یہ اس زمانے کی بات ہے جب محترمہ بے نظیر بھٹو یو اے ای میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی تھیں اور پی پی پی کے مرکزی قائدین اکثر و بیشتر یو اے ای کا رخ کیا کرتے تھے۔ ان کی محبوب قائد کا عارضی مسکن یو اے ای تھا لہذاان کیلئے اپنی قائد کی ہدایات ،زیارت اور رہنمائی کیلئے یو اے کا سفر لازمی تھا۔ مرکزی قائدین کی یو اے اآمد ہمارے لئے کسی نعمت سے کم نہیں تھی کیونکہ اس طرح ہمیں پارٹی قائدین سے راہ و رسم بڑھانے اور پارٹی کے بنیادی فلسفے کو سمجھنے میں مدد ملتی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کی تخلیق کردہ جماعت مسلم لیگ (ق) جو کہ ٢٠٠٢ کی فاتح جماعت قرار پائی تھی عوامی غیض و غضب کا نشانہ بنی ہوئی تھی اور اپنے اقتدار کے آخری ایام پورے کر رہی تھی۔ لوگوں نے جنرل پرویز مشرف سے جو امیدی ںوابستہ کی تھیں وہ پوری نہیں ہوئی تھیں لہذا ان کی ذات میں اب کشش باقی نہیں رہی تھی۔
جنرل پرویز مشرف کی ترقی پسندی، معاشرے میں تبدیلی لانے کا نعرہ، ملک کو کرپشن سے آزاد کرنے کا عزم ہوا میں تحلیل ہو چکا تھا کیونکہ ان کے دورِ حکومت میں رشوت ستانی اور بد انتظامی اپنی انتہائوں کو چھو رہی تھی۔ ایمر جنسی کا نفاذ،چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کی معزولی،وکلاء تحریک اور ١٢ مئی جیسے واقعات نے مسلم لیگ (ق) کے غبارے سے ہوا نکال دی تھی لہذا افواہیں گرم تھیں کہ اگلے انتخابات میں قاف لیگ کا صفایا ہو جائیگا ۔لوگ تبدیلی چاہتے تھے لہذا سب کی نظریں محترمہ نظیر بھٹو کی جانب اٹھ رہی تھیں۔ ہر طرف شور تھا کہ پی پی پی اگلی حکومت تشکیل دے گی اور محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیرِ اعظم ہو ں گی۔پی پی پی کی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے موسمی پرندوںکی نئے گھونسلوں کی تلاش میں اڑان بھرنے کی بے چینی اپنے زوروں پر تھی۔جنرل پرویز مشرف کے کئی دیرینہ ساتھی در پردہ پی پی پی میں شمولیت کی سودے بازی کر رہے تھے۔ان کیلئے اب مسلم لیگ (ق) میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ اگلا اقتدار قاف لیگ کا نہیں بلکہ پی پی پی کا مقدر بننے والا تھا لہذا ایسے کرب انگیز وقت میں مسلم لیگ (ق) سے وابستہ رہنا انتہائی بیو قوفی تھی اور یہ مخصوص طبقہ اپوزیشن میں رہنے والا گھاٹے کا سودا نہیں کرتا ۔جون ٢٠٠٧ میں ہمیں خبر دی گئی کہ پی پی پی کے جنرل سیکرٹری جہا نگیر بدر دبئی شیریٹن ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں لہذا ملاقات کے لئے فورا حاضر ہو ا جائے ۔ میں اپنے دیرینہ دوست نذیر احمد پہنور کے ساتھ اسی شام ملاقات کیلئے دبئی روانہ ہو گیا۔ملاقات میں مسلم لگ (ق) کے پارٹی بدلنے والے سیاست دانوں کا ذکرِ خیر چھڑ گیا تو میں نے عرض کی کہ پی پی پی مسلم لیگ ( ق) کے ان الیکٹ ایبل کو اپنی جماعت میں شامل کرنے سے کیوں پس و پیش کر رہی ہے جن کی موجودگی سے پی پی پی مضبوط بھی ہو گی اور انتخابات میں فاتح بھی ٹھہرے گی ۔جہانگیر بدر کا کہنا تھا کہ یہ موسمی پنچھی اسٹیبلشمنٹ کے گماشتے اور پالتو کتے ہیں اور کڑے وقت میں پارٹی کو داغِ مفارقت دے جائیں گے۔
