کاہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے پہلے یہ کوشش کی کہ جس عورت کابچہ نہیں ہے وہ خودہی اقرارکرلے کہ یہ بچہ اس کانہیں بلکہ دوسری عورت کاہے۔جب کوئی بھی عورت اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کوتیارنہ ہوئی توحضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جلادکوحکم دیاکہ اس بچے کے دوٹکڑے کرکے ایک ٹکڑایک عورت کوجب کہ دوسراٹکڑادوسری عورت کے حوالے کردو۔ جلادنے جوں ہی تلوارہوامیں لہرائی توایک عورت توخاموش رہی جب کہ دوسری عورت نے اسی وقت کہا کہ بچے کے ٹکڑے نہ کروبچہ بے شک اس عورت کودے دو۔اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بچہ اسی عورت کے حوالے کردیاجس نے بچے کے ٹکڑے کرنے سے روک دیاتھا۔حضرت علی بچے ٹکڑے کراناہی نہیں چاہتے تھے آپ کرم اللہ وجہہ نے جلادکوبچے کے دوٹکڑے کرنے کاحکم اس لیے دیاتھا تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ بچے کی اصل ماںکون سی عورت ہے کیوں کہ کوئی بھی ماں بچے کوتکلیف میں نہیں دیکھ سکتی ماں یہ کیسے برداشت کرسکتی ہے کہ اس کے جگرکے ٹکڑے کے ٹکڑے کردیے جائیں۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جھوٹ پکڑنے اورسچ تلاش کرنے کے لیے بچے کوٹکڑے کرنے کاحکم دے کرتکنیک استعمال کی۔
ہم دودھ میں پانی ملاکرخالص دودھ بیچتے ہیں،اصلی لیبل لگاکرجعلی برانڈ فروخت کرتے ہیں۔ایک جھوٹ کوچھپانے کے لیے درجنوں اورجھوٹ بول دیتے ہیں۔ یہ توسب جانتے اورمانتے ہیں کہ جھوٹ بولنااچھانہیں ہے۔ہمارے معاشرے میں جھوٹ بولنے پرمجبوربھی کیاجاتاہے۔اگرکوئی دکاندارایمانداری سے کہے کہ اس نے سیب ایک سوروپے کلوخریدے ہیں اوردس روپے نفع کے ساتھ ایک سودس روپے فی کلوگرام دوں گاتوگاہک اس سے کہتا ہے کہ ایک کلوگرام سیب دے دواورنوے روپے لے لو۔اس کے علاوہ بھی بہت سے مواقع پرانسان جھوٹ بولنے پرمجبورہوجاتاہے۔ہمیں لیہ سے ملتان جانے کااتفاق ہوا۔ہم لیہ واپس آنے کے لیے اڈہ پرآئے توآخری ہائی ایس تیارکھڑی تھی۔ ہم کرایہ پوچھ کراس میں سوارہوگئے ،راستے میں جن کنڈیکٹرنے کرایہ مانگاتوہم نے مقررہ کرایہ سے بیس روپے کم دیے۔کنڈیکٹرنے کہا بیس روپے کم ہیں ،ہم نے کہاکہ رکشہ کاکرایہ دینا ہے اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے ،کنڈیکٹرنے کہا کہ رکشہ پہ میںبٹھادوںگا، ہم نے اس پراعتمادکرتے ہوئے بیس روپے بھی اس کے حوالے کردیے۔جس وقت لیہ آئے توہم نے کہاکہ وعدہ کے مطابق ہمیں رکشہ میں بٹھائوتوکنڈیکٹرنے کہا کہ خودچلے جائومیںکیوںبٹھائوں۔یہ سچ بولنے کانتیجہ ہے۔ جھوٹ کوپکڑنے کے لیے موبائل سموں کی ملک بھرمیں دوبارہ تصدیق کرائی گئی۔جھوٹ پکڑنے کے لیے ہی بائیومیٹرک سسٹم لایاگیا۔جھوٹ پکڑنے اورسچ تلاش کرنے کے لیے لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں۔جھوٹ پکڑنے کے لیے ہی آن لائن سسٹم لایاجارہا ہے۔اورتواورجھوٹ پکڑنے کی مشین بھی آگئی ہے۔جھوٹ ہے کہ بڑھتاہی جارہا ہے۔سیاستدانوں کاجھوٹ سے کیاتعلق ہے یہ لکھنے اوربتانے کی ضرورت نہیں یہ سب پاکستانی اچھی طرح جانتے ہیں ہم صرف اتنابتادیتے ہیں کہ جھوٹ بولنے یااپنابیان بدلنے کوسیاست لی لغت میں یوٹرن کہتے ہیں۔
ویسے توجھوٹ بولناناجائز اورحرام ہے ، ایسے مواقع بھی ہیں جہاں جھوٹ بولناجائزہے،کتاب جتنی زیورکے صفحہ ٨٠ پرکب اورکون ساجھوٹ جائزہے کہ عنوان کے تحت لکھا ہے کہ کافریاظالم سے اپنی جان بچانے کے لیے یادومسلمانوںکوجنگ سے بچانے اورصلح کرانے کے لیے اگرکوئی جھوٹی بات بول دے توشریعت نے اس کی رخصت دی ہے۔مگرجہاں تک ہوسکے ایسے موقع پرایسی بات یاالفاظ کہے جوکھلاہواجھوٹ نہ ہو۔بلکہ کسی نہ کسی طرح وہ بھی سچ ہو۔ہمیں خودبھی جھوٹ سے بچناچاہیے اوراپنے ماتحت افرادکوبھی جھوٹ سے بچاناچاہیے کیوں کہ جھوٹاہونے کے لیے اتناہی کافی ہے کہ سنی سنائی بات آگے کہہ دی جائے۔جھوٹ بولنے کے جوفائدے ہیں وہ سب جانتے ہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔جب سے موبائل آیا ہے جھوٹ بولناآسان اور عام ہو گیا ہے۔