نوجوان فرید الدین مسعود گنج شکر کو اپنی منزل بلکل قریب نظر آ رہی تھی جس مسیحا کا وہ برسوں سے انتظار کر رہا تھا اُس مسیحا کو اُس نے آج اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا’ صبح اُس مسیحا عظیم کو ملنے جانا تھا رات ساری کروٹیں بدلتے گزر گئی ‘ انتظار تھا کہ کب اُس روشن چہرے اور معطر خوشبو والے بزر گ کی زیارت دوبارہ ہو گی جو باطن کے اندھیروں کو دور کر ے گا جو بارگاہ الٰہی تک پہچانے کے لیے پُل کا کردار ادا کر ے گا جو مشعل راہ بن کر منزل تک راہنمائی کر ے گا ‘ ایک ایک لمحہ صدی پر محیط لگ رہا تھا ہجر کی آگ سے جوان فرید بلک رہا تھا ساری رات انتظار کی صلیب پر لٹکا رہا صبح فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد فریدا لدین مسعود گنج شکر خواجہ قطب الدین سے ملنے کے لیے حضرت بہائو الدین ذکر یا ملتانی کی خانقا ہ کی طرف تیزی سے بڑھنے لگے لیکن وہاں پر چراغ چشت خواجہ قطب کے ہزاروں دیوانوں کا رش لگا ہوا تھا مشتا قان دیدار خواجہ قطب کے چہرہ مبارک کی ایک جھلک کے لیے سیلاب کی طرح اُمڈ آئے تھے پورا ملتا ن شہر خواجہ قطب کی قدم بوسی کے لیے حاضر تھا اور عقیدت و احترام دیکھ کر فرید الدین پر بھی کیف و نشاط کی پھوار پڑنے لگی۔
انگ انگ میں معرفت کا حشر برپا ہونے لگا عجیب کیفیت و سرور سے جسم پر لرزا سا طاری تھا بے خودی کے عجب عالم میں فرید الدین دیر تک ایک ستون سے ٹیک لگائے دیوانوں کے جنون کو دیکھتے رہے جب حالت کچھ سنبھلی تو خانقاہ کے ایک خادم سے جاکر کہامیں بھی شہنشاہ دہلی خواجہ قطب کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہو اہوں ‘ میں بھی اپنی تشنہ روح کو سیراب کر نے آیا ہوں خادم جوان فرید الدین کی باطنی کیفیت سے بے خبر تھا آپ کو ایک عام سا جوان سمجھ کر نظر انداز کر تے ہوئے بولا ‘ شہر کے با اثر اہم لوگ حضرت خواجہ قطب سے ملنے آئے ہو ئے ہیں اُن کے پاس اتنا وقت کہا کہ تم جیسے عام جوان سے ملیں لہذا تم آرام سے یہاں پر قطار میں لگ کر کھڑے ہوجائو’ جب شیخ دہلی یہاں سے گزریں گے تو تم بھی دیدار کر لینا ملاقات کا خیال دل سے نکال دو اور صرف دیدار کی سعادت کو ہی ملاقات سمجھو لیکن فریدالدین مسعود با ر بار التجا کر رہے تھے کہ میں خواجہ دہلی شہنشاہِ دہلی کے چہرے کی ایک جھلک کے لیے ساری عمر انتظار میں گزار سکتا ہوں اور یہ میری سعادت ہو گی۔
زندگی کا نچوڑ ہو گا لیکن تم ایک بارخواجہ شہنشاہ جی سے جا کر کہو تو سہی شاید مُجھ حقیر فقیر غلام کی قسمت سنور جائے اور آپ مجھے قدم بوسی کی سعادت بخش دیں اب خادم انکار اور فرید الدین التجا درخواست کر رہے تھے آخر کار آپ کے بے پناہ اصرار کے بعد خادم کا د ل نرم پڑھ گیا اور بو لا ٹھیک ہے لیکن تم بتائو اندر جا کر کیا کہوں کون ملنے آیا ہے اب اگر انہوں نے بلا لیا تو تمہاری قسمت ورنہ یہاں پر ہی قطار میں دیدار کرلینا ۔ فریدا لدین کو امید کی کرن نظر آئی مضطرب ہو کر بولے شہنشاہ سے جاکر عرض کر نا غلام طالب علم فرید حاضر ہوا ہے اب خادم اِ س خیال کے ساتھ اندر گیا کہ اکابرین شہر اور علما ء کرام کے ہجوم میں خواجہ قطب کہاں اِس طالب علم کو شرف ملاقات بخشیں گے لیکن معاملہ کچھ اور ہی نکلا جب خادم نے لرزتے ہو نٹوں سے خواجہ قطب سے جاکر کہاکہ فرید نامی طالب علم قدم بوسی کی اجازت چاہتا ہے توحضرت خواجہ قطب خوشی اور والہانہ لہجے میں پکار اٹھے ہاں ہاں جلدی کرو اُس کو اندر بھیجوں ہم اُسی کا تو انتظار کر رہے ہیں۔
