تحریر : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی ماہ ربیع الاول پیغمبر اسلام محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی کی ولادت باسعادت کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں مسلمان اہتمام سے محافل سیرت مبارکہ ۖ اور محافل نعت مبارکہ کے سننے سنانے کا اہتمام عقیدت و احترام سے کرتے ہیں۔ اسی مناسبت سے اخبارات و رسائل میں بھی سیرت مبارکہ ۖ کا بیان بھی ہوتا ہے اور اس سے متعلقہ باتوں کو بھی پیش کیا جاتا ہے۔ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ اس نے قرآن پاک کے ساتھ اپنے حبیب ۖ کی سیرت مبارکہ کے گوشے گوشے کو ہم تک پہونچانے کا انتظام کیا ہے ۔ اور ہر زمانے میں مسلمان اور حق کے متلاشی انسانوں کو کلام اللہ قرآن پاک اور آپ ۖ کی سیرت مبارکہ سے حق کی روشنی حاصل ہوتی رہتی ہے۔اس سیرت نویسی کا آغاز مغازی رسول ۖ کے حوالے سے حضرت عروہ بن زبیرنے پہلی دستاویز تیارکرکے کردیا تھا۔اْن کے بعد یہ سلسلہ مختلف حوالوں سے شروع ہوگیا۔ کسی نے حدیث کے عنوان سے آنحضرت ۖکے اقوال و فرمودات کی جمع آوری سے آغاز کارکیا، کسی نے تاریخ نویسی کے عنوان سے قلم سنبھالا اور کسی نے سیرت نگاری کے عنوان سے کام کی ابتدا کی۔ چودہ صدیاں گزر گئیں اور یہ سلسلہ شرق و غرب میں متنوع انداز سے آگے بڑھ رہا ہے۔آنے والی نسلوں کے لیے آپۖ کی سیرت و اسوہ تک پہنچنے کا وسیلہ کیا ہے؟ یہ سوال سامنے آتا ہے توبے ساختہ سب مسلمانوں کی زبان سے پہلا لفظ ”قرآن” نکلتا ہے۔ اس کی تائید کیے بغیر چارہ نہیں۔
سیرت نبوی ۖ کے مختلف اہم گوشے ہم تک براہ راست کلام الہی قرآن کریم سے پہونچتے ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم نے عصرنبوت کے بعض تاریخی غزوات پر تبصرہ کیا ہے مثلاً غزوء بدر، احد،خندق اور حنین۔ نیز ہم قرآن میں حجازکے یہود اور مسلمانوں کے مابین فکری اور مادی کشمکش کی حسین و جمیل منظرکشی پاتے ہیں۔ لہٰذا سیرت کی روایات کو قبول کرنے میں اس بات کو پیش نظررکھنالازمی ہے کہ کہیں وہ روایت آیات قرآنیہ سے متعارض تو نہیں ہے۔ قرآن کریم فن تاریخ کی کوئی کتاب نہیں ہے بلکہ وہ دستورِ حیات ہے۔ہم تک سیرت مبارکہ ۖ کے پہونچنے کا دوسرا اہم صدر سیرت کا دوسرا اہم مصدر کتب حدیث ہیں کیونکہ احادیث عقائد اسلامیہ ، آداب و احکام کی توضیح کرتی ہیں احادیث کی مستند کتابیں جو ہم تک پہنچی ہیں وہ درج ذیل ہیں: (1) صحیح بخاری (2) صحیح مسلم (3) ترمذی شریف (4) سنن ابی داؤد (5) سنن نسائی (6) سنن ابن ماجہ (7) موطہ مالک(8)مسنداحمدبن حنبل (9) مسنددارمی۔
