جھوٹ، خیانت، وعدہ خلافی اور اس کے ساتھ ساتھ بد گوئی حدیث میں منافق کے یہ چار” اوصاف” بیان ہوئے ہیں جن سے ہم ایک فرد سے لیکر معاشرے اور ذات سے لیکر کائنات تک کی ہر ایک چیز کا باطن باآسانی کھوج اور کھود کر اس کے حال پر مطلع ہوسکتے ہیں (ضروری نہیں کہ بندہ صاحبِ حال ہو، معمولی سا فہم بھی کافی ہے)۔ عدل کا تقاضا، خرد مندوں کی روش اور راست قدم بھی یہی ہے کہ مقام اور کھوج میں سدا راست تناسب برقرار رہے۔ یعنی جتنا بڑا عہدہ اتنی بڑی کھوج۔ باالفاظِ د یگر مقام اور حسنِ ظن میں یہ تعلق بالعکس رہنا چاہئے۔ لیکن افسوس اس شہرِ آسیب کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں معمولی معمولی باتوں پر بال ہی کی کیا۔ انسان تک کی کھال اکثر اتار لی جاتی ہے لیکن بڑے اور اجتماعی معاملات اور بڑے مقامات پر حسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے ،سب اچھا ہو جانے کی امید رکھی جاتی ہے۔ جبھی تو اکثر اوقات یہ خوش گمانی ، خام خیالی ثابت ہو تی ہے اور حالات پہلے سے کہیں زیادہ مخدوش ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں کے اکثر”قائدین” پر نظر کیجئے، آپ بھی میرے اس نقطہ نظر کے قائل ہو جائیں گے کہ انکے حوالے سے ہمارا حسنِ ظن، تخمین و ظن کے سبھی رائج الوقت پیمانوں کو کب کا مات دے چکا۔ اسلام تقلید کا جس قدر قائل ہے اس سے کہیں بڑھ کر اندھی تقلید کا مخالف بھی ہے۔ یہ روش ثابت کرتی ہے کہ ہمیں رہبروں کے حوالے سے خوش گمانی سے بہر طورا جتناب برتنا چاہیئے۔
قومی تاریخ کا یہ پہلو ہم نے بہت نمایاں دیکھا ہے کہ یہاں کھوٹے سکے چلے اور یوں چلے کہ چلتے چلے گئے۔ ہماری خوش فہمی یا غلط فہمی ملاحظہ ہو کہ ہم نے ایسے سکوں کو بار بار اٹھایا، ہتھیلی پہ سجایا، آنکھوں سے لگایا، سر پر بٹھایا جنہیں ٹھوکروں میں اڑانا چاہئے تھا۔ اول تو انتخابات ہی کبھی شفاف نہیں ہوتے اور کبھی تو سرے سے ہوتے ہی نہیں ۔بفرضِ محال ہو بھی جائیں تو کون سا ہم اچھے، اپنے جیسے اور اپنے طبقے کے لوگوں کو آگے آنے دیتے ہیں (اوپر سے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس انتخابی چھلنی سے شرافت اور دیانت چھان لی جاتی ہے اور وہ مواد باہر آتا ہے جس میںبے ضمیری کی پیپ شامل ہو تی ہے۔) ۔کیا المیہ ہے کہ ہم اچھے لوگوں کو دھکے دیتے ہیں اور ان گرتی دیواروں کو ووٹ کہ جنہوں نے بعد میں خود ہم پر مصیبت بن کر بلائے ناگہانی کی طرح نازل ہونا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ ہی روزمیں ہم نئی حکومت کا رونا رو اور سابقہ حکومت کے گن گا ر ہے ہوتے ہیں۔ میری ایک سوچی سمجھی ہوئی رائے ہے کہ حکومت کرنے کے لئے تجربے کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی جتنی خالص جذبے کی ضرورت ہوتی ہے (ہماری تجربہ کار حکومت کی کارکردگی تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں)۔ جذبے صادق ہوں اور ذوقِ یقیںہ مرکاب تو مصائب و مشکلات کی تمام زنجیریں کچے دھاگے کی طرح ٹوٹتی چلی جاتی ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں پر نظر کیجئے ۔بادشاہ ہوا کرتے تھے، بہت حد تک ایک آمر۔ مگر ان میں اتنی جمہوری سوچ تو بہرحال ضرور ہوتی تھی کہ وہ ہوا کو رخ بھانپتے ہوئے رائے عامہ کے کچھ فیصلوں کو بسرو چشم تسلیم کر لیں۔
Public
آپ نے پڑھا ہوگا کہ جب جب کسی علاقے کی عوام کا اعتماد اپنے مقامی حکمرانوں پر سے رخصت ہوتا تو وہ انہیں فی الفور انکے عہدے سے معزول کر دیتے اور اپنے پاس مرکز میں بلوا لیا کرتے۔ ایسا کبھی نہیں کہ جسے اس کے عہدے سے ہٹا دیا کرتے اسے پھر کبھی اس علاقے میں تعینات نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ کے لئے معزول کر دیتے یااگر بات قابلِ گرفت نہ ہوتی تو سرزنش کے بعد کسی اور علاقے میں بھیج دیا کرتے ۔یہی وجہ ہے کہ عوامی اعتماد حاصل کرتے ہوئے وہ طویل عرصہ کامیابی کے ساتھ حکمران رہتے۔ ( مطمئن رعایا کبھی بیرونی امداد کے لئے کوئی امید رکھتی تھی نہ کسی کو بلوانے کی سبیل کرتی )۔ ماضی کی وسیع و عریض مملکتیں اور حکومتیں اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بادشاہی کے گر میں جتنا وہ ماہر تھے اور بلند مقام کے حامل تھے، آج کے حکمرانوںاس کی گردِ پاہ کو بھی نہیں چھو سکتے۔ جس سے یہ تاثر تقویت پکڑتا ہے کہ جو پہلی بار” ڈلیور ” نہ کر پائے اور عوام کا اعتماد کھو دے اس کی اگلی ہر” ڈیلوری” پچھلی سے بد تر ہوتی ہے اور اس کا ہم سے بڑھ کر اور کسے اندازہ ہوگا۔
