تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی پائی خیل حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمة اللہ علیہ کی ولادت ماہِ شعبان المعظم ٥١٣ ھجری میں ہوئی ۔آپ رحمة اللہ علیہ موضع کدکن کے رہنے والے تھے۔یہ گائوں ایران کے شہر نیشاپور میں واقع ہے۔آپ رحمة اللہ علیہ کااصل نام محمدبن ابی بکر ابراہیم، کنیت ابوحامدیا ابو طالب، لقب فریدالدین، تخلص عطار ہے۔چونکہ آبائی پیشہ عطاری تھااسی لئے” عطار”اور”فرید”تخلص کے طور پر لکھتے تھے۔اسی وجہ سے اپنے قلمی نام” شیخ فریدالدین عطار”کے نام سے مشہورہوئے۔آپ رحمة اللہ علیہ کے والدابوبکرابراہیم چونکہ مشہور”عطار”تھے ۔اسی لئے شیخ نے ابتدائی عمرمیں اسی عطاری کی دکان پرکام کیا۔ اسی دوران میں طب بھی پڑھی۔اوربحیثیت ایک طبیب خدمت خلق کرنے لگے۔ آپ رحمة اللہ علیہ ابتداء ہی میں فارغ البال تھے اسلئے دوسرے شعراء کی طرح انہیں شاعری کاپیشہ ذریعہ معاش کے لئے نہیں اپناناپڑا۔شیخ فریدالدین عطاررحمة اللہ علیہ اوائل عمری سے شباب تک علوم وفنون کی تحصیل میں مصروف رہے۔آپ رحمة اللہ علیہ نے مختلف علوم متداولہ مثلاًعلم کلام،نجوم،فلسفہ ،قرآن وحدیث،فقہ ،طب اورادب میں مہارت حاصل کی ۔آپ رحمة اللہ علیہ کے اشعارمیں مذکورہ علوم وفنون کے اثرات نمایاں طورپرنظرآتے ہیں۔شیخ فریدالدین رحمة اللہ علیہ جوانی کے دنوں میں اپنے والدکے مرشدقطب الدین حیدرسے فیضیاب ہوئے اورانہی کی نگرانی میں تصوف ومعرفت کے مدارج طے کئے ۔بچپن ہی سے آپ رحمة اللہ علیہ کودرویشوں اورصوفیوں کے پاس بیٹھناپسندکرتے تھے۔آپ رحمة اللہ علیہ نے معرفت وسلوک کے منازل طے کرتے ہوئے اپنی زندگی اوراپنے پیش رو علماء و صوفیاء کے حالات وکوائف کابھی جابجاذکرکیاہے۔اپنی عمراوراپنے عشق ومحبت کے پیچیدہ منازل کوکن حالات میں طے کیاہے۔اس کاذکران کی تخلیقات میں جابجاملتاہے۔اپنی زندگی کے سترسال کی کیفیت اس اندازسے بیان کرتے ہیں۔
چون زمقصودخودندیدم بوی سوی عمررہم زیان آمد دین ہفتاوسالہ دادبباد مردمیخانہ مغان آمد
آپ رحمة اللہ علیہ کی ”توبہ” اور”تارک الدنیا”ہونے کاایک واقعہ عام تذکرہ نگاروں نے درج کیاہے۔شیخ عبدالرحمن جامی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں۔”ایک روزشیخ فریدالدین عطاررحمة اللہ علیہ اپنی دکان کے کاروبارمیں مصروف تھے۔دکان کامال سنبھال رہے تھے ۔اورروپے پیسے کے الٹ پھیرمیں مشغول تھے ۔کہ اچانک ایک ”درویش” آیااس نے اللہ کے نام پرخیرات کاسوال کیا۔شیخ فریدالدین عطاررحمة اللہ علیہ اپنے کاروبارمیں مصروف تھے ۔درویش کی صداپرکوئی توجہ نہ دی۔بلکہ روپے پیسے کی ریل پیل میں لگے رہے۔صدالگانے والے ”درویش ”نے کہادنیامیں اس قدرلگے ہوئے ہوتوآخر”آپ” کوموت کب آئے گی؟حضرت شیخ فریدالدین عطاررحمة اللہ علیہ نے غصہ میں جواب دیاجس طرح تمہیں موت آئے گی،مجھے بھی اسی طرح موت آئے گی۔صدالگانے والے ”درویش”نے کہاکہ میری طرح مرناچاہتے ہو؟یہ کہہ کر”درویش”نے اپنالکڑی کاپیالہ سرہانے رکھازمین پرلیٹازبان سے کلمہ پڑھتے ہوئے”داعی اجل ”کولبیک کہا۔آپ رحمة اللہ علیہ یہ منظردیکھ کردنیاوی کاموں سے دست بردارہوگئے ساراشفاخانہ اوردوسرے احباب دنیاکولوگوں میںلٹادیااورعشق الٰہی کی دکان پرآبیٹھے۔