اسی طرح کتب دلائل نبوت اور معجزات نبوی ۖ پر مشتمل کتابوں اور شمائل نبوی ۖ کو بیان کرنے والی کتابوں سے بھی ہمیں سیرت نبویۖ تک پہونچنے میں مدد ملتی ہے۔ سیرت نبوی ۖ کے اہم مصادر وہ کتب سیرت ہیں جو تابعین کے دور میں لکھی گئیں اور صحابہ کے دور سے قریب ترین دور میں لکھی گئیں۔ صحابہ نے ان کتابوں پر اظہار نکیرنہیں کی اور ان کا اظہار نکیر نہ کرنا ان کتابوں کی تصدیق و توثیق ہے اور عصرنبوت سے قریبی عہد میں لکھے جانے کی وجہ سے ان میں تحریف، مبالغہ، تہویل اور ضیاع کا اندیشہ بھی بہت کم ہے۔دستیاب شدہ سیرت کے قدیم مصادر میں اہم کتابیں درج ذیل ہیں: 1۔ تہذیب سیرة بن ہشام:۔ سیرة ابن کثیر وغیرہ مشہور ہیں۔اردومیں سیرت کی مستند اور اہم کتابیں درج ذیل ہیں: (1) سیرت النبیۖ۔علامہ شبلی نعمانی(2) محسن انسانیت۔نعیم صدیقی(3) اصح السیر۔ عبدالرؤف(4) رحمةللعالمین۔قاضی محمدسلیمان منصورپوری۔
Hayat Muhammad PBUH
سیرت رسول ۖ کے حوالے سے دنیا کی تقریباً سوزبانوں میں لاکھوں جلدوں پر مشتمل کتب موجود ہیں۔ اردو میں سیرت النبی ۖ پر ایک اور کتاب مشہور ہوئی جو ” حیات محمد ۖ” کے نام سے ہے ۔ عربی میں یہ کتاب مصری ماہر تعلیم محمد حسین ہیکل نے لکھی۔ اسے اردو میں ابویحی امام خان نے ترجمہ کیا۔ اپنے سلیس انداز بیان کے سبب سیرت النبی ۖ کا یہ اردو ترجمہ بہت مقبول ہوا۔ حیات محمدۖ ” کتاب کے مصنف محمد حسین ہیکل (پیدائش20 اگسٹ 1888 وفات8 ڈسمبر1956 مصر سے تعلق رکھنے والے ادیب ‘صحافی سیاست دان اور محمد محمود پاشاہ کی وازارت میں مصر کے وزیر تعلیم تھے۔ انہوں نے عربی میں شاہکار کتابیں لکھیں۔انہوں نے حیات محمدۖ کتاب1933ء میں لکھی اور اسی نہج پر حضرت عمر فاروق کی سیرت مبارکہ1944میں لکھی۔ حیات محمد ۖ کا اردو ترجمہ ابویحیٰ امام خان نے کیا۔ اور اردو میں اس کتاب کو مقبولیت دوام حاصل ہوا۔ ”حیات محمد ۖ” کا اردو ترجمہ ہندوستان میں تاج کمپنی دہلی نے شائع کیا۔ اس کتاب کے تعارف میں یوں لکھا گیا۔” انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں جب دنیا کی مختلف اقوام نے سیرت پاک ۖ کا مطالعہ شروع کیا تو تہذیب عالم کی اس عظیم شخصیت کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنے میں انہیں کافی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے مسلمانوں کے ہاں سیرت نگاری کا ایک خاص اسلوب پیدا ہوا۔ جس پر کلامی انداز غالب تھا۔
عہد جدید میں سیرت مبارکہ پر جن تحریروں کو سند کا درجہ دیا جاتا ہے ان میں محمد حسین ہیکل کی ”حیات محمد ۖ” صف اول کی کتاب سمجھی جاتی ہے۔عربی زبان میں یہ کتاب کلاسیک کا درجہ اختیار کرچکی ہے۔ اور دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے تراجم شائع ہوئے ہیں۔ عہد جدید میں سیرت نبوی ۖ پر حوالے کی اس بنیادی کتاب کا ترجمہ مولانا ابویحی امام خاں نوشہروی نے اس خاص اسلوب میں کیا جس کی پختگی فن ترجمہ میں انہیں ایک بلند حیثیت دیتی ہے۔ عربی اسالیب کی بلاغت پوری صحت کے ساتھ ترجمے میں منتقل کی گئی ہے۔ اور اس اعتبار سے اردو میں سیرت نبوی ۖ کے ذخیرہ ادب میں ایک اہم اور قابل قدر اضافہ ہے۔(ناشر ”حیات محمد ۖ” دہلی) کتاب ”حیات محمد ۖ” جس عقیدت و احترام سے لکھی گئی اس کا اندازہ کتاب کے آغاز میں لکھے گئے مولف کے مقدمہ اول کے ابتدائی جملوں سے ہوتا ہے جب وہ کہتے ہیں:
” حضرت محمد علیہ الصلوة السلام یہ ہے وہ مبارک نام جو ہر روز کروڑوں لبوں پر آتا اور کروڑوں دلوں کو سرور و تازگی سے مالا مال کرتا ہے۔ ہمارے لب اور ہمارے یہ دل اسی نام سے ساڑھے تیرہ سو برس سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ یہی نہیں لبوں اور دلوں کی بہرہ مندی قیامت تک جاری رہنے والی ہے۔اذان پنچگانہ میں:ادھر صبح صادق نے رات کی سیاہی پر نور چھڑکا موذن نے الصلوة خیر من النوم پکار کر بنی آدم کو اللہ تعالی کے سامنے سجدے میں سر رکھنے کی تلقین کی اور اس کے ساتھ ہی کرہ ارض کے چپے چپے پر کروڑوں انسانوں نے درود و سلامتی کے تحفے پیش کئے۔۔ آں حضرت سے مسلمانوں کی محبت و عقیدت کا یہ حال ہے کہ نمازوں میں جب بھی آں حضرت کا ذکر آیا دل فرط مسرت سے پہلو میں اچھل پڑا۔ آں حضرت کی ذات کے ساتھ احترام و محبت کے یہ جذبات ہمیشہ وابستہ رہے ہیں۔ اور آئیندہ بھی اسی طرح وابستہ رہیں گے۔ یہاں تک کہ اسلام دنیا کے ذرے ذرے پر غالب آجائے”۔ ( ”حیات محمد ۖ” محمد ہیکل۔ ص۔ ٣ دہلی۔ پہلا ایڈیشن ١٩٨٨)کتاب کے مقدمے میں محمد ہیکل نے ابتدائے آدم سے زمانہ جاہلیت کے مختلف ادوار کا ذکر کیا۔ اور پس منظر کے طور پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وصلم کے اس دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد مستشرقین کی جانب سے اسلام اور آپ ۖ سے متعلق پیدا کیے جانے والے شکوک و شبہات اور ان کے ازالے کے لیے مستند کتب سیرت کی ضرورت اجاگر کی۔ اس تصنیف کی وجہ تالیف بیان کرتے ہوئے محمد ہیکل لکھتے ہیں:۔
Life
”علمی زندگی طے کرنے کے بعد میں نے عملی دور میں قدم رکھا ہی تھا کہ دنیا کے ہر گوشے میں بسنے والے مسلمانوں کو ان مسائل سے متاثر دیکھا جو اسلام اور اس کے بانی کے متعلق پیدا کیے جاچکے تھے۔ کیا اسلامی ممالک اور کیا ان ملکوں کے اندر جہاں مسلمان رعایا کی حیثیت سے زیر نگیں تھے میں ان مسائل کی تحقیق میں ڈوب گیا۔ جن کی غلط بیانی اور فریب دہی کے چکر میں آکر مسلمان اور مشرق دونوں پریشان تھے۔ مغرب کے عیار اہل قلم اور اسلام کے جامد علماء کی اس کج روی سے صرف دین ہی کو خطرہ نہ تھا بلکہ یہ علمی حادثہ تمام عالم کے لیے مصائب کا پیش خیمہ تھا۔ کیوں کہ مسلمان جو صدیوں تک دنیا کے ہر خطے میں علم و تمدن کے نقیب رہے اگر انہی کے عقائد اور ان کے بانی کے اطوار و کردار میں ظلم و جہالت کی تیرگی ثابت ہوجائے تو جن قوموں نے ان کی برکت سے علم و دانش کے خزانے حاصل کیے وہ تہذیب و فنون میں کس حد تک کامیاب ہوئیں۔ تو میں اپنا فرض سمجھ کر ان مسائل کی تحقیق و مطالعے میں منہمک ہوگیا۔حتی کہ کتاب ”حیات محمد ۖ” کی تدوین پر میری توجہ مرکوز ہوگئی۔( ”حیات محمد ۖ” ص۔ ٢٣) مولف کتاب محمد ہیکل نے اس کتاب کو ترتیب دینے کے دوران قرآان و احادیث کتب اور دیگر حوالوں کو جس انداز میں مطالعہ کیا اور اسے اختیار کیا اس کی تفصیلات اس مقدمے میں دی ہیں۔ مقدمہ ثانی میں انہوں نے کچھ اضافے بھی کیے ہیں۔ وحی سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں:۔
وحی کا تجزیہ موجودہ آلات سے نہیں ہوسکتا:حضرت محمد مصطفی ۖ پر نزول وحی کے زمانے میں جو مسلمان موجود تھے جب کوئی آیت قرآن کے منزل من اللہ ہونے پر نازل ہوتی تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا۔ اس دور کے مسلمانوں میں بعض افراد نہایت دیدہ ور اور صاحب فراست بھی تھے۔یہود و نصاری میں سے بھی کچھ ایسے علماء مسلمان ہوچکے تھے جو ایمان لانے سے قبل پیغمبر اسلام کے ساتھ مناظرہ کرتے رہتے۔مگر مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے بھی قرآن کے وحی ہونے سے انکار کا دامن نہیں چھوڑا۔۔ان تمام صورتوں کی موجودگی میں علم گوارا نہیں کرسکتا کہ وحی کو اس کی اصلیت سے ہٹا کر کسی اور نام سے پکارا جائے( ”حیات محمد ۖ” ص۔٤٥)مقدمے کے آخر میں محمد حسین ہیکل نے سیرت نبوی ۖ کی جانچ کا حتمی پیمانہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ:”قرآن مجید کی تعلیم اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ وہ معجزہ ہے۔ جو حضرت محمد ۖ کو دیا گیا۔ اس کے انداز اور ہمہ گیری سے ثابت ہوتاہے کہ وہ اپنے زمانہ نزول سے لے اس وقت تک دنیا میں جلوہ آرا رہے گا۔
جب تک یہ نظام مربوط ہے۔ اس لیے مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ رسو ل اللہ ۖ کی سیرت کو قرآن مجید پر عرض(پیش) کریں اور آپ ۖ کے متعلقہ روایات میں جو چیز قرآن مجید کے موافق ہو اسے قبول کرنے میں تامل نہ کریں۔ مگر قرآن کے سوا دوسرے ذرائع سے جو ایسے امور آنخصرت ۖ کی سیرت کے متعلق منقول ہوں کہ وہ قرآن کے معیار پر پورتے نہ اتر سکیں ان سے انکار میں انہیں تردد نہ کرنا چاہئے( ص۔٦٨) کتاب ”حیات محمد ۖ” کے ابتدا میں واقعات سیرت کا پس منظر بیان کرتے ہوئے محمد حسین ہیکل نے تفصیل سے ابتدائے آفرینش سے مختلف پیغمبروں کے زمانوں میں انسانی تہذیب کا مرحلہ وار ارتقاء بیان کیا۔ تعمیر کعبہ اور عرب میں تمدن کے آثار بیان کرتے ہوئے محمد ہیکل لکھتے ہیں:تعمیر کعبہ کے زمانے میں مکہ کا تمدن اس قدر جاذب نہ تھا کہ وہ اس دور کے دو معروف قبائل عمالقہ و جرہم کی توجہ کے قابل ہوسکتا لیکن جب حضرت اسماعیل نے اس مقام کو اپنی اقامت کا شرف بخشا اور بعد میں جناب ابراہیم و اسماعیل دونوں نے مل کر کعبہ کی تعمیر فرمائی تو ان دو گونہ صفات کی وجہہ سے اس سرزمین میں انسان کی مستقل اقامت گاہ بننے کی صلاحیت عود کر آئی۔ ہر سم سے قبائل آنے لگے اور یہاں سکونت پذیر ہوگئے۔رفتہ رفتہ یہ مقام شہرت کی صورت میں مستقل ہوگیا( ص۔١٠٠)حضرت عبدالمطلب کے خواب میں زم زم کے کنویں کا نقشہ بتانے اور اولاد کے ضمن میں ان کی منت اور حضرت عبداللہ کے بدلے سو اونٹوں کے قرعہ اور قربانی کے واقعات کو محمد ہیکل نے تفصیل سے بیان کیا۔
ALLAH
حضور اکرم ۖ کی ولادت کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں:” ولادت مبارک در سن ٥٧٠ ع۔ سیدہ آمنہ کے بطن سے ولادت مبارک ہوئی۔ یہ خبر فوراً جناب عبدالمطلب کو پہونچائی گئی۔ انہیں اپنے مرحوم فرزند عبداللہ کی نسل جاری ہونے سے بے حد مسرت ہوئی۔ وہ جلدی محل سرائے میں تشریف لائے۔ مولود کو اپنے دونوںہاتھوں پر اٹھا کر کعبہ میں لے گئے۔ جہاں ان کا نام محمد(صلی اللہ علیہ وصلم) رکھا۔ اس نام میں ندرت یہ تھی کہ اہل عرب اس لفظ سے آشنا تو ضرور تھے مگر آج سے پہلے یہ نام کسی نے نہ رکھا تھا۔ماہ ربیع الاول میں ولادت مبارک کے مویدین اس ماہ کی تاریخ میں ٣۔٩۔١٠ اور اسحاق مولف سیرة کی روایت میں ١٢ ہے۔(ص١١٥۔١١٦)دائی حلیمہ کے پاس پرورش کے لیے جب آپ ۖ پہونچے تو وہاں برکات کا نزول کس طرح ہوا اس ضمن میں محمد حسین ہیکل رقم طراز ہیں:” حلیمہ فرماتیں جوں ہی میں نے انہیں گود میں لیا برکات کا نزول شروع ہوگیا۔ گھر پہونچی تو میری بکریاں پہلی غذا ہی سے فربہ ہوتی گئیں۔ اور ان کے تھنوں میں دودھ نے ٹھاٹھیں مارنا شروع کردیا۔ آپ نے زمانہ شیر خوارگی کے ابتدائی دو سال صحرا کے گہوارہ میں بسر کیے۔ بی بی حلیمہ انہیں اپنے دودھ پلاتی تھیں۔ ان کی صاحبزادی شیبا انہیں اپنی گود میں کھلاتی رہیں۔ بیابان کی کھلی فضا اور گرم ہوائیں ان کے جسم کی نشونما میں معاون رہیں۔(ص۔١١٧)بچپن کے واقعات’یتیمی کی زندگی میں چچا ابو طالب کی کفالت’شام کے سفر کے حالات بیان کرنے کے بعد آپ ۖ کے بی بی خدیجہ سے نکاح کے واقعات بیان ہوئے ہیں۔
سیرت کی اکثر کتابوں میں شمائل نبوی ۖ بیان ہوئے ہیں۔ محمد حسین ہیکل آپ ۖ کے نوجوانی کے سراپے کو یوں بیان کرتے ہیں:” خوب رو بوٹا سا قد’نہ زیادہ طویل القامت نے اس قدر پست’سر بڑا اس پر سیاہ گھنگریالے بال ‘جبیں کشادہ’بھنویں بالوں سے بھری ہوئیں اور خمیدہ سی ‘دونوں بھنوئوں کے اندرونی کنارے ایک دوسرے سے پیوست’آنکھیں سیاہ اور بڑی بڑی جن کی سیاہی کے بعد نہایت کھلی ہوئی سفیدی اور سفیدی کا حلقہ سرخ مدور ساحالہ جس نے جاذبیت میں اور بھی اضافہ کردیا’آنکھوں سے زود فہمی کے آثار نمایاں’لمبی اور سیاہ پلکیں’ناک ستواں اور سیدھی’دانتوں میں ریکھیں جیسے باریک خط کھینچ دیا گیا ہو ریش گھنی گردن لمبی مگر خوبصورت ‘سینہ کشادہ بدن کی رنگت کھلی ہوئی ہاتھ کی ہتھیلیاں اور پائوں کے تلوے نرم و گداز بدن ذرا آگے کو جھکا ہوا رفتار میں تیزی میں مگر ہر قدرم اپنی جگہ پر جم جاتا بشرے سے تفکر کے علامات ظاہر نگاہوں میں حاکمانہ انداز جو دوسروں کو اپنے سامنے جھکالے۔” ( ص۔ ١٣٣)کعبة اللہ کی دوبارہ تعمیر کے دوران حجر اسود کو اس کے مقام پر لگانے کے ضمن میں جو جھگڑا قبائل مکہ کے درمیان ہوا تھا اسے آپ ۖ نے اپنی فراست سے کیسے سلجھایا یہ واقعہ بھی آپ ۖ کی سیرت کا ایک اہم باب ہے جب کہ بچپن اور جوانی سے ہی آپ کی فراست اور بردباری ظاہر ہونا شروع ہوچکی تھی۔ جب لوگوں نے یہ طے کرلیا کہ کل صبح جو سب سے پہلے حرم میں داخل ہوگا اس معاملے میں اس کی بات مانی جائے گی۔ جب آپ ۖ سب سے پہلے داخل ہوئے تو آپ نے کیا کیا اس ضمن میں صاحب کتاب لکھتے ہیں:۔
” آپ نے ہر فریق کا بیان غور سے سنا سب نے اپنا اپنا حق تفوق پیش کیا۔ دیکھا ہر قبیلے کے دل میں دوسرے خاندانوں کی دشمنی کی آگ سلگ رہی ہے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد فیصلہ صادر فرمایا کہ ایک چادر لائیے۔جو حاضر کی گئی۔ تب آپ نے چادر زمین پر بچھا کر حجر اسود اپنے ہاتھ سے اٹھا کر اس پر رکھ دیا اور فرمایا ” ہر خاندان کا سردار چادر کنارے سے پکڑ کر محل نصب کے قریب لے آئے” اور اسی طرح تعمیل کی گئی۔ حجر اسود اپنے مقام پر پہونچ گیا تو جناب محمد ۖ نے اسے اپنے ہاتھ میں لے کر اس کے محل پر رکھ دیا۔اتنا بڑا فتنہ آپ کے حسن تدبر سے فرو ہوگیا”۔( ص۔١٣٥)نزول وحی کا واقعہ بھی محمد حسین ہیکل نے اسی کیفیت میں بیان کیا جس کیفیت سے آپۖ دوچار ہوئے تھے۔ اس کتاب سیرت کی خاص بات یہ ہے کہ مصنف نے آپ ۖ کے رتبہ اور زندگی کے بڑھتے ادوار کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے رعب کے ساتھ اپنے انداز بیان کو بھی اسی طرح باوقار رکھا جیسا کے سیرت پاک کے بیان کا تقاضہ ہوا کرتا ہے اور ترجمے میں بھی اس کی جھلک نظر آتی ہے۔ آپ ۖ پر پہلی وحی کے نزول اور فرشتے اور آپۖ کے درمیان ہونے والی گفتگو ملاحظہ کیجئے۔
Holy Quran
” وحی کی مبارک ساعت آہی گئی۔ آنخضرت ۖ حرا میں محو خواب تھے۔ایک فرشتہ جس کے ہاتھ میں لکھا ہوا ایک ورق تھا آیا اور اس نے (رویاہی) میں یہ ورق آپ کے سامنے کھول کر کہا” اقرا”(اسے پڑھیے) آپ گھبرا گئے اور فرمایا” ما اقرائ” ( میں اس میں کیا پڑھوں) آنحضرت ۖ نے محسوس کیا کہ فرشتے نے آپ سے زور کے ساتھ معانقہ کرتے ہوئے پھر اقرا کہا اور آپ نے پھر وہی جواب دیا ما اقرا فرشتے نے دوسری مرتبہ پھر اسی زور سے معانقہ کرنے کے ساتھ ورق سامنے رکھ کر اقرا کہا اس مرتبہ آپ ڈر گئے مباد پھر معانقہ کی تکلیف سے دوچار ہونا پڑے۔