اس تاریخی حقیقت کے برعکس اپنے ہاں کا المیہ مکرر عرض ہے کہ یہاں کھوٹے سکے با ر بار چلے اتنے کہ جیسے انہیں ووٹ دینے والوں کا دماغ چل گیا ہو ۔دینے والوں کادماغ نہ بھی چلا ہو تو یہ ضرور ہے کہ ووٹ لینے والوں کا داؤ اور چکر ضرور چل جاتا ہے۔ جبھی تو کھوٹے سکے کے دونوں رخ بار بار آئے اور عوام کی آرزؤں ،خواہشوں اور خوابوں کے سر پر خاک ڈالنے کے سوا کچھ بھی نہ کر پائے ۔ناجانے کتنے وعدے کئے۔ اتنے کہ نہ کرنے والوں کو یادر ہے نہ سننے والوں کو۔ اب تبدیلی کے نام پر ایک نئی جماعت میدانِ عمل میں ہے۔ اگر وہ اسم بامسمیٰ ثابت نہ ہوئی (خدا نہ کرے) تو مجھے یقین ہے یہ ان دونوں جماعتوں سے کہیں زیادہ اس ملک کے لئے ضرر رساں ثابت ہو گی (کہ توقعات سونامی سے کہیں بڑھ کر ہیں ) آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا ”جیسی بات قوم کا اعتماد کسی بھی پارٹی سے ہمیشہ کے لئے رخصت کر دے گی۔اعتماد نہ رہے تو رشتے سلامتی کے فرشتے بھی بچا نہیں پاتے۔
اوپر جو خواص منافقوں کے بیان ہوئے ہیں کیا ہماری تمام سیاسی جماعتیں اور ا ن لیڈران اس کی حامل نہیں ہیں۔ جھوٹ بولنا، عوام کے” ووٹ ”سے ملے اختیار سے تجاوز اور غلط جگہ استعمال کر کے خیانت کرنا، ایفائے عہد نہ کرنا اور بدخلقی کرنا کیا یہ و ہ خو بیاں نہیں جسے قوم کا بچہ بچہ نہ ہو ۔پھر بھی ایسوں کے لئے ایسی خوش گمانی کیا جان بوجھ کر مکھی نگلنے کے مترادف نہیں؟ لیڈران کو جانے دیجئے، ہم خود بحیثیت مجموعی کیا ان سب ”خوبیوں ” کے مالک نہیں۔ تو کیا” جیسی روح ویسے فرشتے ”والی بات ہم سب پر صادق نہیں آتی ۔ہم ،جو اپنے اندر ایک انچ بھی تبدیلی نہیں لاتے اور باہر ”سونامی ” کی امید رکھتے ہیں، کیا کچھ کم قصور وار ہیں؟ ہے ناخدا کا میری تباہی سے واسطہ میں جانتا ہوں نیت ِ دریا بری نہیں
کیا اپنی کشتی کے ناخدا ہم خود نہیںہیں۔ آج اگر ہم اپنی کشتی کو بھنور میں پاتے ہیں تو کیا ہم دریا کی نیت کو برا کہہ کر گلو خلاصی کر سکتے ہیں۔ وہ کون سی برائی ہے جسے ہم برا نہ جانتے ہوں اور اس میں بذ ات خود ملوث نہ ہوں۔ ہمارے لکھنے والے ہمیں کتنا” مس گائیڈ” کرتے ہیں۔ ہمیں کہتے رہے کہ حکومت کے لئے تجربہ کاری ضروری ہے۔ قوم تجربہ کار لکھاریوں کے طفیل ایک اور ”کاری” وار سہنے کی کوشش میں ہیں ۔یہی سچ ہے، ہاںیہی سچ کہ حکومت کے لئے تجربے کی نہیں خلوصِ نیت اور سچے جذبے کی ضرورت ہو تی ہے۔اور سیکھنے کے لئے تو ذاتی تجربہ بھی ضروری نہیں کہ عبرت کے واقعات جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ”عبرت کے مقامات جتنے زیادہ ہیں، عبرت حاصل کرنے والے اتنے ہی کم’۔ اس کام کے لئے کہیں دور جانے کی بھی ضرورت نہیں۔
آئیں خود کو کھوجتے اور خود کو ڈھونڈتے ہیں۔ اپنی تبدیلی سے اس کا آغاز کرتے ہیں۔ اپنی ذات سے اس نیک کام کی شروعات بہترین حکمت عملی ہوگی۔ دوسروں سے شکوہ کرتے اور انہیں ان کے وعدے یاد دلانے میں اپنی عمر گنوا دینے سے یہ زیادہ بہتر اور بامعنی ہوگا کہ ہم اپنے رب سے کیا گیا اپنا وعدہ (یوم ِ الست والا) یاد کریں اور اپنا جائزہ لیکر خود کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ” کس لئے آئے تھے کیا کر چلے ”۔ صرف سمجھانے کی ہی نہیں خود کو وعدہ خلافی سے بچانے کی بھی کوشش۔ ایک سنجیدہ کوشش ۔جبکہ دوسرے مرحلے میں اچھے لوگوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔ یہ جانتے مانتے ہوئے کہ ایک صالح قیادت صالح لوگ کی کاوشوں سے ہی سامنے آتی ہے۔