وہ لوگ ہمیشہ سے میرے آئیڈیل ہیں جورجائیت کے علمبردار ہیں اور زندگی کو اس کی ساری رعنائیوں کے ساتھ بسر کرتے ہیں ۔فکری لحاظ سے پژمردگی ، یاسیت اور نا امیدی میرے لئے شجر ممنوعہ ہے ۔ انسانوں کی تکریم ، ان کی عزت اور و وقار میری گھٹی میں ہے لہذا میرے لئے جوہرِ تکریم سے صرفِ نظر کرناممکن نہیں ہے ۔ میری زندگی کے شب و روز اس بات کی گواہی دینے کیلئے کافی ہیں کہ میں نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور سبز ہلالی پرچم کو سربلند رکھا ۔دیارِ غیر میں اپنے ہم وطنوں کیلئے کارِ خیر میں حصہ لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو تا ہے لیکن اپنی بساط کے مطابق میں نے اسے انتہائی احسن طریق سے سر انجام دیاتو تب کہیں جا کر کمیونیٹی میں عزت و توقیر کا حقدار ٹھہرا۔ رب کی رضا شاملِ حال ہو جائے توایسے مشکل مراحل طے ہو سکتے ہیں وگرنہ صورتِ دیگر انسان تنہائی کا اسیر ہو کر اس جہانِ فانی سے گزر جاتا ہے اور کوئی اس کا نام لیوا نہیں ہوتا۔ دیارِغیر میں انعام الحق،عمر یوسف، میاں منیر ہانس ،نذیر پہنور ، ڈاکٹر امجد،راجہ محمد احمد ،چوہدری جاوید،بابر جیسے دوستوں کی سنگت نے خدمت کے لازوال جذبوں کو اور بھی شعلہ جوالہ بنا دیا تھا۔ غالب نے تو انسانی بے حسی کو اپنے ہی رنگ میں بیان کیا تھا جب اس نے کہا تھا کہ (کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل ۔،۔ انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں )لیکن وہ لوگ جن کے دل انسانی خدمت کی آماجگاہ ہوتے ہیں وہ گردشِ مدام سے گھبرانے کی بجائے انہی گردشوں سے نیا جہاں تراشتے ہیں ۔ایسے لوگ حسنِ جہاں ہوتے ہیں لہذا ان کے منظر سے ہٹ جانے سے دنیا کی دلکشی میں خلل آ جاتا ہے۔یہ سچ ہے کہ کوئی کتنا بھی نا گزیر ہو اس کے جانے سے معاملاتِ دنیا نہیں رکتے اور کاروانِ حیات اپنی رفتار سے رواں دواں رہتا ہے لیکن عظیم ہستیوں کی کمی ہر آن محسوس ہوتی ہے۔ قائدِ اعظم ،قائدِ عوام اور علامہ اقبال آج بھی عوام کی دھڑکنوں میں زندہ ہیں۔کسی کیلئے ان کی لازوال محبت اور غیر معمولی بصیرت کو فراموش کرنا ممکن نہیں ۔عوام الناس کی محبت انھیں سدا صدائیں دیتی اور ان سے دلی محبت کا اعلان کرتی رہتی ہے ۔اسی لئے تو شاعر کو کہنا پڑا تھا۔(یہ لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے لوگوں کے ۔، ۔ میں کس سے بات کروں کہاں سے لائوں اسے)۔،۔
دھوپ چھائوں کا دلچسپ کھیل انسان کی زندگی کے ساتھ انجام پذیرہوتا ہے لیکن انسان پھر بھی گردو پیش سے بے خبر اپنی ہی دنیا میں مگن رہتا ہے ۔ ا س کا ذہنِ نارسا اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہو تا ہے کہ انسانی اعمال ہی انسان کی عظمت،بڑھائی اور اس کی تکریم کی بنیاد ہوتے ہیں۔