کتاب کی اشاعت کے لیئے کسی پبلشر کی تلاش اور ضرورت نے ۔۔۔سنگ میل پبلشر کے آن لائن دروازے پہ لا کھڑا کیا۔۔۔وہاں پر سیاست دانوں سے لیکر قلمکاروں تک۔۔۔ اور شاعروں سے لیکر معروف ادیبوں تک۔۔۔ان کی شائع کردہ کتابوں کے ٹائیٹل ڈسپلے تھے۔۔۔جہاں ایک نئے نام اور ایک نئی شخصیت کی کتاب ۔۔۔قطرہ قطرہ زندگی۔۔۔ دیکھنے کو ملی ۔۔۔حضرت مولانا عبدالحق، پروفیسر احمد رفیق اختر،بابا محمد یحی خان،ڈاکٹر نور محمد اعوان اور پروفیسر عبداللہ بھٹی ۔۔۔جیسی معتبر ہستیوں کی کتاب کے بارے میں آراء نے۔۔۔کتاب کو پڑھنے اور صاحب کتاب کو جاننے کی تشنگی کو اور بڑھا دیا۔۔۔جسے میں نیا نام اور نئی کتاب سمجھ رہا تھا۔۔۔ وئہ صاحب کتاب تو پانچ کتابیں اپنے نام کر چکا ہے۔۔۔ اور پنجاب کی کوئی بااختیار کرسی بھی اس کے زیر قدم ہے۔
کیپٹن(ر)لیاقت ملک لاہور کے چیف ٹریفک افیسر کے طور پر اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔۔۔ایک فوٹو میں وئہ اپنی کتاب قطرہ قطرہ زندگی۔۔۔پنجاب کے بکری والے صوبے دار کو پیش کرتے ہوئے دیکھائی دیئے۔۔۔یہ بکریاں رکھنے والے۔۔۔بکریاں چرانے والے۔۔۔اور بکریوں سے نسبت رکھنے والے۔۔بڑے معتبر اور برکت والے لوگ ہوتے ہیں۔ قطرہ قطرہ زندگی کے۔۔۔(حرف سلامت )کے تین صفحات میری دسترس میں آئے۔۔۔تین صفحات کو پڑھ کر پوری کتاب پر۔۔۔ بات کرنے اور رائے دینے کو۔۔۔شعور کا اندھا پن کہا جا سکتا ہے۔۔۔لیکن صاحبو کیا کیا جائے؟۔۔۔جب صاحب کتاب حروف آشنائی کی منزلیں طے چکا ہو تو۔۔۔پھر حروف اس کی نیازمندی کے لیئے اس پر اترتے ہیں۔۔۔اس سے ہمکلام ہوتے ہیں۔۔۔اُسے بولنے اور لکھنے پر اُکساتے ہیں۔۔۔میں نے حرف سلامتی کے حروف کا مکالمہ سنا ہے۔۔۔وئہ کہہ رہے تھے کہ۔۔۔ عقل و دانش کبھی محصورنہیں ہوتے۔۔۔فہم و فراست وراثت نہیں ہوتی۔۔۔ یہ سر اور دماغ بدلتے رہتے ہیں۔۔۔حضرت واصف علی واصف مرتے نہیں۔۔۔بلکہ کسی اور کے قلم سے منسلک ہو جاتے ہیں۔۔۔کسی اور کے نام کو معتبر کرتے ہیں۔۔۔اور کسی نئے سر میں منتقل ہو جاتے ہیں۔۔۔وئہ ہر حال اور ہر زمانے میں موجود رہتے ہیں۔
میں نے جب حرفِ سلامتی پر تدبر کیا۔۔۔تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں۔۔۔حضرت واصف علی واصف کی کتاب پڑھ رہا ہوں۔۔۔ شاید کچھ احباب کو یہ بات ماننے میں مشکل پیش آئے ۔۔۔ لیکن انہیں سمجھنے میں یہ بات آسان لگے گی کہ دانش کبھی بانجھ نہیں ہو سکتی۔۔۔ ماتما بدھ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنے معتمد خاص سے کہا تھا کہ میں آخری بدھ نہیںہوں۔۔میرے بعد ایک اور بدھ آئے گا۔۔۔جو عقل و دانش سے لبریز ہوگااور دنیا کو مستفید کرے گا۔
ظلم و نا انصافی اور عدم مساوات ۔۔۔صاحب کتاب کے حساس دل اور خودشناس دماغ میں نہ جانے کتنی کربلائیں بپا کرتے ہوں گے ۔۔۔اُسے حروف کتنا مشتعل کرتے ہوں گے۔۔۔اورکتنا اُکساتے ہوں گے۔۔۔وئہ دن میں کتنی بار اپنے اپ سے الجھتا ہوگا۔۔۔ اورکتنی بار ٹوٹ کربکھرتاہوگا۔۔۔مجھے لگتا ہے کہ صاحب کتاب کا سر زیادہ عرصہ ٹوپی کے اندر نہ رہ سکے گا۔۔۔ کیونکہ وئہ روحانی دنیا کا قطرہ قطرہ زندگی مفرور ہے۔۔۔دیکھنا یہ ہے کہ وئہ پولیس کی دسترس میں رہتا ہے ۔۔۔یا اُسے روحانی دنیا کی نیب اُٹھا کر لے جاتی ہے۔۔۔ ادبی برینڈ تو بن چکاہے لیکن نہ جانے مجھے ادبی تصوف کی دنیا کا تاجدار کیوں دکھائی دیتا ہے؟ خود پسند ی، خود نمائی سے خود شناسی کا سفر۔۔۔دراصل خدا شناسی کا سفر ہوتا ہے۔۔۔
حروف ملامت۔۔۔حروف ندا مت میں ڈھل کر۔۔۔حروف سلامت کی منزل حاصل کر لیتے ہیں۔۔۔ اپنے اپ کو دیکھنے کی جسارت کرنا ۔۔۔اور اپنے اپ کو پہچاننا۔۔۔اور ان ساری غلاظتوں۔۔۔زندگی بھر کی بد اعمالیوں کی گٹھری۔۔۔کھول کرہر ہرگناہ،ظلم و زیادتی کو۔۔۔ جانچنا، ماننا اور پھر ندامت کے انسو بہا نے کا مرحلہ آسان نہیں ہوتا۔۔۔یہ عمل مقبول روحوں کا مقدر بنتا ہے۔۔۔۔ صاحب کتاب کو خود شناسی اور حروف آشنائی کی منزلیں مبارک ہوں۔