تحریر : انجم صحرائی زند گی بارے انگریزی کی ایک مشہور کہا وت ہے کہ “Life is a dream for the wise, a game for the fool, a comedy for the rich, a tragedy for the poor.” یعنی زند گی ایک خواب ہے احمق کے لئے ایک ایک کھیل امیر کے لئے ایک مزا حیہ اور غریبوں کے لئے ایک المیہ ہے لیکن اسلام کا فلسفہ زند گی انگریزی کی اس کہاوت کے با لکل برعکس ہے اسلامی نظریہ حیات میں نہ تو زند گی خواب ہے اور نہ ہی کھیل ہے اور نہ ہی مذاق۔ نہ ہی مزاح ہے اور نہ ہی المیہ بلکہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور زند گی ایک امتحان اور اسی امتحان میں کا میا بی سے ہی ہماری دائمی زندگی کی حیثیت کا فیصلہ ہو گا کہ ہماری وہ لا فا نی زندگی اک خواب کی سی ہو گی یا پھر ایک المیہ۔ اللہ کریم ہمیں اپنے فضل سے نوازے کہ بس یہ فضل کا را ستہ ہی کامیاب زند گی کا را ستہ ہے۔ لیکن دو ستو زند گی تو گزارنا ہی پڑتی ہے اگر کو ئی نہ بھی گذارے تب بھی زند گی اپنا سفر اپنے وقت مقررہ پر مکمل کر کے منزل حقیقی تک جا پہنچتی ہے اب ہم بھی سو ئے منزل ہیں اور منزل بڑی قریب مگر بھول بلیوں میں گم ۔ نا معلوم کب اچا نک منزل کا پتھر سا منے آجا ئے اور پھر سا را منظر تبدیل ہو جا ئے کہ جب منزل آ جا تی ہے تو جذبات و احساسات اور کیفیات کے سبھی منظر بدل جا تے ہیں ۔ شب و روز زند گی کے نام سے میں آج کا یہ کالم ان عظیم مہان شخصیتوں کے نام کر رہا ہوں جن نا بغہ روزگار شخصیات سے ملنے اور جن سے کسب فیض حا صل کر نے کا مجھے زند گی میں ملنے کا مو قع ملا جنہوں نے میری بے آب و گیاہ زند گی میں علم و ادب اور فکرو شعور کے چراغ رو شن کئے ۔ جن لو گوں سے میں نے سیکھا ، جنہوں نے اپنے طرز عمل اور رویے سے مجھے سکھا یا اور جن گمنام لوگوں نے بے وجہ مجھے اپنی محبتوں میں حصہ دار بنایا۔
بہت سے ایسے لوگ جو آپ کی زندگی میں چند لمحوں کے لئے آ تے ہیں اور پوری زندگی کو تسخیر کر جا تے ہیں میں ایسے ہی قیمتی کرداروں کو یاد کرنے جا رہا ہوں جن کا بظا ہر میری زند گی میںکو ئی کردار نہیں مگر ان یا دوں کو زندگی کی کتاب سے نکال دیا جا ئے تو دامن میں کچھ بھی نہیں بچتا۔ یہ میرے ابتدا ئی زما نے کی بات کی ہے ابھی میری مسیں بھیگ رہی تھیں جب میں لیہ آشنا ہوا اس دور میں لیہ سے شا ئع ہو نے والے واحد ہفت روزہ اخبار سنگ میل کا دفتر پرانی سبزی منڈی میں ایک دوکان میں ہوا کرتا تھا ۔ سنگ میل کے ایڈ یٹر اور پبلشر ایم آر رو حانی سے میری پہلی ملا قات یہیں ہو ہی مجھے یاد ہے جب میں ان سے ملا اس وقت ایک کا تب جن کا نام غالباجمیل بہار تھا اخبار کی کتابت میں مصروف تھے ۔ بعد میں ایم آر روحانی ملتان شفٹ ہو گئے جہاں سے انہوں نے اپنے ہفت روزہ اخبار سنگ میل کو روزنا مہ اخبار کی حیثیت سے شا ئع کرنا شروع کر دیا ۔ روزنامہ سنگ میل ملتان کے ابتدا ئی زمانے میں میں اخبار کا آفس حسن پروانہ کالونی ملتان کے جس چوبارہ میں قا ئم کیا گیا اسی چو بارہ کے ایک حصہ میں جلال ربا نی کے اخبار ہفت روزہ عدل کا دفتر بھی تھا کچھ عرصے کے بعد جب مجھے تھوڑے سے عر صے کے لئے روزنامہ سنگ میل میں کام کر نے کا مو قع ملا اس وقت جلال ربا نی سے بھی میری ملا قات رہی بعد میں ہفت روزہ عدل بھی روزنامہ اخبار بن گیا ۔