حضرت شیخ فریدالدین عطاررحمة اللہ علیہ بھی مشرق کے ان علماء میں سے ہیں جن کے” پندونصائح” سے صرف اہل مشرق ہی نہیں بلکہ اہل مغرب کے بسنے والوں نے بھی فیض حاصل کیا۔شیخ فریدالدین عطاررحمتہ اللہ علیہ محض ایک ”ادیب ”اور”شاعر”کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ وہ علم تصوف اورعلم اخلاق کے ایسے ناموراستادمانے گئے ہیں جن کے زریں اقوال پرآج بھی دنیاسردھن رہی ہے اوران شاء اللہ دھنتی رہے گی۔کیونکہ آپ رحمة اللہ علیہ کاعلمی خاصہ اوراثرآج بھی ”فارسی شاعری” اورصوفیانہ رنگ میں نمایا ںہے۔”تذکرة الاولیائ” اور”منطق الطیر”جیسی اہم فارسی کتب آپ کی تصانیف ہیں ۔آپ رحمة اللہ علیہ نے شاعری بھی کی۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے شیخ رکن الدین اسکاف کی خدمت میں کئی سال بسر کئے اورآخر کار شیخ مجددالدین بغدادی کے ہاتھ پربیعت کی اورآگے چل کر سلوک ومعارف کے وہ مراتب طے کئے کہ خود مرشد کے لئے باعث فخر ہوئے۔آپ رحمة اللہ علیہ مشہورمشائخ اوربزرگان دین کی صحبت میں بیٹھتے رہے۔حضرت مولاناجلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں۔”کہ حضرت حسین منصورحلاج کی روح نے ڈیرھ سوسال بعدحضرت عطاررحمة اللہ علیہ پر”اثر”کیااسطرح حضرت عطار،آپ رحمة اللہ علیہ کے زیراثرآئے۔شیخ جلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ جن کو”مولانا روم”کہاجاتاہے۔اپنے بچپن میں شیخ عطارکی خدمت میں حاضرہوئے۔اسی وقت شیخ عطارنے اپنارسالہ ”اسرارنامہ ”ان کودیا۔مولاناجلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ جیسے عارف باللہ اورمعرفت سلوک کے دلدادہ عطارکی تعریف کیے بغیررہ نہ سکے ۔مولاناجلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ سے زیادہ بھلاکون عطارکوسمجھ پایاہوگا۔مولاناجلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ نے ”عطار”کی بلندی وبرتری کے واضح اورروشن پہلوئوں کااحاطہ کیے ہوئے یوں مدح سرائی کی۔
عطارروح بودوسنائی دوچشم او ماازپی سنائی وعطارآمدیم
مولاناجلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ نے عطاراورسنائی کی عظمت کااقرارکیاہے اورساتھ ہی ان سے فیوض وبرکات بھی حاصل کیے۔مولاناجلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ دوسری جگہ ”عطار”کی پذیرائی اس اندازسے کرتے ہیں۔
من آن ملای رومی ام کہ ازنطقم شکرریزد ولیکن درسخن گفتن غلام شیخ عطارم
