تحریر : مجیداحمد جائی زندگی بھی کیا عجب شئے ہے۔کچے دھاگے کی طرح نازک ،ملائم سی،اُلجھی اُلجھی مگر امر بیل کی طرح گڈ مڈ۔اس کو جتنا سُلجھانے کی کوشش کرواُتنی ہی الجھنیں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔زندگی کو زندہ رکھنے کے لئے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔آنسوئوں کو ہتھیلی پر سجانا پڑتا ہے۔نمکین سیلاب جب بے قابو ہوتا ہے تو جانے کتنے دل چکنا چُور ہو جاتے ہیں۔کتنی ہستیاں اس کی منہ زور لہروں کی زد میں آجاتی ہیں۔کہیں زندگی ناچ رہی ہے ،موج مستی سے لوٹ پھوٹ ہو رہی ہے۔کہیں ماتم و کناں،ننگے بدن مفلسی،غریبی ،لاچاری کا مجسمہ بنی بیٹھی ہے۔کہیں لاغر،بیمار کھانستی، ٹوٹی چارپائی پر پڑی منہ چڑھا رہی ہے۔کہیں زندگی لٹ رہی ہے ،کہیں لٹا رہی ہے۔کہیں نشے میں دھت اپنی عزت کو خاک میں ملا رہی ہے۔کہیں اپنی عزت کی رکھوالی کرتے ہوئے قربان ہو جاتی ہے۔کہیں گھٹ گھٹ کے جی رہی ہے۔کہیں اپنے پیروں کو مٹی تک نہیں لگنے دیتی ۔کہیں درد و غم سے اندرہی اندر دھواں کی طرح دُھک رہی ہے۔
کہیں عیاشی میں مست ہے تو کہیں بھوک و افلاس کے پہاڑوں تلے دبی ہے۔کہیں ناچ رہی ہے کہیں ناچا رہی ہے۔کہیں کٹ پُتلی بنی ہے تو کہیں کٹ پُتلی بنا رہی ہے۔زندگی کے فلسفے کو ن جان پایا ہے۔کون جاننے کی کوشش کرتا ہے۔کسی کے پاس اپنے لئے وقت نہیں ہے پھر بھلا اسے سلجھانے کے لئے وقت کہاں سے لائے ۔کوئی کہتا ہے زندگی ایک پہیلی ہے۔کوئی کہتا ہے زندگی ریاضی سے بھی کئی گنامشکل سبجکیٹ ہے۔کسی نے اسے اسٹیج کا نام دیا جہاں ہر فنکار آتا ہے اور اپنے فن ،کرداراداکرتے رخصت ہو جاتا ہے۔کسی نے زندگی کو پانی کا بلبلا کہا پل بھر میں بنا اور لمحہ بھر میں ہوائوں کی نظر ہو کر فنا ہو گیا۔میرے خیال میںزندگی ایک نہ حل ہونے والا مشکل ترین سوال ہے۔زندگی جو بھی بڑی ڈھیٹ اور بے شرم ہے۔خود کو ننگا کرکے تماشا بنی ہوئی ہے۔اپنے ہی جسموں پر ضربیں لگا کر خود سے ہی انتقام لیتی رہتی ہے۔کہیں بچوں کی خاطر جہاں بھر سے لڑتی نظر آتی ہے۔کہیں غربت ،مفلسی ،سے تنگ ہے ۔کہیں ظلم سہتی ہے۔نہ آہ ہے نہ چیخ و پکار۔بے بسی کا مجسمہ بنی ہوئی ہے۔
ناجانے کس مٹی سے بنی ہے۔اس کو جتنا ستائو،جتنا تڑپائو،کیسے ہی ظلم کے پہاڑ گرِائو۔کتنے ہی اس کی راہوں میں کانٹے بکھیرو،اسے اذیت سے دوچار کرو،اس کی راہوں میں رولڑے اٹکائو۔ہر حال میں جینا چاہتی ہے۔زندگی فنا ہونے کے خواب نہیں دیکھنا چاہتی۔ہمیشہ جینا چاہتی ہے۔ہمیشہ قائم رہنا چاہتی ہے۔چاہے اس سے نہریں کھودوا لیں۔چاہے اسے بھوک وافلاس کی چکی میں پِستے رہیں۔یہ فنا نہیں ہو نا چاہتی،مرنا نہیں چاہتی۔ہمیشہ پاکستانی حکمرانوں کی طرح مسلط رہنا چاہتی ہے۔اپنا سکہ قائم رکھنا چاہتی ہے۔اپنی حکومت جاری و ساری چاہتی ہے کیا زندگی موت سے ڈرتی ہے؟
