زندگی بھی عجیب پہیلی ہے۔ اس کو جتنا سلجھانے کی کوشش کرواتنا الجھتی جاتی ہے۔ زندگی کو زندہ رکھنے کے لئے کیا سے کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ کبھی خود کو قربان کرتی نظر آتی ہے، تو کبھی قربانی مانگتی ہے۔ زندگی شاید محلوں میں خوش بھی رہتی ہو گی۔ مگر تنکوں کی بنی جھونپڑی میں بے بسی کا لبادہ اوڑھے رہتی ہے۔
میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے زندگی کو لاچار، بے بس، جاگیروں کے ظلم سہتے پایا ہے۔ غریبوں کے گھر پلنے والی زندگی یونہی ہوا کرتی ہے۔ جاگیرداروں کے آگے پیچھے دم ہلاتی، فیکٹریوں میں آفیسروں کے جوتے صاف کرتی نظر آتی ہے۔ کوٹھیوں میں دن بھر فرش صاف کرتی، بات بہ بات پر ہتک آمیز فقرے سنتی رہتی ہے۔ کوئی غلطی سرزد کیا ہوئی، نوکری گئی۔
نوکری تو خیر آتی جاتی رہتی ہے لیکن جو زندگی کی عزت افزائی ہوتی ہے ،زمانہ دیکھتا ہے۔کبھی کانچ کا کلاس ٹوٹنے پر زندگی بے آبرو ہوتی ہے تو کبھی اپنی عزت و آبرو بچاتے ہوئے وڈیرے کے خون خار بیٹے سے لٹ جاتی ہے۔کتنی بے بس زندگی ہے ۔اپنوں کی کفالت کے لئے در ،در کی خاک چھانتی ہے۔دو وقت کی دال روٹی کیلئے کیا سے کیا جتن کرتی ہے۔
ہم جہاں رہتے ہیں وہاں جس کی لاٹھی اس کی بھنس کا قانون لاگو ہے۔یعنی چور بھی وہی اور قانون بھی ان کاچلتا ہے۔آپ نے مشہور کہاوت ضرور سنی ہوگی (الٹا چور کتوال کو ڈانٹے)والی بات ہے۔ جاگیردار اور ان کے بیٹے اپنی ہوس پوری کرنے کے لئے، ہاریوں، مزارعوں کی بیویوں اور بیٹوں کو نوچتے رہتے ہیں ۔جس نے آواز اٹھائی جان سے گئے۔
Punjab
پنجاب کے ساتھ ساتھ پاکستان کے چاروں صوبوں میں یہی چل رہا ہے۔ کبھی غریب کی بیٹی کو ونی چڑھا دیا جاتا تو کبھی سنسار کر دیا جاتا ہے۔ان جاگیرداروں کو کوئی کچھ نہیں کہتا کیونکہ حکومت بھی انہی کی ہے یا ان کے مشوروں سے چلتی ہے۔غریب ہمیشہ مظلوم رہا ہے۔
ماشااللہ!پاکستان میں سیاست بھی انہی کا ورثہ ہے۔نہ غریب حکومت کرسکتا ہے اور نہ یہ کرنے دیتے ہیں۔پاکستان کی سیاست چند گھرانوں تک محدود ہے۔انہی کا قبضہ ہے۔انہوں نے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے۔انہی کے بیٹے،انہی کے داماد،انہی کے بہنوئی بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔چاہے ان کے پاس جعلی ڈگریاں ہوں یا ان کو الف،ب کا بھی پتہ نہ ہو۔کرسی ان کا مقدر ہے اور رہے کا۔ غریب صرف اور صرف اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو تعلیم تو دلوا سکتا ہے مگر نوکری نہیں،نہ اس کے بس کی بات ہے۔در،در کی ٹھوکریں ان کا مقدر ہیں اور اس کے گلے کی مالا بنی رہیں گی۔غریب کی تقدیر کبھی بھی نہیں بدلے گی،کیونکہ اس قوم نے تو قائداعظم کو نہیں چھوڑا،لیاقت علی خاں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
میری زندگی بھی اسی حصار کے گرد گھومتی ہے۔میں نے اپنے غریب والد کے مرہون منت،میٹرک،پھر انٹرمیڈیٹ کیا۔تعلیم جاری تھی مگر تعلیم دلوانے والا مٹی کے نیچے سو گیا۔ہاں غریب چاچا سبزی والا موت کا ذائقہ چکھ گیا۔بیماریوں سے لڑتے لڑتے آخر ہار گیا۔اس کے خواب تھے کہ میرے بیٹے تعلیم حاصل کرکے میرا سہارا بنے گے۔مگر اسے خبر ہی نہیں تھی کہ اس دیس میں ڈگریاں رکھنے والے سڑکوں کی خاک چھانتے پھرتے ہیں اور انگوٹھا چھاپ عہدوں پر فائز ہیں۔میرے جیسے لاکھوں نوجوان ڈگریاں تھمے نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔نجانے ان کے کندھوں پر کیا کیا ذمہ داریاں ہوگی۔؟ مگر کریں بھی تو کیا جن کو اپنے پیٹ کے لئے دو وقت کی روٹی تلاش کے باوجود نہیں ملتی۔
وہ خاندان کی کفالت کیا کریں گے۔بہت سے ایسے تھے جو دل برداشتہ ہو کر خودکشی کر گئے اور کئی خود کشی کرنے والے ہیں۔
پاکستان میں خود کشی کی شرح روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جن میں زیادہ تعداد بے روزگار نوجوانوں کی ہے۔حکومت کانوں میں روئی ٹھونسے،آنکھوں پر پردے سجائے،اپنی تجوریاں بھرنے میں لگی ہے۔بیچارے نوجوان بلک رہے ہیں۔
آنسو بہا رہے ہیں ۔کوئی تو ان کا مسیحا ہوتا۔؟کوئی تو ان کی دادرسی کرتا۔؟ میری حکومت اور سیاسی لوگوں سے استدعا ہے کہ ان نوجوانوںکو ریلیف دیں اور نوکریاں دیں تاکہ یہ ملک کے لئے کام کر سیکں اور اپنے خاندانوں کی کفالت کر سکیں کیونکہ یہی تو اس ملک کا مستقبل ہیں۔
انہی نے ملک کی باگ ڈوڑ سنبھالنی ہے۔ ملک کا نام روشن کرنا ہے۔ ان کی نظریں آپ کی طرف اٹھی ہیں اور فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ قانون آپ کا ہے، حکومت آپ کی ہے۔ ا ب مرضی آپ کی ہے کہ ان کی امیدوں کے چراغ بجھا دیں یا ان کا مستقبل روشن کرنے میں اپنا کردارادا کریں۔
Majeed Ahmed
تحریر : مجید احمد جائی ۔۔۔۔(ملتان) majeed.ahmed2011@gmail.com