مولاناروم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میری شاعری میں مٹھاس ہی مٹھاس ہے لیکن میری شاعری کااصل منبع ومرجع شیخ فریدالدین عطاررحمة اللہ علیہ کی ذات ہے۔شاعری کے میدان میں خودکومیں شیخ فریدالدین عطاررحمة اللہ علیہ کاغلام تصورکرتاہوں۔اس قول سے عطارکی فضیلت وبرتری کااندازہ لگاناکوئی مشکل کام نہیں۔تذکرہ نویسوں نے لکھاہے کہ ”عطار”نے دنیاکے مختلف ممالک کادورہ کیااوردوران معرفت شیخ فریدالدین عطاررحمة اللہ صرف عارفوں اورصوفیوں کے حالات کی جستجومیں نہیں لگے رہے۔بلکہ خودبھی معرفت کی منازل طے کرتے رہے۔شیخ فریدالدین عطاررحمة اللہ علیہ نے مصر،دمشق،مکہ،ترکستان اورہندوستان کاسفرکیا۔ان اسفارنے شیخ فریدالدین عطاررحمة اللہ علیہ کوجلابخشی اورعلماء وفضلاء کی صحبت کاخاصااثرقبول کیا۔عطارنے سلوک ومعرفت کی شناخت کے منازل طے کرتے ہوئے جوبزرگی اورشہرت ناموری حاصل کی اسکی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضرت مولاناجلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ شیخ فریدالدین عطاررحمة اللہ علیہ کوان الفاظ میں واردِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
ہفت شہرعشق راعطارگشت ماہنوزاندرخم یک کوچہ ایم
حضرت شیخ فریدالدین عطاررحمة اللہ علیہ نے عشق کے سات شہروں کی سیرکی ہے۔مگرہم ابھی تک کوچہ عشق کاایک گوشہ بھی طے کرنے نہیں پائے۔ شیخ فریدالدین عطاررحمة اللہ علیہ کی پوری زندگی تجربات کاایک سمندرہے۔”دربیان صفت زنان وصبیان”کے تحت آپ رحمة اللہ علیہ اپنے احساسات کواس طرح منظوم کرتے ہیں۔
چارچیزاست ازخطاہاای پسر گوش دارش باتوگویم سربسر اول اززن داشتن چشم وفا سادہ دل رابس خطاباشدخطا ایمنی زابلہ خطای دیگراست صحبت صبیان ازینہابدتراست چارمی ازمکردشمن ایمنی کے کنددشمن بغیرازدشمنی
چارچیزیں خطاکے زمرے میں آتی ہیں۔پہلی چیزعورت سے وفاکی امیدکرنااوربیوقوف سے بے خوف وپُراطمینان ہونا،بچوں کی صحبت ان دونوں چیزوں سے بُری ہے۔چوتھی چیزدشمن کے مکروفریب سے بے خوف رہناکیونکہ دشمن ماسوائے دشمنی کے اورکیاتوقع کی جاسکتی ہے؟
”پندنامہ”ایک مختصرسی کتاب ہے لیکن اس میں عطارنے زندگی گزارنے کاجوہنرپیش کیاہے اس پرعمل آوری کے ذریعہ زندگی بامقصداورخوشگواربنائی جاسکتی ہے۔”منطق الطیر”شیخ عطاررحمة اللہ علیہ کاشاہکارہے اس کتاب میں انہوں نے تصوف کے مسائل کوتمثیل کی صورت میں بیان کیاہے۔
اسی کتاب سے ایک دوحکایات درج کی جاری ہیں۔ حکایات اس ماں کی جس کالڑکاپانی میں گرگیاتھا۔
ایک ماں کابچہ گہرے پانیوں میں گرگیااورماں بچاری مامتاکی ماری تڑپ اُٹھی ۔بچہ حیرانی اورپریشانی کے عالم میں ہاتھ پائوں ماررہاتھا۔پانی اس کی گردن کوچُھورہاتھا۔پانی کاریلااس کوآگے ہی آگے بہاکرلے جارہاتھا۔جب ماں نے دیکھاتوپیچھے سے پانی میں کودپڑی۔اورجلدی سے بچے کوبہتے پانی میں سے نکال لیااسے گودمیں لیااوردودھ پلایا۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !اپنی امت پر آپ ماں سے کہیں زیادہ مشفق اورزیادہ مہربان ہیں ۔میں بھی گناہوں کی ندی میں ڈوبنے لگاہوں ۔مہربانی فرماکرمجھے باہرنکال لیجیے ۔میں گناہوں کے گرداب میں حیران وپریشان ہوکرپھنساپڑاہوں۔میری حالت اس بچے کی طرح ہے جوپانی میں ڈوب چلاہو۔