اگر ان سب افراد کو پی پی پی میں شال کر لیا جائے تو ہمارے اپنے ورکرز کا کیا بنے گا جوسالہا سال سے جدو جہد اور قربانیوں کی داستان رقم کر رہے ہیں؟سچ تو یہ ہے کہ ایسے موقع پرست افراد کو جماعتوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا بکہ ان کا مطمعِ نظر اقتدار ہو تا ہے لہذا وہ پلک جھپکنے میں نئے گھونسے میں بسیرا کر لیتے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں بھی انھیں کھلے بازئووں سے خوش آمدید کہتی ہیں کیونکہ وہ ا لیکٹ ایبل ہوتے ہیں اور اپنے اپنے علاقوں میں ان اثر ہو تا ہے۔ایسے افراد کو جماعتوں سے کوئی محبت ہو تی ہے اور نہ ہی وہ جماعتوں کے لئے کسی قربانی کے فلسفے سے آشنا ہو تے ہیں۔اقتدار کا لہو منہ کو لگ جائے تو پھر وفا کا جوہر کہاں قائم رہتا ہے۔
قائدین کو چوراہے میں چھوڑ جانے کے اس طرح کے مناظر ہم نے کئی بار دیکھے ہیں لیکن کمال یہ ہے کہ اپنی پرانی جماعت کو چھوڑنے سے قبل انھیں ملکی سلامتی اور قومی مفاد کا سبق نہیں بھولتا۔اپنی جماعت کی تبدیلی پر وہ ہر بار یہی نعرہ لگاتے ہیں اور کمال ہے کہ عوام ان کے اس نعرے یقین کر کے انھیں دوبارہ منتخب کر لیتے ہیں ۔ لیکن شائد اس دفعہ ایسا نہ ہو سکے کیونکہ عوام با شعور ہیں لہذا فصلی بٹیروں کو رد کر دیں گے ۔ وہ خود کو سچا اور محبِ وطن ظاہر کرنے کیلئے ایسے ایسے نعرے ایجاد کر تے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ آج کل کئی موسمی پر ندوں کی اڑان کی نئی منزل پی ٹی آئی ہے۔میاں محمد نواز شریف کی نا اہلی کے بعد عمران خان ایک مضبوط امیدوار بن کر سامنے آئے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ کی ہمدردی اور سر پرستی کا ایک تصور ان کی ذات سے جوڑ اجاتا ہے جو موسمی پرندوں کی پی ٹی آئی میں شمولیت کی اصل بنیاد ہے ۔ بلا ول بھٹو زرداری بھی اپنی جگہ بڑے جتن کر رہے ہیں لیکن پنجاب کی حدتک مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان ہی ہے۔در اصل پنجاب نے ہی اقتدار کا حتمی فیصلہ صادر کرنا ہو تا ہے اس لئے سارا زور پنجاب میں روائتی سیاستدانوں کو اپنی جانب راغب کرنے پرصرف کیا جا رہا ہے۔جنوبی پنجاب کے اکثر سیاستدان پی پی پی کی بجائے پی ٹی آئی کا رخ کر رہے ہیں جس سے پی پی پی میں مایوسی کا عنصر دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے ۔پی ٹی کے اندر سے اس طرح کے موقع پرست سیاستد ا نوں کی شمولیت پر کئی اعتراضات اٹھ رہے ہیں لیکن انھیں در خورِ اعتنا نہیں سمجھا جارہا کیونکہ عمران خان بزعمِ خویش یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ الیکٹ ایبل ان کی وزارتِ عظمی کے حصول کی سب سے مضبوط سیڑھی ہیں لہذا وہ اس سیڑھی کو کسی قیمت پر خود سے دور کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔وہ ان روا ئتی سیاست دانوں کی پی ٹی آئی میں شمولیت پر بہت خوش ہیں حالانکہ وہ ماضی میں انہی الیکٹ ایبل کو خوب ہد فِ تنقید بناتے رہے ہیں۔،۔