لیکن وہی فرمایا کہ ماذا اقرا فرشتے نے کہا۔اقرا باسم ربک الذی خلق۔۔( پڑھئے اس رب پیدا کرنے والے کا نام لے کر جس نے انسان کو جمے ہوئے لہو سے پیدا کیا ہاں پڑھیے کہ آپ کا پروردگار وہ صاحب کرم ہے جس نے قلم کے ذریعے انسان کو ایسا علم سکھایا جسے وہ پہلے سے نہ جانتا تھا)۔ آپ ۖ نے فرشتے کے بالمواجہ یہ تمام کلمات دہرائے جو فرشتے کے واپس جانے سے قبل آپ کی لوح قلب پر منقش ہوگئے۔(ص۔١٤٢)وحی کے نزول اور آپ ۖ کے نبو ت کے اعلان مکہ میں دعوت اسلامی کے دس سال کے واقعات مدنی زندگی’ اسلام کی سربلندی’اسلامی غزوات اور قرآن کے بتدریج نزول کے واقعات کو اس کتاب میں مفصل اور تحقیقی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
بات بیان کرنے کے دوران عربی احادیث کے حوالے کے ساتھ اردو ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔ آپ ۖ کے اس دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد مصنف لکھتے ہیں:۔ ” ختم المرسلین دنیا سے رخصت ہوئے تو مال و زر سے کوئی چیز اپنے وارثوں کے لیے نہ چھوڑی۔ جس طرح دنیا میں تشریف لائے تھے ۔ اسی طرح خویش و اقارب کی پابندی اور زر و مال کی محبت کا داغ دل میں لیے بغیر دنیا سے واپس تشریف لے گئے۔ البتہ ورثہ بلکہ تمام بنی نوع بشر کے لیے اسلام اور اسلام کے ساتھ ایک ایسا تمدن چھوڑا جس کے سائے میں یہ جہاں صدیوں سے خوشی و خرمی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ اور رہتی دنیا تک ان دونوں سے فیض یاب رہیں گے۔ اس کے ساتھ ہی آنحضرت ۖ نے توحید کی بنیاد کو استوار فرمیا۔ کلمة اللہ کو سر بلند اور کلمہ کفر کو سرنگوں کیا۔ بت پرستی اور شرک کی جڑیں پاتال سے کھود کر پھینک دیں۔
انسان کو ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور محبت سے پیش آنے کی تلقین اور منافرت و کینہ سے باز رہنے کی ہدایت فرمائی اور اپنے بعد قرآن کو ہدایت و رحمت کے سرمایہ کی حیثیت سے چھوڑا( ص۔٦٠٤)کتاب کے آخر میں اسلامی تمدن اور اسلامی تمدن اور مستشرقین کے عنوان سے آپ ۖ کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعددنیا کے حالات پیش کئے۔مجموعی طور پر محمد حسین ہیکل کی کتاب” حیات محمد ۖ” سیرت النبی ۖ پر عربی میں لکھی ہوئی شاہکار کتاب ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا اردو ترجمہ بھی اسی قدر شاہکار ہے۔ اس کتاب کا اسلوب رواں سلیس اور دل کو چھو لینے والاہے ۔ ذکر رسول ۖ کو انہوں نے ادب و احترام اور واقعات کی سچائی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے حبیب ۖ سے محبت کی دعوے داری کے ساتھ ہم اپنے حبیب ۖ کے حالات زندگی پڑھتے رہیں ۔ ان سے اپنی زندگی میں روشنی حاصل کرتے رہیں اور اسے آنے والی نسلوں تک امانت سمجھ کر آگے بڑھاتے رہیں۔