میں اسی پریشانی میں ہاتھ پائوں ماررہاہوں۔اے اپنے بچوں پرشفقت کرنے والے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم !مہربانی فرماکرغرق ہونیوالے اپنے بچے کوبچالیجیے ۔ہماری اس جان پررحم کیجیے ۔جوآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دورہوکرگہرے پانیوں میں ڈوب رہی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہرطرح کے وصف اورادراک سے بالاترہیں اوروصف کرنیوالوں کے وصف سے پاک ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مقام عالیہ پرکسی کودسترس اوررسائی نہیںہے ۔ہم آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خاک کی بھی خاک ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے یاراوراصحاب ہی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خاک تھے ۔اورباقی ساراعالم تیری اس خاک کی بھی خاک تھے۔جوبھی تیرے اصحاب اورتیرے یارو ںکی خاک نہیں ہے۔وہ تیرے دوستوں کادشمن ہے۔سب سے اوّل حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورآخرمیں حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چاروں یارصدق وصفاکے کعبہ کے چاررکن ہیں۔ایک ان میں سے صدق میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاہمرازاوروزیرتھا۔اوردوسراعدل وانصاف میں روشن سورج تھا۔تیسراشرم وحیاکادریاتھا۔اورچوتھاباب العلم اورباب السخاوت تھا۔جوکوئی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اہل بیت سے بغض رکھتاہے۔وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعددشمنی کابیج بوتاہے۔اورجودل وجان سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آل کامطیع ہوگیاوہ تیرے ہی راستہ پرصحیح جارہاہے۔سب سے آخرمیں امام مہدی آئیں گے ۔جوآل مرتضیٰ میں سے ہوں گے ۔یہ تمام ایمان کارکن ہیں اورآل مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں۔
حکایت اور تمثیل ایک بے وقوف آدمی ادھرادھرسے کسی مسافراوراجنبی کواپنے گھرمیں کھاناکھلانے کے بہانے لے آتاتھااورپھرگھرمیں اسے لاکراس کے ہاتھ پائوں باندھ کراسکی گردن اتاردیتایہ اس کامشغلہ تھا۔ایک دن وہ حسب معمول کسی مسافرکواپنے گھرمیں کھاناکھلانے کے بہانے لے آیااوراس کے ہاتھ پائوں باندھ دیے۔پھروہ دوسرے کمرے میں تلوارلینے کے لئے گیاپیچھے سے اس کی بیوی نے اسے بھوکاسمجھ کرروٹی کاٹکڑادیاکہ تم ابھی قتل ہوجائوگے اسلئے اپنی بھوک توکم ازکم مٹالو۔اتنے میں وہ ظالم تلوارلے کرآگیااس نے دیکھاکہ وہ روٹی کاٹکڑاکھارہاہے۔اس نے پوچھایہ روٹی تمہیں کس نے دی ہے؟اس نے جواب دیاتمہاری بیوی نے دی ہے۔جب اس نے یہ جواب سناتوکہاکہ اب تمہیں قتل کرنامجھ پرحرام ہے۔کیونکہ جس نے میرانمک کھالیاہے میں اس کاسرگردن سے نہیں اتارسکتا۔یہ میرااصول ہے کہ جس نے میرانمک کھالیاہو۔میں اسکی گردن نہیں اتارتا۔بلکہ میں اپنے مہمان پراپنی جان قربان کرتا ہوں۔
