تحریر : شاہ بانو میر ان دنوں ایک ہی ذکر ہے ہر طرف فضا سوگوار اور ماحول بالکل ویسے ہی اداس ہے جیسے پچھلے سال 16 دسمبر کو تھا – 16 دسمبر 1971 سقوط ڈھاکہ جس میں ملک دو لخت کر دیا گیا – 16 دسمبر 2014 ملک وہیں تھا مگر ہر پاکستانی ٹوٹ کر رہ گیا تھا 142 معصوم بچوں اور استاذہ خواتین تیچرز کی المناک شہادت پر نوجوان بہت پرنور اور رنگ روپ نکالتے ہیں – اس عمر میں مائیں آتے جاتے درود دعا پڑھ پڑھ کر پھونکتی ہیں اور انجانے کسی خوف سے کانپتی ہیں – اور کبھی کبھار یہ خوف حقیقت کا روپ دھار کا سانحہ پشاور کی صورت سامنے آتا ہے – پورا سال ہی سب لکھاریوں نے گاہے بگاہے ان بچوں پر لکھا کیونکہ کوئی بھول ہی نہیں سکتا تھا – لیکن جیسے جیسے دسمبر قریب آ رہا تھا اتفاق کریں گے سب کہ قلم جیسے بھاری ہوتے جا رہے تھے لکھنا محال لگ رہا تھا کہ کیا لکھیں ان کیئے جن کے غم کو جھیلنے والے کمر توڑ بیٹھے ہیں ہنستے بستے گھرانے ویرانے بن گئے
ہر روز سوچ آتی اور ہاتھ شل ہوتے پاکستان میں بوڑھے جوانوں کی لاشیں اب اتنی دیکھ لیں کہ ان کیلئے لمحہ بھر دل افسردہ ہوتا ہے اس کے بعدعام روٹین کا کام شروع مگر ماؤں کے ایسے حسین لعل ذہین چمکتی آنکھوں میں مستقبل میں پاکستان کی حفاظت کے خواب سجائے وہ میدان جنگ کی بجائے ایک شب خون میں بزدل دشمن کی کاروائی کا شکار ہو گئے کس کس کو دیکھیں کس کس پر لکھیں اور کہاں سے لائیں وہ الفاظ جو مداوہ کر سکیں ان کے پیاروں کے اس عظیم غم کا ایسے میں ملول دل اور اداس ذہن کو جیسے روشنی کی امید کی چمک دکھائی دیتی ہے یہی ہمارے پیارے بچے جو شائد بھانپ گئے کہ ان کے بڑے اپنی عمر کی نقاہت لئے اداس ہیں بے بس ہیں سوائے دعا کے کچھ اور کرنے کے یہی شہباز اٹھے اور کانوں میں جیسے رس گھولنے لگے
قلم کی جو جگہہ تھی وہ وہیں ہے پر اُس کا نام تک باقی نہیں ہے قلم کی نوک پر نقطہ تھا کوئی جو سچ ہو بھلا وہ رکتا ہے کوئی وہ بچپن جس نے تھوڑا اور جینا تھا وہ جس نے ماں تمہارا خواب چھینا تھا مجھے ماں اُس سے بدلہ لینے جانا ہے مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
Peshawar School Attack
اللہ اکبر ایک ایک حرف نے پہلے تو آنسو گرائے اس کے بعد جیسے بار بار سن کر دلاسہ دے رہے ہوں ہم سب کو یہ بچے ہمت دے رہے ہوں ہمیں سمجھا رہے ہوں کہ زندگی تو نام ہے حادثات کا لیکن ان سے ٹوٹ کر گر کر ناکام نہیں ہونا بلکہ دشمن کے اگلے وار کو ناکام بنانے کیلئے طاقت سوچ ہمت اکٹھی کرنی ہے کیسا خوبصورت انداز ہے ان جاہلوں کیلئے جنہوں نے جہالت سے ان پھولوں کو نوچا ان کو کیا خوبصورت تمانچہ مارا ہے کہ اگلی نسل کو جاہل نہیں رہنے دینا کہ وہ بھی ایسے ہی دنیا کیلئے بد دعا کا موجب نہ بنیں بلکہ مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے تا کہ وہ اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ دنیا کو سنوارنے کیلئے کچھ اچھا کر جائے روشنی تازہ ہوا فرحت بخش سوچ نے جیسے آنسوؤں کے ذریعے سارا غم ساری تلخی مایوسی کہیں دور جا پھینکی سوچ میں یہی نغمہ گونجتا رہا اس بچے کے بہادارانہ انداز میں ہاتھ ہلا ہلا کر بھرپور انداز میں اپنے ارادے کی مضبوطی کو ظاہرکرتے دیکھ کر پھر سے وہی ہمت عود آئی اداسی ناکامی مایوسی کہیں دور بھاگ گئی پیارے بچو شکریہ اس وقت اپنے سپورٹ دینے کیلئے کیونکہ آپکی جرآت ہی واحد طریقہ علاج تھا
پوری قوم کو اداسی سے نکالنے کا آپ نے اداس کیا آج آپ نے ہی ہمیں اس حزن و ملال کی کیفیت سے باہر نکال کر پھر سے جینے کی امید دلائیآپ کے پرعزم چہرے آپ کا اظہار بیاں اس اعتماد کیلئے مشکور ہیں آپ کے بہادر والدین کے آپ کے انتہائی محبت کرنے والے استاذہ اکرام کے اس قوم کے جس نے دن رات آپ کیلئے دعائیں کیں -آپ کے یہ کچھ حروف کچھ جملے پوری قوم کیلیے طاقت کا سرچشمہ ہیں -زندہ قومیں اپنے سانحے بھولا نہیں کرتیں – نہ ہی ان کو لا دینیت سے مناتی ہیں – ان سانحات کو شمعیں جلا کر نہیں نہ پھول مغربی انداز میں رکھ کر مناتی ہیں -16 دسمبر دعا کا دن ہے
قرآن پاک کھولیں بجائے نمائشی اشتہاری بیانات کا دن نہیں ماؤں کے قیمتی لعلوں کے ساتھ بیان بازی نہ کریں ان کیلئے دعاوں کا اہتمام کریں یہی بہترین عمل ہے جانے والوں کیلئے پاک فوج زندہ باد آپ کے جزبہ حب الوطنی کو سلام ہے ان بچوں کو ایسے موقعے پر بہادرانہ انداز میں پُراعتماد انداز میں منظر عام پرلا کر آپ نے پوری قوم میں نئی روح پھونک دی ہے – پاکستان پھر سے جاگ اٹھا اب 16 دسمبر آنسوؤں سے نہیں نئی امید اور نئی کامیاب سوچ کے ساتھ گزارنا ہے -ہماری روتی ہوئی اداس زندگی پھر سے مسکرانے لگی کامیاب قومیں ایسے ہی فخر سے حوصلے سے جیتی ہیں آگے بڑہتی ہیں بغیر ارادے مقاصد منسوخ کئے جیو میرے لعل جیو پاک فوج