اُس کی ملاقات کے لیے ہی تو ہم بیکر انتظار ہیں فوری اُس کو اندر بھیجوں خادم حیران پریشان باہر کی طرف لپکا کہ اِس جوان طالب علم میں ایسی کو نسی خاص بات ہے جو کہ خواہ قطب خلیفہ اکبر شہنشاہ ہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ملنے کے لیے بیتاب بیٹھے ہیں جاکر بولا جائوخواجہ قطب تمہارا انتظار کر رہے ہیں جوان فرید لرزتے لرزتے لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ وقت کے دو عظیم ترین اولیا کی خدمت میں حاضر ہوا ایسی محفل عرفان جہاں پرتاریخ تصوف کے دو عظیم ترین چشمہ معرفت پیاسے دلوں کو سیراب کر رہے تھے خواجہ قطب الدین کے ساتھ بہائو الدین ذکریا ملتانی محفل پر جلال برس رہا تھا کہ کسی کی آنکھ نہیں اٹھ رہی تھی جوان فرید جاکر سر جھکائے دونوں بزرگوں کے سامنے بیٹھ گئے خواجہ قطب پیار بھری نظروں سے جوان فریدالدین کو دیکھتے رہے پھر دل آویز لہجے میں بہاء الدین ذکریا سے مخاطب ہوئے شیخ یہ ہے فرید میرا فرید ‘ دونوں بزرگ مستقبل کے اُس پار آنے والے زمانے کو دیکھ رہے تھے جس پر اِس جوان کی روحانی حکومت ہو نی تھی بہائو الدین ذکریا بولے ماشاء اللہ ماشاء اللہ پھر دونوں بزرگ فرید کے باے میں باتیں کر نے لگے۔
فرید الدین کیف و مستی میںدونوں بزرگوں کی باتیں سن رہے تھے لیکن عقیدت و احترام ادب کے سمندر میں غرق کہ نظر اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ تھی دونوں بزرگوں کی صحبت کی روحانی شبنمی پھوار سے فرید الدین کی بنجر روح سیراب اور مدہوش ہو تی رہی ۔ اِس ملاقات کے بعد فرید الدین ہر وقت غلام زادے کی طرح لگے رہتے ایک دن موقع ملا تو خواجہ قطب کے قدموں پر ہاتھ رکھ کر عرض کیا یہ غلام آپ کے قدموں سے ہمیشہ کے لیے لپٹنا چاہتا ہے آپ کے چشتی رنگ میں خود کو اور باطن کو رنگنا چاہتا ہے۔
چشتی رنگ سے باطن کے اندھیروں کو دور کر نا چاہتا ہوں اِس غلام کو ہمیشہ کے لیے غلامی کا اعزاز بخش دیں خواجہ قطب جوان فرید کی دیوانگی دیکھ کر مسکرائے اور بولے جلدی تمہیں چشتی رنگ میں رنگ دیا جائے گا اور پھر تمہارے رنگ سے لاکھوں اندھے بہرے لوگ رنگے جائیں گے یہ رنگ سازی روز محشر تک جاری رہے گی پھر وہ دن آیا جب خواجہ قطب ملتان سے واپس دہلی کے لیے رخصت ہو نے لگے تو فرید الدین مسعود بھی آپ کے ساتھ چل دئیے لیکن تین منزل گزر جانے کے بعد خواجہ قطب نے ایک مقام پر ٹہر کر فرید سے کہا بابا فرید اب تم یہاں سے واپس چلے جائو جا کر دنیاوی علوم بھی حاصل کرو خدا کی زمین اور مختلف علاقوں کی سیر اور مشاہدہ کرو دیکھو خدا کے بندے کس رنگ میں کہاں کہاں پر ڈیوٹی دے رہے ہیں جوان فرید یہ سن کر اداس ہو گئے گلو گیر لہجے میں بولے شاہا اِس غلام کو اپنے قدموں سے لپٹا رہنے دیں تو قطب بولے یہ جدائی عارضی ہے ایک دن تم جب دہلی آئو گے تو مجھے اپنا منتظر پا ئو گے ۔ اِسطرح بابا فرید اٹھارہ سال کی عمر میں چشتی رنگ میں بیعت ہو گئے بابا فرید دینی دنیاوی مدرسے سے اب روحانی اسرار سے بھری وادی تصوف میں داخل ہو گئے۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org