شیخ فریدالدین عطاررحمة اللہ علیہ یہ حکایت اورتمثیل بیان کرنے کے بعدفرماتے ہیں۔کہ اے اللہ!جب سے میں پیداہواہوں تیرارزق کھارہاہوں ۔اورجب کوئی آدمی کسی کی روٹی کھاتاہے۔توروٹی کھلانے والااس کی حفاظت کرتاہے۔اوراسے کوئی تکلیف نہیں پہنچاتا۔اے اللہ!توسخاوت کاایک سمندرہے۔اورمیں نے طرح طرح کی تیری نعمتیںکھائی ہیں۔اب مہربانی کرکے میرے گناہ بخش دے۔اورقیامت کے دن مجھے کوئی سزانہ دینا۔
اے اللہ !میں ایک عاجزبنداہوں اورگناہوں کی ندامت سے خون کے آنسورورہاہوں۔میں خشک زمین پرکشتی چلاتارہاہوں۔یعنی بے فائدہ کام کرتارہاہوں ۔اب تو!میری دستگیری فرمااورمیری فریادرسی کر۔میں نے مکھی کی طرح اپنے ہاتھ اپنے سرپررکھے ہوئے ہیںیعنی فریادکررہاہوں۔اے گناہ بخشنے والے !میری توبہ قبول فرما۔میں توپہلے ہی گناہوں کی آگ میں جل چکاہوں۔اب تومجھے دوزخ کی آگ میں نہ جلانا۔ندامت اورشرمساری کیوجہ سے میراخون بھی جوش کھارہاہے۔میں نے بہت گناہ کیے ہیں ۔تومیرے گناہوں پرپردہ ڈال۔غفلت سے سینکڑوں گناہ مجھ سے سرزدہوئے۔تواس کے عوض میں اب سینکڑوں رحمتوں سے مجھے نوازدے۔اے بادشاہ!مجھ مسکین کی پکڑدھکڑنہ کرنااگرچہ مجھ سے گناہ سرزدہوئے ہیں۔مگراب توان کی سزامجھے نہ دینا۔میں اپنی بیوقوفی کیوجہ سے گناہ کربیٹھاہوں۔تومجھے بخش دے ۔میرے دردمنداوردکھی دل و جان پررحم فرما۔اگرچہ میری آنکھیں ظاہری طور پرنہیں روتیںلیکن پوشیدہ طورپرمیری جان اندرہی اندرزاروقطاررورہی ہے۔اے میرے پیداکرنے والے !اگرمیں نے اچھے اوربرے کام کیے۔تووہ خوداپنے آپ پرکیے۔تومیرے برے اورغلط کاموں کو معاف کردے۔اورمجھ سے جوغلطی سرزدہوگئی ہے۔اسے درگزرفرمادے۔میں اپنے غم میں مبتلا ہوں اورحیران وپریشان ہوں۔اگرنیک ہوں یابراہوں بہرحال تیرابندہ ہوںمیں تیرے بغیرناقص اورادھوراہوں۔مہربانی کی ایک نظرسے میری طرف دیکھ تاکہ میں کُل ہوجائوں اورمیرانقص اورادھوراپن زائل ہوجائے۔میرے پُرخون دل کی طرف ایک نظرکراورمجھے اس دلدل سے باہرنکال لے۔
اگرتومجھے ایک باراپنانالائق بندہ کہہ کرپکاردے تومیرے لئے یہ بھی بہت غنیمت ہے کیونکہ میں تیرانالائق بندہ بن جاناہی اپنے لئے بہت کچھ سمجھتاہوں۔میں کیسے کہوں؟کہ میں تیراغلام ہوں۔میں اپنی کمرپرتیری غلامی کانشان رکھتاہوں ۔میرے دل پرتیری محبت کاداغ ہے۔جوحبشیوں کے داغ سے ملتاجلتاہے۔اگرمیں تیراغلام بھی نہ بن سکوں توپھرمیں کس طرح سعادت مندبن سکتاہوں؟میں نے تیراغلام بننے کے لئے اپنے سینے کوبھی زنگیوں کی طرح غلامی کی علامت بنایاہواہے۔اے اللہ!اپنے داغ والے غلام کواورکسی کے آگے نہ بیچنابلکہ مجھ غلام کے کان میںاپنی غلامی کاحلقہ ڈال دینا۔اے اللہ!تیرے فضل وکرم سے کوئی بھی ناامیدنہیں ہے۔میرے لئے اتناہی اعزازکافی ہے۔کہ تیری غلامی کاحلقہ ہمیشہ کے لئے میری گردن میں پڑاہواہے۔جسکادل تیرے دردسے خوش نہیںہے خداکرے وہ دل کبھی خوش نہ ہوایساآدمی جوان مردنہیں ہے۔
اے اللہ!تیراتھوڑاسادردبھی میرادرمان ہے۔کیونکہ تیرے دردکے بغیرمیری جان مردہ ہے۔کافرکے لئے کفرکافی ہے اوردیندارکے لئے دین کافی ہے۔مگرعطاررحمة اللہ علیہ کے دل کے لئے تیراتھوڑاسادردہی کافی ہے۔