پی ٹی آئی در اصل نوجوانوں کی جماعت ہے۔اس کا سب سے مقبول نعرہ یہی تھا کہ نوجوانوں کو امورِ ریاست میں اہم ذمہ داریاں سونپی جائیں گی لیکن پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں عمران خان کا نعرہ برگ و بار لانے سے محروم رہاکیونکہ وہ تمام نوجوان جھنیں پارٹی ٹکٹ دئے گئے اپنی جیت کا معرکہ سر کرنے میں ناکام رہے ۔پاکستان میں پیسہ سیات زوروں پر ہے لہذا الیکٹ ایبل کی اہمیت مزید اہمیت اختیار کر تی جا رہی ہے۔ہمارے ہاں ذات برادری،روپیہ پیسہ اور غنڈہ گردی کا منہ زور مظاہرہ جیت کے بنیادی اجزاء ہیں اور جہاں تھو ڑی بہت کسر رہ جاتی ہے وہاں پر اسے پیسے سے ووٹ خرید کر پورا کر لیا جاتا ہے۔اب کیا کوئی جماعت کسی ایسے کارکن کو ٹکٹ دینے کی جرات کرے گی جو مالی طور پر کمزور ہو۔اب تو ایک جلسہ پر کروڑوں روپے خرچ ہوجا تے ہیں اور متوسط طبقے کا فرد تو کروڑوں کی دوڑ سے کوسوں دور ہو تا ہے۔اسی لئے اس کیلئے الیکشن میں امیدوار بننا بھی ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔اس کی قسمت میں نعرہ زن ہو نا ہی لکھا ہے جبکہ اسمبلی کا ممبر بننا اس مخصوص طبقے کا استحقاق ہے جسے ہم جاگیردار ،سرمایہ دار،سردار،وڈیرہ اور صنعتکار کہہ کر پکارتے ہیں۔
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے منشور ،ر،نظریے اور کمٹمنٹ سے اپنا مقام بناتی ہیں ۔نظریے سے کمٹمنٹ ہی کسی جماعت کی پہچان بنتی ہے۔عوامی رائے کو ااپنے حق میں تبدیل کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔سالہا سال کی محنت کے بعد پھل کسی جماعت کا مقدر بنتا ہے لیکن اس پھل کو کھانے والے یکا یک نمو دار ہو جاتے ہیں۔ اور جن کی محنت اور قربا نیو ں سے درخت پر پھل لگتا ہے انھیں پیچھے دھکیل دیا جا تا ہے۔پاکستان میں کمزور جمہوری عمل کی ایک وجہ اس طرح کے موقعہ پرست سیاستدانوں کو اپنی جماعتوں میں شامل کر کے انھیں ٹکٹ تھما دینا بھی ہے ۔ساری حیاتی جماعت کیلئے قربانی دینے واے کارکنوں کی جس طرح حق تلفی ہو تی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔راتوں رات پارٹی بدلنے والے اور نئی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے والے ٹکٹوں کے حقداد قرار پاتے ہیں اور سالہا سال سے جدو جہد کرنے والے اور جماعت کا علم بلند کرنے والوں کوکونے کھدروںمیں د ھکیل دیا جا تا ہے۔ہر انتخاب کے موقعہ پر قومی مفاد میں یہی روائتی سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کی کسی نئی جماعت میں وار د ہو جاتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وزارت کے منصب پر فائز ہو جا تے ہیں ۔یہی ہے وہ چکر بو دھی جو ہماری سیات کی پہچان ہے اور جس کاخمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے ۔،۔