دوسروں کی خوشیوں کی خاطر اپنی خوشیوں کو تیاگنا اور ایثا رو قربانی کا پیکربننا انتہائی مشکل مرحلہ ہو تا ہے جس کیلئے صبر، برداشت اور وسیع القلبی کی ضرورت ہو تی ہے جو کہ معدودے چند لوگوں کو عطا ہوتی ہے لیکن جن کو عطا ہو جاتی ہے وہ اعلانِ عام کر دیتے ہیں کہ (میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں ۔،۔ غلغلہ ہائے الاماں بت کدہ صفات میں) ۔جس طرح انجیر ہر پرندے کی غذا نہیں ہوتی اسی طرح انسانیت کا درد محسوس کرنا بھی ہر پیکرِ خاکی کی بساط میں نہیں ہوتا۔اپنی ذات کے حصار میں مقید ہونا اورخود ستائی کی بیماری کا شکار ہونا آج کل کا چلن ِ عام ہے جس سے انسانیت شدید نقصان جھیل رہی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسے چلن کی بنیاد رکھی جائے جس میں دوسروں کی ذات ارفع و اعلی قرار پائے اور ان کی حاجت روائی سب کا مشترکہ مقصد ہو ۔ ہر کوئی من و تو کی تکرار و تفریق سے بالا تر ہو جائے تا کہ پیکرِ خاکی انسان کہلانے کا حقدار بن جائے اور ہر فرد کی تکریم پوری انسانیت کی تکریم تصورہو ۔یہ کارِ محال ہے لیکن اس پر عمل پیرائی ہی انسانی سکون اور طمانیت کی ضمانت دے سکتی ہے ۔تکریمِ انسانی، برابری اور عزت و وقار کے بغیر یہ کائنات کاغذ کی نائو ہے جسے طوفانی لہروں میں غرق ہو جانا ہے۔یہ ایک ہی صورت میں ساحلِ مراد سے ہمکنار ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی ذات کی نفی کر کے کائنات کے مالک کی رضا کی غلام بن جائے۔دیکھئے اقبال کیا کہتا ہے؟(خاکی و نوری نہاد بندہ َ مولا صفات ۔،۔ ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز )۔،۔
ہمارا معاشرہ احسان فراموش معاشرہ ہے،لہذمفاد بدلتا ہے تو محبت کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے۔خونی رشتے صفِ دشمناں میں چلے جاتے ہیں۔جن کیلئے خونِ دل دیا ہوتا ہے وہی منہ کو آتے ہیں ۔بقولِ شاعر (خونِ جگر پلایا تھا جس کو تمام عمر ۔،۔ اسی سنگدل کے ہاتھوں مٹایا گیا ہوں میں) والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔لوگ نفع و نقصان کی میزان میں اپنے محسنوں کو تولتے ہیں۔ان پر محتسب بننے کی کوشش کرتے ہیں ، بھول جاتے ہیں کہ جب وہ چاروں طرف سے طوفانوں میں گرے ہوئے تھے تو وہ کون تھے جو ان کی مدد کو اپنا فرضِ اولین سمجھتے تھے؟انھیں ابتلائو و مصائب کی گھڑیوں میں احسانات کی بارشیں بھول جاتی ہیں ۔ انھیں یاد نہیں رہتا کہ جب وہ طفلِ سادہ تھے تو انگلی پکڑ کر انھیں چلنا کس نے سکھایا تھا ؟ دنیاوی حر ص و طمع کی منڈی میں وہ ہر شہ کی قیمتیں لگانے لگ جاتے ہیں حالانکہ جذبوں کی قیمت نہیں لگائی جا تی۔در اصل جب بھی کسی کے من میں میل اور کھوٹ در آتا ہے تو دنیا داری اس کا مطمعِ نظر بن جاتا ہے جس سے وہ نیکی اور احسان کے معنی بھول جاتا ہے۔