سنگ میل کے بانی ایم آر روحانی ایک انتہا ئی مشفق اور نفیس شخصیت تھے ا گر یہ کہا جا ئے کہ لیہ میں صحا فتی سر گر میوں کے با نیوں میں سے تھے تو شا ئد غلط نہ ہو گا ایم آر روحا نی اور سنگ میل نے لیہ میں صحا فتی آ گہی کے لئے بڑا مو ثر کردار ادا کیا ۔سنگ میل سے ہی وابستگی کے زمانے میں مجھے صادق جعفری ،ایم شکور ، فیروز ندیم اور استاد مسرور جیسے صحا فتی کا رکنوں سے بھی سیکھنے کا مو قع ملا ، یہاں میں ذکر کرتا چلوں کہ میرا سب سے آ رٹیکل ملتان کے ہفت روزہ اخبار پنجاب میں شا ئع ہوا یہ ایک علا قائی مسائل پر مبنی ایک رپورٹ تھی۔
میں نے یہ رپورٹ ڈاک کے ذر یعے بھیجی تھی ۔ چند دنوں کے بعد ہی مجھے اخبار پنجاب کا وہ شمارہ جس میں میری وہ رپورٹ شا ئع ہو ئی تھی مجھے بذ ر یعہ ڈاک مو صول ہوا لیہ ۔ ا نہی دنوں مجھے اخبار پنجاب کے ایڈ یٹر فیا ض لو دھی سے بھی ملنے کا اعزاز حا صل ہوا ۔ اخبار پنجاب کا چوک شا ہین مارکیٹ میں رائل ہو ٹل بلڈنگ کے کمرے میں ہوا کرتا تھا یہ ذکر چار عشروں قبل کا ہے ان گذ رے چالیس بر سوں میںیہ چوک میں اپنا ما ضی کھو بیٹھاہے ۔ فیا ض لو دھی اب بھی ملتے ہیں جب بھی ملتان جا نا ہو شیر پنجاب کے دفتر میں سعیداللہ درانی کے پا س ان سے ملا قات ہو ہی جا تی ہے ، ۔ روز نا مہ امروز کا دفتر ڈیرہ اڈہ ملتان میں ہوا کرتا تھا ان دنوں روزنامہ امروز کے ریذ یڈنٹ ایڈ یٹر مسعود اشعر ہوا کرتے تھے ان کے بعد اقبال سا غر صدیقی امروز کے ریذ یڈنٹ ایڈ یٹر بنے مجھے ان دو نوں شخصیتوں سے ملنے کا مو قع ملا مسعود اشعر سے تو ان کے آفس میں مختصر سی ملاقات رہی البتہ اقبال سا غر صدیقی سے خا صی یاد اللہ رہی صدیقی مر حوم نے میری ایک کتاب کی تقریب رو نما ئی میں صدارت بھی کی بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہو رہی تھی لیہ اور لیہ والوں کی۔
Nawa Thal
میں لیہ کے جس اخبار سے سب سے پہلے باضابطہ وابستہ ہوا وہ ہفت روزہ نوائے تھل ہے عبدالحکیم شوق جوان دنوں روزنا مہ امروز ملتان سے وابستہ تھے کی زیر ادارت شا ئع ہو نے والے اس ویکلی اخبار نے بھ لیہ میں صحا فیوں کی ایک نسل تیار کی ۔ ارمان عثمانی ، غا فل کر نالی ، مطلوب قریشی ، عر شی مفتی ، خاور تھلو چی اور فیاض قادری جیسے لوگ نوائے تھل سے وابستہ رہے ۔ سنگ میل کے ملتان شفٹ ہونے کے بعد لیہ سے ہفت روزہ نوائے تھل کی اشا عت نے میدان صحا فت میں علا قائی مسائل کو اجا گر کر نے اور نسل نو کو تحریری صلا حیتیوں سے رو شناش کرانے میں ایک بڑا کردار ادا کیا ان دنوں نوائے تھل کا دفتر صدر بازار کے جنوبی سر ے پرقائم ایک شوز شا پ کے اوپر بنے چو با رے میں ہو تا تھا ۔ جو توں کی یہ دکان سینئر صحا فی عبد الحمید سلیمی کی تھی جب مجھے پہلی بار نوائے تھل کے دفتر میں جا نے کا اتفاق ہوا ، بھکر کے شمشاد نظر اخبار کی کتا بت کیا کرتے تھے اور اخبار سید پرنٹنگ پریس ملتان سے شا ئع ہوا کراتا تھا ۔ میں اخبار کی خبر بنا نا ، سر خی نکا لنا اور قینچی سے بٹر پیپر پر لکھا ہوا کالم کاٹ کر اخبار کا کا پی کی پیسٹنگ کر نا نوائے تھل کے دفتر میں ہی سیکھا ۔ نوا ئے تھل وہ پہلا اخبار ہے جس میں ادارہ نوا ئے تھل سے سے وابستگی کا تصویر کے سا تھ ا شتہار چھپا۔ ان دنوں علا قا ئی صحا فت میںتحقیقاتی جر نلزم کا اتنا رواج نہیں تھا زیا دہ ترچہرہ دیکھ کر ٹیبل سٹوریاں لکھی جا تی تھیں سو ہم نے اس ہنر میں بھی کمال حا صل کیا مگر یہ ہنر ہمارے کسی کام نہیں آ یا وہ اس طرھ کہ جب ہم تلا ش روزگار کے لئے لیہ بدر ہو ئے تو ہمارے دامن میں انہی ٹیبل سٹوریوں کے سوا کچھ نہیں تھے ان دنوں لا ہور سے منیر احمد نے آتش فشاں نام سے ایک میگز ین نکا لا تھا ہم گھو متے گھما تے ایبٹ آ باد روڈ پر واقع ایک سینما کے سیکنڈ فلور پر واقع ان کے دفتر جا پہنچے ان سے ملاقات ہو ئی آ نے کا مدعا بیان کیا اور بتا یا کہ ہم لیہ سے آ ئے ہیں اور وہاں ہم نے صحا فت میں بڑا نام کما یا ہے انہوں نے پو چھا کیا کچھ لکھا تو ہم نے اپنے بستے سے وہ سا ری خبریں نکا لی جو ہم نے ٹیبل پہ بیٹھ کر گھڑی تھیں اور ہم انہیں نہ جا نے کب سے سینے سے لگا ئے پھر رہے تھے اور ان کے سا منے رکھ دیں۔
ایڈیٹر صاحب نے ہمارے یہ سب گرانقدر مسودات دیکھے ، ہمیں گھورا اور بو لے نہیں ہمارے ادارے میں تو کو ئی جگہ نہیں ہے ۔ تلا ش روزگار کے انہی دنوں میں مجھے ضیا شا ہد سے پہلی ملا قات کا اعزاز بھی حا صل ہوا ان دنوں ضیا شا ہد ہفت روزہ صحا فت نکا لا کرتے تھے ان کا آ فس چو برجی میں سینما کے ساتھ ہوا کرتا تھا ۔ میں نے صحا فت کا بورڈ لگا دیکھا تو دفتر کے اندر چلا گیا وہا ضیا شا ہد بیٹھے تھے میں نے انہیں اپنا تعارف کرایا اور اپنے مسئلہ بے روز گا ری سے آ گا ہ کیا تو انہوں نے بلا تا خیر اپنا وزیٹنگ کارڈ نکا لا ا ور نجھے دیتے ہو ئے بولے ریواز گا ر ڈن میں میاں صاحب کے گھر چلے جا ئو انہیں بندوں کی ضرورت رہتی ہے ان سے مل لوں تمہیں ملاز مت مل جا ئے گی میں نے کا رڈ لیا اور ریواز گارڈن پہنچ گیا ، بڑا سا بنگلہ تھا وہاں مو جود ملازم کو میں نے ضیا شا ہد صاحب کا کارڈ دے کر کہا کہ یہ کارڈ لے جا ئو اور میاں صاحب سے میرا بتا ئو میں نے ان سے ملنا ہے ۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں میاں صاحب کے درا ئینگ روم میں بیٹھا تھا چند لمحوں کے بعد چا ئے آ گئی چا ئے کے سا تھ بسکٹ اور دیگر لوازمات بھی تھے میں ابھی چا ئے پی رہا تھا کہ ایک خا تون تشریف لے آ ئیں بعد میں پتہ چلا کہ وہ بیگم صا حبہ تھیں بڑی سمپل اور سادہ مگر پر وقار خا تون تھیں بیگم صاحبہ نے بڑی محبت اور شفقت سے میرا مقصد آ مد دریا فت کیا میری عرضداشت سننے کے بعد کہنے لگیں کہ میاں ساھب تو گھر پر نہیں ہیں۔
آپ کیاکر سکتے ہیں؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں اخبار کے لئے لکھنے اور اخبار تقسیم کر نے کے علاوہ کو ئی کام نہیں جا نتا تو کہنے لگیں کہ میاں صاحب تو شہر سے با ہر گئے ہو ئے ہیں میاں صاحب کی ہنڈا مو ٹر سا ئیکلوں کی ایجنسی ہے اگر آپ شاپ پر کام کر نا چا ہیں تو میں آپ کو ابھی ایجنسی پر بھجوا دیتی ہوں ملا ز مت تو مل رہی تھی مگر ہمارے اندر کے عظیم لکھاری کو یہ کام پسند نہیں آ یا اور ہم نے شکریہ کہہ کر بیگم صا حبہ سے اجازت لی ۔ وہ دن یاد آ تے ہیں تو سو چتا ہو کہ کتنے آ سودہ اور آسان دن تھے لوگ ایک دوسرے پر کتنا اعتماد کرتے تھے اور ایک دوسرے کے کتنے کام آ تے تھے مجھے میاں صاحب کا نام یا د نہیں رہا کبھی کبھی مشکل وقت میں ایک میٹھا بول آپ کی زند گی کا سرما یہ بن جا تا ہے میں آج بھی ضیا شا ہد اور اس بیگم صاحبہ کے لئے دعا گو ہوں جنہوں نے نہ صرف مجھ پر اعتماد بھی کیا بلکہ میری مدد اور حو صلہ افزا ئی بھی کی ۔میں نے ضیا شا ہد اور ان جیسے لو گوں سے دو سروں کے کام آنا اور دوسروں کے دکھ درد سننا سیکھا۔