Corruption
زندگی موت سے ڈرتی تو گناہ کیوں ہوتے۔آنچل بے آبرو کیوں ہوتے رشوت، کرپشن، سود کے سودے کیوں ہوتے۔بے ایمانی،بد عنوانی ڈھٹائی سے کیوں ہوتی۔ماں ،بیٹی کا گلہ کیوں دباتی،بیٹا باپ کو گھر سے بے گھر کیوں کرتا زمین پر فساد ہی کیوں ہوتے۔بھائی چارہ قائم رہتا ،محبت ہوتی ،چاہتیں ہوتی۔مسکراہٹیں ،قلقاریاں ہوتی۔خوشیوئوں کے میلے ہوتے۔ہر چہرہ مسکراتا ہوتا۔ہر چہر ہ امن کا پیروکار ہوتا۔زندگی کو موت کا خوف ہے ہی نہیں۔زندگی تو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہے۔اس لئے تو میں نے زندگی کو ڈھیٹ کہا ہے۔
زندگی ہے ناں ڈھیٹ ،جنت کے اعلی شان محلے چھوڑ کر شیطان مردو کے پیچھے چل نکلی ہے۔اب جنت کی طلب گار تو ہے مگر جنت میں جانے والے کام نہیں کرتی زندگی کو داد دینے کو دل کرتا ہے۔زندگی نے نافرمان ہو کر خود کو ذلیل و خوار کر دیا ہے۔شیطانیت اپنا کر اس نے رحمان کے وعدے کو جھٹلایا ہے ،جدید مشینوں میںگزر رہی ہے۔درد سہہ رہی ہے۔درد دے رہی ہے۔نجانے کیوں؟ نجانے کیوں رب رحمان کے قانون کو جھٹلانا چاہتی ہے۔اپنا قانون مسلط کرنا چاہتی ہے۔اپنی سیاست چلانا چاہتی ہے۔خود حکمران بن کر خدا بننا چاہتی ہے۔مگر آخر کب تک۔؟اس کی تمام اُمنگیں ،تمام جدوجہد رائیگاں جائیں گی۔چاہے خود کو مشکلات میں ڈالے رہے۔پھولوں کی وادیوں میں ناچتی پھرے۔اسے فنا ضرور ہونا ہے۔کیونکہ سچا،پکا قانون رب رحمان کا ہے۔ زندگی فنا کے لئے ہی بنی ہے اور اسے فنا ہونا ہی پڑے گا۔
کیونکہ ہر ذی شے نے موت کا مزہ چکھنا ہی چکھنا ہے۔پھر اس پگلی ،نادان زندگی کو کون سمجھائے۔؟آئے میری پیاری سی زندگی وہ راستہ اختیار کر جس میں راحت ہو ،امن ہو سکون ہو،محبت ہو،بہار ہی بہار ہو۔رب رحمان کی رضا میں راضی رہنا حقیقی زندگی ہے۔آئے زندگی اپنے آپ کو رحمان کی مرضی میں ڈھال لو پھر دیکھنا کتنی آسانیاں ہوتی ہیں۔ہر سو سکون ہی سکون ہو گا۔امن ہو گا ،پیار ہو گا۔بھائی چارہ ہوگا۔دہشت گردی کا نام و نشان تک نہیں رہے گا۔آخر تم نے رب رحمان کے پاس لوٹ کر جانا ہی ہے۔پھر کیوں ناں وہ کام کرو جس سے دُنیا و آخرت میں سرخُرو ہو سکو۔دُنیا تو فانی ہے۔تم نے زندہ رہنا ہے تو رحمان کے قانون کو اپنے اوپر مسلط کر لو۔