مفاد پرست انسان دنیا کی جاذبیت،اس کی کشش اور مال و دولت سمیٹنے کی ہوس میں اتنا کھو جاتا ہے کہ اسے حیات و ممات کے فلسفہ کی سمجھ نہیں آتی۔خیر اور شرمیں تمیز نہیں رہتی ۔ جائز و ناجائز کی حد بندی بھول جاتی ہے ، حلال و حرام کا احساس مٹ جاتا ہے ۔ سب کچھ ہماری نگاہوں کے سامنے رونما ہوتا ہے لیکن ہم بے بسی سے سب کچھ دیکھتے جاتے ہیں ۔کوئی کسی کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکنے کا فرض ادا نہیں کرتا شائدیہی اس دور کی مجبوری ہے ۔ارشادِ خدا وندی ہے کہ (انسان خسارے میں ہے ) لیکن انسان اس تنذیر کو بھی در خورِ اعتنا نہیں سمجھ رہا۔انسان لال و زرو جواہر اور دولت کی فراوانی سے اپنی عظمت کا داعی بننے کی ٹھان چکا ہے جو فریبِ نظر کے سوا کچھ بھی نہیں۔عظمت ہمیشہ کردار سے جنم لیتی ہے لیکن اکثر کو اس کا ادراک نہیں ہوتا ۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو انسانی توجہ کا منتظر ہے اور اہلِ نظر کو اس پر تحقیقق کرنے کی ضرورت ہے۔رنگ بدلتے معاشرے کے بارے میں اقبال کی پیشنگوئی ۔،۔
(دگرگوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی۔،۔ دلِ ہر ذرہ میں غوغائے رستہ خیز ہے ساقی)۔،۔( متاعِ دین و دنیا لٹ گئی اللہ والوں کی ۔،۔ یہ کس کافر ادا کا غمزہ ِ خون ریز ہے ساقی۔)
اس وقت ہمارا معاشرہ بگاڑ اور تبدیلوں کا شاخسانہ بنا ہوا ہے۔اس کی قدریں،پیمانے ،اصول اور ضابطے بدل چکے ہیں۔رشتوں کی اہمیت عنقا ہو چکی ہے ۔ذاتی طمع اور حر ص وہوس نے رشتوں کے تقدس کو پاما ل کردیا ہے۔معاشرتی بندھن ٹوٹ کے بکھر چکے ہیں۔انسان سے انسان کی وارفتگی دم توڑ رہی ہے۔خاندانی یونٹ تنکوں کی طرح بکھررہا ہے ۔ایثار کا دلکش شجر سوکھ رہا ہے ۔کردار کی عظمت میزانِ وقت سے رخصت ہو رہی ہے۔حسد،،بغض ،کینہ،بدعہدی سکہ رایج الوقت ہے ۔ایثارو قربانی جیسے الفاظ متروک ہوتے جا رہے ہیں۔لہو کے رشتے دشمنی پر اترے ہوئے ہیں۔
والدین کا احترام اور وقار دم توڑتا جا رہا ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ انسان والدین کے حکم پر زندگی کے اہم فیصلے کرتا تھا ،سودو زیاں کو جھیلتا تھا لیکن والدین کی حکم عدولی کی جرات نہیں کرتاتھا۔ اپنے والدین کی خوشیوں کی خاطر بہن بھائیوں پر بے دریغ دولت لٹا تا تھا ، ان کے ناز نخرے اور ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاتا تھا ۔خاندانی وقار کیلئے اپنی اولاد کی خوشیوں کو بھی پسِ پشت ڈال دیتاتھا تا کہ خاندان کے وقار پر حرف نہ آئے۔ دنیا اب نئی صورت گری کی عادی ہو رہی ہے ۔ انسان اپنے ہم نفسوں سے دوری اور فاصلوں میں زندہ رہنا چاہتا ۔تنہائی اور بے اعتناعی اس کی ضرورت ہے لہذا اسے ہم نفسوں کی محفل ،موجودگی، میل ملاپ اورصحبت سزا لگتی ہے ۔غالب نے اس ساری کیفیت کو کئی صدیاں پہلے بیان کر دیا تھا (رہیے ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو۔،۔ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو)۔،۔(بے درو دیوار سا اک گھر بنایا چائیے ۔،۔ کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو)۔،۔