اے رب !تومیرے ”یارب ”کہنے سے واقف ہے۔تومیری غم زدہ راتوں میں میرے پاس ہی ہوتاہے۔اے اللہ!میراغم حدسے بڑھ گیاہے۔اب تھوڑی سی مجھے خوشی بھی عطافرما۔میں اندھیرے میں کروٹیں بدل رہاہوں مجھے نورعطافرما۔
اس غم میں تومیراسہارابن۔میراکوئی دستگیرنہیں ہے۔توہی میری دستگیری کر۔مسلمانی کے نورکی لذت عطافرما۔میرے ”نفس امارہ” کوہلاک کردے۔میں وہ ذرہ ہوں جوسائے میں گم چکاہوں ۔اب زندگی کاکوئی سرمایہ میرے پاس نہیں ہے۔میں تیری اس بارگاہ کاسوالی ہوںجوآفتاب کی مانندہے۔شایداس طرح مجھے روشنی کی کچھ خیرات مل جائے۔میں ایک پریشانی اورسرگشتہ ذرہ کی مانندہوں تیرے نورکی جھلک دیکھوں گاتواس سے چمٹ جائوں گا۔اوراس دریچہ سے نکل کرایک روشن دنیامیں پہنچ جائوں گا۔یعنی نفس کے ظلمت خانہ سے نکل کرارواح کے نورانی عالم میں پہنچ جائوں گا۔اے اللہ!چونکہ تیرے بغیرمیرااورکوئی نہیں ہے۔اس لئے جب میری جان نکلے تواسوقت تومیرے پاس ہونا۔یعنی جب میں فوت ہوجائوں گااگراس وقت تومیرے ساتھ نہ ہواتومجھ پرافسوس ہے۔اے اللہ !میں اُمیدرکھتاہوں کہ توا سوقت میرے پاس ہوگاکیونکہ تو”قادرمطلق ”ہے۔(حکایات فریدالدین،منطق الطیر)
حضرت شیخ فریدالدین عطاررحمة اللہ علیہ نے نظم ونثر میں بہت سی تصنیفات چھوڑی ہیں ۔جن کی تعداد قاضی نوراللہ شوستری کی مجالس المومنین میں ١١٤ ہے۔ان میں سے جو مشہور ہیں وہ درج ذیل ہیں۔تذکرئہ اولیا،مقامات الطیوریامنطق الطیر ،مصیبت نامہ،اسرارنامہ،الٰہی نامہ ،دیوان ،بیئر نامہ ،پندنامہ ،وصیت نامہ ،خسرووگل اورشر ح القلب،جواہرنامہ،مختارنامہ،شاہنامہ وغیرہ آپ رحمة اللہ علیہ کی مشہورکتابیں ہیں۔
واقعہ شہادت: آپ رحمة اللہ علیہ کی شہادت کا واقعہ تذکرہ نگاروں نے اس طرح لکھا ہے کہ تاتاریوں کے عین ہنگامے میں ایک سپاہی نے شیخ کوگرفتار کیا ایک راہ گیر نے بڑھ کر کہا کہ ”دیکھنا اس مرد ضعیف کو قتل نہ کردینا دس ہزار اشرفیاں نقد دیتاہوں کہ ان کو چھوڑ دو”شیخ نے کہا خبردار اتنے پر مجھے فروخت نہ کردینا میری اس سے کہیں زیادہ قیمت ہے۔”سپاہی خوش ہوا کہ اس سے بھی زیادہ دولت ہاتھ آئے گی اوروہ بھی بالکل مفت آگے بڑھ گیا۔آگے ایک اورشخص ملا۔اس نے کہا کہ میاں سپاہی اس بوڑھے کومجھے دے ڈالو میں ایک گٹھا گھاس کا اس کے معاوضے میں دیتا ہوں شیخ بولے ہاں دے ڈال کہ میری قیمت اس سے بھی کم ہے۔سپاہی کے تن بدن میںآگ لگ گئی کہ دس ہزار اشرفیاں ملتی ہوئی ہاتھ سے گئیں۔ جھلا کر وہیں سر تن سے جدا کرڈالا۔آپ رحمة اللہ علیہ نے ٦٢٧یا٦٢٨ہجری میں وفات پائی ۔شہادت کے وقت آپ کی عمرایک سوچودہ سال تھی،آپ رحمة اللہ علیہ کامزارنیشاپورمیں واقع ہے۔الا ان اولیاء اللّٰہ لا خوف علیھم ولا ہم یحزنون۔
شہ عالم فریدالدین عطار فریدالدین ولی محبوب ہادی بگومہدی فریدالدین مقبول وحیدالعصرصوفی مصفا بخواں تولیدآن شاہ معلی کہ گردوسال عقل ازنقل پیدا(خزینة الاصفیائ)